Urwatul-Wusqaa - Al-Maaida : 60
قُلْ هَلْ اُنَبِّئُكُمْ بِشَرٍّ مِّنْ ذٰلِكَ مَثُوْبَةً عِنْدَ اللّٰهِ١ؕ مَنْ لَّعَنَهُ اللّٰهُ وَ غَضِبَ عَلَیْهِ وَ جَعَلَ مِنْهُمُ الْقِرَدَةَ وَ الْخَنَازِیْرَ وَ عَبَدَ الطَّاغُوْتَ١ؕ اُولٰٓئِكَ شَرٌّ مَّكَانًا وَّ اَضَلُّ عَنْ سَوَآءِ السَّبِیْلِ
قُلْ : آپ کہ دیں هَلْ : کیا اُنَبِّئُكُمْ : تمہیں بتلاؤں بِشَرٍّ : بدتر مِّنْ : سے ذٰلِكَ : اس مَثُوْبَةً : ٹھکانہ (جزا) عِنْدَ : ہاں اللّٰهِ : اللہ مَنْ : جو۔ جس لَّعَنَهُ : اس پر لعنت کی اللّٰهُ : اللہ وَغَضِبَ : اور غضب کیا عَلَيْهِ : اس پر وَجَعَلَ : اور بنادیا مِنْهُمُ : ان سے الْقِرَدَةَ : بندر (جمع) وَالْخَنَازِيْرَ : اور خنزیر (جمع) وَعَبَدَ : اور غلامی الطَّاغُوْتَ : طاغوت اُولٰٓئِكَ : وہی لوگ شَرٌّ : بد ترین مَّكَانًا : درجہ میں وَّاَضَلُّ : بہت بہکے ہوئے عَنْ : سے سَوَآءِ : سیدھا السَّبِيْلِ : راستہ
تم کہو کیا میں تمہیں بتلاؤں اللہ کے ہاں کون زیادہ بدتر ہوا ؟ وہ لوگ جن کو اللہ نے لعنت کی اور اپنا غضب اتارا اور ان میں سے کتنوں ہی کو بندر اور سور (کی طرح) کردیا اور وہ جو شریر قوّتوں کو پوجنے لگے یہی لوگ ہیں جو بدتر ہیں درجے میں اور سیدھی راہ سے بھٹکے ہوئے
اچھا آؤ میں تم کو بتاؤں کہ اللہ کے حضور کون برا ہے ؟ : 167: روایات میں آتا ہے کہ چند یہودی جن میں ابو یاسر بن اخطب اور رافع بن ابی رافع بھی تھے نبی اعظم و آخر ﷺ کے پاس حاضر ہوئے اور آپ ﷺ سے پوچھنے لگے کہ آپ ﷺ کن کن رسولوں کو مانتے ہیں ۔ نبی کریم ﷺ نے سورة آل عمران کی آیت 84 کی تلاوت فرمائی : جو قُلْ اٰمَنَّا بِاللّٰهِ وَ مَاۤ اُنْزِلَ عَلَیْنَا سے نَحْنُ لَهٗ مُسْلِمُوْنَ 0084 تک جس میں گذشتہ انبیاء (علیہم السلام) کے نام آئے ہیں۔ رسول اللہ ﷺ ان اسماء میں سے جب حضرت عیسیٰ (علیہ السلام) کے اسم گرامی کی تلاوت کی تو یہودیوں نے حضرت عیسیٰ (علیہ السلام) کی نبوت کا انکار کرتے ہوئے کہا : واللہ لا تعلیم دنیا شرامن دینکم ” اللہ کی قسم ہم تمہارے دین سے برا کوئی اور دین نہیں جانتے۔ “ ان کے جواب میں یہ آیت نازل ہوئی اور انہیں بتا دیا گیا کہ برے اور شریر وہ ہیں جن کو اللہ تعالیٰ نے اپنی بارگاہ رحمت سے دور کردیا اور اس طرح اس کی مزید تشریح فرمائی۔ برے وہ ہیں جو اللہ تعالیٰ کی لعنت کے مستحق ٹھہرے اور ان پر اللہ کا غضب نازل ہوا : 168: برے وہی ہیں جن پر اللہ تعالیٰ کی لعنت اور پھٹکار پڑی اور وہ اپنی بدکرداریوں کی پاداش میں اوصاف انسانی سے نکل کر بندروں اور سوروں کے اوصاف کے حامل ہو گے ۔ انسان کی خواہش اور اس کے عمل کے درمیان سے جب عقل و ارادہ کی کڑی غائب ہوجائے اور وہ یکسر اپنی خواہش کا غلام بن کر رہ جائے تو پھر اس کے اور حیوانات کے درمیان کوئی خاص فرق باقی نہیں رہتا وہ ظاہری شکل و صورت سے بلاشبہ انسان نظر آتا ہے لیکن اپنے اوصاف کے باعث وہ حیوان ہی ہوتا ہے بلکہ اس سے بھی بدتر پھر حیوانوں میں سے بھی بندر اور خنزیر وہ جانور ایسے ہیں جو نہایت ہی برے اوصاف کے حامل ہیں خنزیر بےغیرتی میں اور بندر شرارتوں میں معروف ہے اور جو قوم بےغیرت بھی ہو اور شرارتی بھی ان پر ان دونوں جانوروں کا اطلاق کرنا انسانی بول چال اور محاورہ کے عین مطابق ہے اور یہی قرآن کریم نے بیان کیا ہے کہ تم وہ لوگ ہو جن کا باطن مسخ ہو کر رہ گیا ہے اور حقیقت میں نگاہیں تمہاری سیرت و کردار کا عکس تمہاری صورتوں میں بالکل دیکھ رہی ہیں تم غازہ اور پاوڈر سے کتنا ہی چھپا نے کی کوشش کرو جب سیرت کردار انسانی نہ ہو اتو تم انسان کا ہے کو ہوئے۔ جب تم اللہ کے ایک جلیل القدر رسول حضرت عیسیٰ (علیہ السلام) کو محض اپنے قومی بغض وعناد کے باعث ایک صحیح النسب انسان بھی تسلیم کرنے کے لئے تیار نہیں تو اس کا مطلب یہ ہے کہ تم انسانی اوصاف سے بالکل عاری ہو اور حیوانوں میں سے بھی تمہاری مثال بندر اور خنزیر ہی کے ساتھ دی جاسکتی ہے جو اپنی شرارت اور بےغرکتی کے باعث برے اور ناپاک شمار کئے جاتے ہیں ۔ قرآن کریم نے دوسری جگہ علمائے یہود کو گدھے کے مماثل بیان کیا ہے ۔ چناچہ ارشاد فرمایا کہ : مَثَلُ الَّذِیْنَ حُمِّلُوا التَّوْرٰىةَ ثُمَّ لَمْ یَحْمِلُوْهَا کَمَثَلِ الْحِمَارِ یَحْمِلُ اَسْفَارًا 1ؕ (الجمعہ 62 : 5) یعنی علمائے یہود جن کے لئے تورات پر عمل پیرا ہونا لازم کیا گیا تھا اور انہوں نے اس بار گراں کو اٹھانے کا حق ادا نہیں کیا اس کے احکام کی تعمیل نہیں کی ان کی مثال گدھے کی سی ہے جس پر علم و حکمت کی پچاسوں کتابیں ہوں لیکن اس کو بوجھ میں رہنے کے سوا اور کوئی فائدہ نہیں ہے یہی کچھ حال ان علمائے یہود کا ہے یہ تو کتاب تورات کے ذمہ دار بنائے گئے تھے انہوں نے حاملین تورات ہونے کا دعویٰ تو کرلیا مگر اس کے احکام پر عمل پیرا نہ ہوئے بلکہ وہ گدھے سے بڑھ گئے کیونکہ گدھا تو سوچنے سمجھنے سے عاری ہے اور انہوں نے سوچنے سمجھنے کی صلاحیتوں سے بہرہ ور ہو کر بھی کتاب الٰہی سے فائدہ نہ اٹھایا اس لئے وہ گدھے سے بھی بدتر ہوگئے۔ قرآن کریم میں یہود کو بندر اور سور قرار دیا گیا ہے اور اس کی تفسیر پیچھے سورة البقرہ کی آیت 65 میں گزر چکی ہے ملاحظہ ہو عروۃ الوثقیٰ جلد اول ض 337 سے 341 سے حاشیہ ۔ 14۔ زیر نظر آیت میں ان کے بندر اور سور ہوجانے کے بعد فرمایا کہ یہ وہ لوگ ہیں جنہوں نے طاغوت کی پرستش کی اور یہ وہ لوگ ہیں جو مرتبہ میں بدتر اور سیدھے راستے سے بہت دور بھٹکے ہوئے ہیں۔ اس طرح اللہ نے خود اس کی وضاحت فرمادی کہ ان کی صورتیں مسخ نہیں ہوئی تھیں بلکہ سرہتیں مسخ ہوگئی تھیں اور انہوں نے عقل و فکر اور سمجھ سوچ کو بالکل خیر باد کہہ دیا تھا وہ بندروں کی طرح شرارتی اور سوروں کی طرح بےغیرت ہوگئے تھے اور آج بھی ایسے لوگوں کی کوئی کمی موجود نہیں جو اپنی شکل و صورت سے دوٹانگوں پر چلنے والے انسان ہی ہیں مملکت کے منتظم بھی ہیں لیکن اپنے اوصاف کے باعث اور اخلاق و کردار کی وجہ سے وہ انسانوں کی صف میں شمار ہونے کے بالکل قابل نہیں اگرچہ معاشرہ نے ان کو صوبائی اور قومی اسمبلیوں میں لے جا کر بٹھا دیا ہو یا مسجد ومنبر ان کے سپرد کردیا ہو۔ وہ شیطان کے پجاری اور خواہشات کے بندے ہیں۔ وہ سیدھی راہ چلنے کی بجائے ہمیشہ ٹیڑھی راہ چلنے کے عادی ہیں۔ عقل و فکر کو چھوڑ کر دھونس و دھاندلی سے کام نکالتے ہیں۔
Top