Urwatul-Wusqaa - Al-Hujuraat : 6
یٰۤاَیُّهَا الَّذِیْنَ اٰمَنُوْۤا اِنْ جَآءَكُمْ فَاسِقٌۢ بِنَبَاٍ فَتَبَیَّنُوْۤا اَنْ تُصِیْبُوْا قَوْمًۢا بِجَهَالَةٍ فَتُصْبِحُوْا عَلٰى مَا فَعَلْتُمْ نٰدِمِیْنَ
يٰٓاَيُّهَا : اے الَّذِيْنَ اٰمَنُوْٓا : جو لوگ ایمان لائے اِنْ : اگر جَآءَكُمْ : آئے تمہارے پاس فَاسِقٌۢ : کوئی فاسق بدکردار بِنَبَاٍ : خبرلے کر فَتَبَيَّنُوْٓا : تو خوب تحقیق کرلیاکرو اَنْ تُصِيْبُوْا : کہیں تم ضرر پہنچاؤ قَوْمًۢا : کسی قوم کو بِجَهَالَةٍ : نادانی سے فَتُصْبِحُوْا : پھر ہو عَلٰي : پر مَا : جو فَعَلْتُمْ : تم نے کیا (اپنا کیا) نٰدِمِيْنَ : نادم
اے ایمان والو ! اگر کوئی جلد باز تمہارے پاس کوئی خبر لائے تو تحقیق کرلیا کرو (ایسا نہ ہو کہ) کہیں تم کسی قوم کو نادانی سے نقصان پہنچا دو پھر تم کو اپنے کیے پر پچھتانا پڑے ؟
ایک بات کو سن کر اس کے صحیح یا غلط ہونے کی جانچ کرنا بھی ایمان والوں کے لیے ضروری ہے 6 ۔ یہ بات بھی ان باتوں میں سے ہے جن کا مسلمانوں کو حکم دیا جارہا ہے کہ تم ایسا اور ایسا ضرور کیا کرو اور اسی طرح ایسا اور ایسا بالکل نہ کیا کرو یعنی نفی اور اثبات دونوں طرح کے احکام ہیں ان میں سے یک یہ حکم بھی ہے کہ جب تم کسی شخص سے کوئی بات سنو تو سنتے ہی آگے مت پہنچائو بلکہ توقف کرو یہاں تک کہ اس کے صحیح یا غلط ہونے کی تصدیق ہوجائے پھر یہ بھی کہ باتوں کی اپنی اپنی اہمیت ہوتی ہے جتنی بات اہم ہوگی اتنی ہی اس کی احتیاط زیادہ ہوگی اس طرح بعض باتیں انفرادی ہوتی ہیں اور بعض اجتماعی ، قومی اور انفرادی باتوں کی تحقیق بھی ضروری ہے لیکن انفرادی کے مقابلہ میں اجتماعی باتوں کی تحقیق کی اور بھی زیادہ ضرورت ہوتی ہے اس طرح خبر دینے والے شخص پر بھی بہت نحصار ہوتا ہے کہ خبر دینے والا کیسا آدمی ہے ثقہ اور پختہ کردار کا یا سطحی اور عوامی ذہن و دماغ کا غیر ثقہ اور غیر پختہ لیکن تحقیق حل ہر حال میں ضروری ہے مطلب یہ ہے کہ کسی خبر کے سن لینے کے بعد اس پر جتنے پہلوئوں پر غور و فکر ضروری ہو ان سارے پہلوئوں پر غور و فکر کرو اور تحقیق کا جو طریقہ سہل اور بہتر ہو اس کو اسی انداز سے اختیار کرتے ہوئے کرو جو کچھ کرنا چاہتے ہو بات کو سنتے ہی فوراً کوئی ایسا اقدام نہ کر بیٹھو کہ بعد میں تم کو پچھتاوا ہو کہ ہم نے جلدی میں کیا کردیا اور اس کی تحقیق کیوں نہ کرلی بلاشبہ زندگی میں ایسے بہت سے واقعات پیش آسکتے ہیں جن پر انسان احتیاط نہ کرنے کے باعث منہ کے بل گر جاتا ہے اور اپنا نقصن جلد بازی میں کر بیٹھتا ہ کے اور پھر جب علم ہوتا ہے کہ میں نے کیا کیا تو اس کو حسرت و افسوس ہونے لگتا ہے لیکن جو ہوجائے اس پر جتنا بھی افسوس کیا جائے وہ کام تو واپس نہیں ہوتا اور نہ ہی ہوسکتا ہے حکم عام ہے اس لیے ہم ان تمام واقعات سے چشم پوشی کر رہے ہیں جن کو شان نزول کے طور پر بیان کیا گیا ہے وہ بدو تھے یا گنوار و اعراب ان سے ایسی باتیں جہالت کے باعث سرزد ہوئیں یا انہوں نے جان بوجھ کر کیں ہمیں اس کے کھوج کی کوئی