Urwatul-Wusqaa - Az-Zukhruf : 4
وَ اِنَّهٗ فِیْۤ اُمِّ الْكِتٰبِ لَدَیْنَا لَعَلِیٌّ حَكِیْمٌؕ
وَاِنَّهٗ : اور بیشک وہ فِيْٓ اُمِّ الْكِتٰبِ : ام الکتاب میں ہے لَدَيْنَا : ہمارے پاس لَعَلِيٌّ حَكِيْمٌ : البتہ بلند ہے، حکمت سے لبریز ہے
اور بلاشبہ یہ (قرآن) ہمارے پاس لوح محفوظ میں (موجود) ہے بلند مرتبہ حکمت والا ہے
یہ قرآن کریم اُم الکتب میں موجود ہے جو بہت بلند اور حکمت والا ہے 4 ؎ { ام الکتب } کیا ہے ؟ { ام } کے معنی ماں کے ہیں اور ہر اس چیز کو بھی { أم } کہتے ہیں جو کسی چیز کے وجود یا اس کی تربیت ، اس کی اصلاح یا اس کی ابتداء کے لیے اصل ہو۔ (راغب) اس لحاظ سے { أم } وہ چیز یا اصل ہے جس سے دوسری چیز پیدا ہوتی ہے یا جس سے دوسری چیزیں متفرع ہوتی ہیں اس لیے ہمارے خیال میں اس جگہ { أم الکتب } سے اصول ہی مراد ہو سکتے ہیں اور مطلب یہ ہے کہ کوئی نئی طرز کی کتاب نہیں بلکہ اس کے اصول وہی اصول ہیں جو گزشتہ آسمانی کتابوں کے تھے اور اس کا نازل کرنے والا اللہ وہی ہے جو گزشتہ کتابوں کا نازل کرنے والا تھا اس لیے جو گزشتہ کتابوں میں لوگوں نے تحریف کی تھی ؟ اس کو چھوڑ دیا گیا ہے اور اب انہیں اصولوں کے تحت اس کتاب قرآن کریم کو نازل کیا گیا ہے جو آسمانی کتابوں کے نازل کرنے میں مقرر کیے گئے تھے گویا یہ کتاب آسمانی علوم کی محیط ہے۔ قرآن کریم کا خلاصہ سورة فاتحہ میں بیان کیا گیا ہے اس لیے لسان رسول ﷺ سے فاتحہ کو بھی ام الکتب کا نام دیا گیا ہے اور اسی سے مصحف کی ابتدا ہوتی ہے رہی وہ صورت جو مفسرین نے بیان کی کہ یہ علم ازلی و ابدی سے ہے اور یہ کہ لوح محفوظ ایک مقام ہے جہاں یہ قرآن کریم محفوظ کردیا گیا ہے تو بلاشبہ علم ازلی و ابدی سے کوئی چیز باہر نہیں ہے اور کوئی چیز بھی ایسی نہیں جو اللہ تعالیٰ کے ہاں محفوظ نہ ہو جیسا کہ ارشاد الٰہی ہے کہ { ولا رطبٍ ولا یابس الا فی کتاب مبین } (الانعام 59:6) ” تر اور خشک میں سے کوئی چیز بھی ایسی نہیں جو کھلی کتاب میں موجود نہ ہو۔ “ ظاہر ہے کہ اس میں اللہ تعالیٰ کے علم کی وسعت ہی کا بیان ہے کیونکہ اعمال کی جزا و سزا کا تعلق علم ہی سے ہے۔ کوئی عمل بھی ہو اور کیسا بھی ہو اس ذات الٰہ سے وہ پوشیدہ نہیں ہو سکتا۔ اس لیے علم الٰہی میں کسی چیز کا محفوظ نہ ہونا سلیم ہی نہیں ہے۔ پھر اس کتاب کی تخصیص کیا رہی۔ اس لیے جو وضاحت اوپر ہم نے بیان کی ہے کہ یہ کتاب انہیں اصولوں کو بیان کرتی ہے جن اصولوں کو گزشتہ کتابیں بیان کرتی رہی ہیں کیونکہ وہی اصول { ام الکتب } ہیں اور اسی طرح ان سارے لوگوں کو جنہوں نے قرآن کریم کو شعر ، سحر ، افتراء پردازی اور من گھڑت قرار دیا تھا سب کو مخاطب کر کے بتا دیا ہے کہ جس چیز کو تم اس طرح کے ناموں سے تعبیر کر رہے ہو وہ تو ایک بہت ہی عالی مقام چیز ہے کبھی کاہنوں کی کہانت ، شاعروں کی شاعری اور خطیبوں کی خطابت اور ساحروں کی ساحری بھی ایسی ہو سکتی ہے تمہاری کس طرح مت ماری گئی ہے اور تم کیسی کیسی باتیں بیان کرتے ہو ، وہ العلی الحکیم کی طرف سے ایک نہایت ہی برقرار پر حکمت کتاب نازل کی گئی ہے اور دنیا میں جو اس کائناتِ ارضی کی ایک کھلی کتاب ہے جتنے علوم ہیں یہ کتاب ان سب پر محیط ہے اور اس کے آنے کے بعد جو دنیا میں ترقی ہوئی ہے کبھی پہلے نہیں ہوئی اور ہر ایک ترقی کے اصول میں مخفی رکھے گئے ہیں گویا یہ وہ علوم کی کان ہے کہ اس کے علوم کو جوں جوں نکالوگے یہ نکلتے ہی جائیں گے یہاں تک کہ اس دنیا کا خاتمہ ہوجائے لیکن اس کے علوم کا آخر (End) نہیں آئے گا کیونکہ یہ لامتناہی تعلیمات کا منبہ و مخزن ہے اس لیے ہم نے اس کو ” کان “ سے تشبیہہ دی ہے اور بلاشبہ یہ نہ ختم ہونے والا خزانہ اور ایسا بحرمحیط ہے کہ اس میں جو غوطہ زن ہوگا نئی سے نئی اشیاء نکالتا ہی جائے گا جو انسان کے لیے اس دنیا میں بھی کام آئیں گی اور آخرت بھی ان سے سنورے گی۔ ہاں ! یہ غوطہ زن پر انحصار ہے کہ وہ کیسا غوطہ لگاتا ہے اور کیا نکال کر لاتا ہے اس لیے جو اس کو ترک کرے گا اور اس کی ہدایت کے مطابق عمل نہیں کرے گا وہ اپنا ہی نقصان کرے گا ، اس کتاب کا وہ کچھ نہیں بگاڑ سکتا کیونکہ وہ کسی تعریف کی محتاج نہیں ہے اور عظمت ذاتی ہے جو تاقیام قیامت بحال رہے گی۔
Top