Tafseer-e-Majidi - Al-Baqara : 33
قَالَ یٰۤاٰدَمُ اَنْۢبِئْهُمْ بِاَسْمَآئِهِمْ١ۚ فَلَمَّاۤ اَنْۢبَاَهُمْ بِاَسْمَآئِهِمْ١ۙ قَالَ اَلَمْ اَقُلْ لَّكُمْ اِنِّیْۤ اَعْلَمُ غَیْبَ السَّمٰوٰتِ وَ الْاَرْضِ١ۙ وَ اَعْلَمُ مَا تُبْدُوْنَ وَ مَا كُنْتُمْ تَكْتُمُوْنَ
قَالَ : اس نے فرمایا يَآ : اے اٰدَمُ : آدم اَنْبِئْهُمْ : انہیں بتادے بِاَسْمَآئِهِمْ : ان کے نام فَلَمَّا : سو جب اَنْبَاَهُمْ : اس نے انہیں بتلایا بِاَسْمَائِهِمْ : ان کے نام قَالَ : فرمایا اَلَمْ : کیا نہیں اَقُلْ : میں نے کہا لَكُمْ : تمہیں اِنِّیْ : کہ میں اَعْلَمُ : جانتا ہوں غَيْبَ : چھپی ہوئی باتیں السَّمَاوَاتِ : آسمانوں وَالْاَرْضِ : اور زمین وَاَعْلَمُ : اور میں جانتا ہوں مَا : جو تُبْدُوْنَ : تم ظاہر کرتے ہو وَمَا : اور جو كُنْتُمْ تَكْتُمُوْنَ : تم چھپاتے ہو
(اللہ نے) فرمایا اے آدم ، ، بتلا دو انہیں ان کے نام۔120 ۔ پھر جب انہوں نے انہیں ان کے نام بتلادیئے۔121 ۔ تو فرمایا122 ۔ میں نے تم سے کہا نہ تھا کہ میں آسمانوں اور زمین کی چھپی ہوئی چیزیں جانتا ہوں اور جو کہ تم ظاہر کرتے ہو، اور جو کچھ تم چھپاتے ہو وہ سب جانتا ہوں۔123 ۔
120 (یعنی فرشتوں کو اشیاء کائنات کے آثار و خواص) اسماء پر حاشیہ اوپر گزر چکا۔ جب فرشتے اظہار عجز کرچکے، تو اب آدم (علیہ السلام) سے ارشاد ہوا کہ تم اپنے معلومات کا اظہار کرو۔ آدم (علیہ السلام) کی فضیلت اس علم تکوینی ہی کی بنا پر تو تھی۔ 121 ۔ یعنی حضرت آدم (علیہ السلام) جب امتحان میں پورے اتر چکے، اپنے معلومات تکوینی کا اظہار سارے خلائق پر کردیا، اور اس طرح ان کا شرف عیانا ساری کائنات پر ثابت ہوگیا۔ 122 ۔ خطاب کا یہاں براہ راست ملائکہ سے ہونا تو ظاہر ہی ہے۔ لیکن عجب نہیں کہ بالواسطہ ساری مخلوق سے ہو۔ 123 ۔ گویا آیت نمبر 30 میں (آیت) ” انی اعلم ما لاتعلمون “ کی جو اجمالی حقیقت بیان ہوئی تھی، اب اس کی تفصیل ہوگئی۔ اور ضمنا ان مسائل کی تعلیم آگئی کہ علم کل ؔ صرف ذات باری کا خاصہ ہے۔ اور خالق کے لامحدودو نامتناہی علم سے مخلوق، اعلی سے اعلی مخلوق کے بھی علم کو کوئی نسبت نہیں۔ مفسرین نے یہاں ایک روایت نقل کی ہے کہ آدم کا ابھی جسد خاکی ہی تیار ہوا تھا اور روح ابھی اس میں نہیں پڑی تھی کہ ادھر سے ابلیس کا گزر فرشتوں کی ایک جماعت کے ساتھ ہوا۔ ہمراہیوں سے پوچھا کہ یہ نئی مخلوق اگر ہم سب پر حاکم بنا دی گئی تو کیا کرو گے ؟ فرشتے بولے کہ جان ودل سے اطاعت کریں گے اور کیا کریں گے۔ اس پر ابلیس نے اپنے دل میں کہا کہ مجھ سے تو اطاعت نہ ہوگی، میں تو خود ہی اس پر غلبہ حاصل کروں گا۔ اور مفسرین کا خیال ہے کہ آیت میں (آیت) ” ماتبدون “ کا تعلق فرشتوں کے اعلان اطاعت اور اظہار طاعت سے ہے، اور (آیت) ” ما کنتم تکتمون “ کا تعلق ابلیس کے اخفاء بغاوت سے۔ لیکن خطاب کو اگر شروع ہی سے ساری مخلوق کے لیے عام لے لیا جائے (جیسا کہ ابھی اوپر کے حاشیہ میں گزر چکا) تو پھر اس روایت سے استناد کی کوئی ضرورت نہیں رہ جاتی۔
Top