ضرورت نہیں اور نہ ہی اس کھوج سے ہم کو کوئی فائدہ ہوگا اتیج بات تو ہے کہ وہ نبی اعظم و آخر ﷺ کے زمانہ کے لوگ تھے یہ بات تو اپنی جگہ محقق ہوے کہ ان کو جاہل اور کم عقل کہا گیا ہے اور ظاہر ہ کے کہ جہالت اور کم عقلی اگر دونوں اکٹھی ہوں تو باوجود اس کے کہ نقصان کا احتمال بہت ہوتا ہے تاہم یہ ایسا عذر بھی ہے جو قابل قبول ہے اور یہی وجہ ہے کہ ان پر سخت قسم کی گرفت نہیں کی گئی اور ان کے اس رویہ کو منافقانہ رویہ قرار نہیں دیا گیا صرف یہ بات فرمائی گئی کہک ان لوگوں میں تہذیب و معاشرت کے آداب کی کمی تھی اور بہتر ہوتا کہ وہ اپنی اس کمی کو دور کرنے کی سعی و کوشش کرتے اگر نام لے کر ہی بات کرنا ضروری ہوتا تو اللہ تعالیٰ سے ان کے نام پوشیدہ نہیں تھے وہ ان کا نام بنام ذکر کرسکتا تھا جب اللہ تعالیٰ نے ایسا نہیں کیا بلکہ اس ذات اقس سے کسی غلطی کا کوئی احتمال بھی نہ تھا تو اپنے علم کا مظاہرہ کرتے ہوئے ایسی جہالت کیوں کریں گے پھر کوئی خوبی کی بات ہوتی تو نام لینے اور اس کی تحقیق کرنے کا ایک لطف اپنی جگہ ضرور ہوتا اس لیے اس معاملہ میں سعی و کوشش کسی تحسین کی مستحق ہوتی اس جگہ تو کمزوری اور کمی کا پہلو بیان کیا گیا ہ کے پھر کمزوری اور کمی کو معلوم کرنا ہو تو وہ محض اپنی کمیوں اور کمزوریوں کو معلوم کرنے کا فائدہ ہوسکتا ہے نہ کہ دوسروں کی کمیوں اور کمزوریوں سے بحث کرنا ہمارے نزدیک تو ایسا فعل و عمل بذات خود کمی اور کمزوری ہے خواہ وہ کسی سے بھی ہو اور کوئی بھی اس طرح کرنے کا مرتکب ہو ہم نے اس تفسیر میں اس طرح کی باتوں سے جو کسی کی ذات سے متعلق تھیں ان کا ذکر کرتے وقت ان اشخاص کا نام مطلق نہیں لیا ج کے متعلق مفسرین نے ان باتوں کی نسبت کی تھی اور خصوصاً صحابہ ؓ کے بارے میں بڑی احتیاط برتی ہے مجھے جہاں تک یاد ہے صرف اور صرف ایک جگہ میں نے نام بنام بات کی ہے جو ایک صحابی کے متعلق ہے اور اس وقت نہ معلوم کیوں یہ بات ذہن میں نہ رہی اور میں اعتراف کرتا ہوں کہ وہ میری فروگزاشت ہے اگر بات فی الواقع اسی طرح ہے جس طرح بیان کی گئی تو بھی مجھ کو نام کا ذکر نہیں کرنا چہیے تھا لیکن اگر بات ہی کچھ اور ہو جس کا زیادہ احتمال بھی ہے تو لاریب میں اس میں گنہگار ٹھہرا لیکن اب بات میرے اختیار سے نکل گئی کیونکہ وہ تحریر ہونے کے بعد طبع ہوگئی اور لوگوں نے اس کو پڑھ لیا وہ نام ” ثعلبہ ؓ “ کا تھا اس اشارہ سے کوئی سمجھنا چاہے گا تو سمجھ لے گا ورنہ دوبارہ نشاندہی کرنے سے ایک مزید خرابی ہوگی اور ثعلبہ ؓ بدری صحابی ہیں جن کی شان اور عزت و احترام اس بات کا تقاضا کرتا ہے کہ بات کہتے وقت ہر لحاظ سے غور و فکر کیا جائے کہ میں یہ بات کس کے متعلق کہہ رہا ہوں لیکن افسوس کہ مفسرین نے اس بات کا خیال بہت ہی کم رکھا ہے۔ بہرحال اس وقت جھے کہنا صرف یہ تھا کہ اس جگہ جس کو ” فاسق “ کہا گیا مفسرین نے اس کا نام تلاش کرنے میں بڑی تگ و دو کی لیکن میں پچھلی فروگزاشت کا بھی ماتم کررہا ہوں تو مزید ایسی بات کیوں کہوں گا وہ کوئی بھی ہے جس سے یہ ہدایت ہم کو دی جارہی ہے ہم کو چاہیے کہ اس ہدایت کو قبول کرتے ہوئے اپنی اصلاح کریں یہ واقعہ بنی مصطلق کے ہاں کسی کے جانے کا تھا یا کوئی دوسرا ، جانے والے کن صاحب تھے انہوں نے واپس آکر کیا کہا اس کا نتیجہ کیا نکلا یہی کہ مدینہ سے ایک لشکر تیار کرکے ان کی گوشمالی کے لیے بھیجا گیا لیکن وہاں پہنچ کر واقعہ کی جو تحقیق ہوئی تو بات ہی کچھ اور نکلی اللہ تعالیٰ نے مسلمانوں کی اصلاح کے لیے قرآن کریم میں یہ آیت اتار دی کہ جو ہوگیا سو ہوگیا اور ہم نے تم کو اس لیے آگاہ نہ کیا کہ تم کو احساس ہو کہ ایسے حالات میں انسان کیا کچھ کرجاتا ہے اور بعد میں پچھتاوا ہوتا ہے اب ہم تم کو بتا دیتے ہیں کہ ایسے حالات میں تم کو کیا کرنا چاہیے تھا تاکہ آئندہ تم سے کوئی ایسی حرکت سرزد نہ ہو ہم نے اس واقعہ کو بار بار پڑھا ، اس کی تلاش کی ، اس کو حفظ کیا ، اس کے معنی پڑھے پڑھائے ، اس کو لفظ لفظ یاد کیا بالکل صحیح لیکن جب وقت آتا ہے تو ہم وہی کچھ کرتے ہیں جس سے ہم کو منفع کیا گیا ہے ، کیوں ؟ اس لیے کہ ہمارے شعور میں یہ بات محفوظ ہوچکی ہے کہ فلاں صاحب سے ایک غلطی ہوئی تھی انہوں نے ایسا ایسا کیا تھا اور اس طرح ایک لشکر مدینہ سے نکلا تھا یوں اس کی تیاری ہوئی تھی اس لشکر کا سپہ سالار فلاں بہادر تھا ، یہ لشکر فلاں وقت وہاں پہنچا تھا اسلامی کمانڈر نے فلاں آدمی کو حالات معلوم کرنے کے لیے بھیجا تھا اس نے واپس آکر کہا تھا کہ وہاں اذان ہوتی ہے اور قرآن کریم کی تلاوت سنی گئی ہے وہاں کے لوگ مسلمان ہیں اور ارکان اسلام کو ادا کرر رہے ہیں پھر کمانڈر نے وہاں کے سردار کو بلایا تو وہ زکوٰۃ کی ادائیگی کے لیے مدینہ منورہ روانہ ہوچکا تھا اور اسی طرح پڑھ کر خس مجھ کر سمجھا کر ہم مطمئن ہوجاتے ہیں اور جب وقت آتا ہ کے تو ہم خود اسی جہالت کا مظاہرہ کرتے ہیں اور پھر اسی ندامت سے دوچار ہوتے ہیں لیکن جب کسی واقعہ کی تحقیق کا وقت آتا ہے تو ہم نے کبھی یہ غور نہیں کیا کہ قرآن کریم کی ہدایت کیا ہے اور ہم کس طرح بےپر کی اڑا رہے ہیں اور اس وقت یہ جتنی بیماری مذہی رہنمائوں ، علمائوں اور سیاسی لیڈروں ، پیروں ، مرشوں اور شیوخ الاشیاخ میں پائی جاتی ہے اتنی عوام کالا نعام میں بھی نہیں اس سے ہم کیا سمجھیں ؟ کہ ہم نے اس ہداتی کو بطور ہدایت قبول کیا اور ہمارے ان سار محترموں نے اس کی کیا عزت کی ؟ کیا یہ حکم ہمارے لیے اور ہمارے ان سارے محترموں کے لیے نہیں تھا ؟ کیا ہم یہ ہدایت مرنے والوں کے لیے سمجھتے ہیں کہ ان کی قبروں پر اور ان کی مذہبی روسومات پر ہم اس کی تلاوت کرکے ان کو ثواب پہنچاتے ہیں قرآن کریم کیوں نازل کیا گیا اور ہم نے اس کو کس کام کے لیے مخصوص کردیا پھر تعجب ہے کہ ہمارا پڑھا لکھا سمجھدار اور عقل و فکر رکھنے والا طبقہ بھی اسی ڈگر پر چل نکلا جس ڈگر پر ان کے باپ دادا چل رہے تھے اے اللہ ! اے رب ذوالجلال والا کرام ہم کو قرآن کریم سمجھنے اور اس کے مطابق عمل کرنے کی توفیق عطا فرما۔ الے اللہ ! ہم کو سیدھی راہ چلنے اور اس پر قائم رہنے کی ہمت دے۔
Top