Urwatul-Wusqaa - Al-Maaida : 84
وَ مَا لَنَا لَا نُؤْمِنُ بِاللّٰهِ وَ مَا جَآءَنَا مِنَ الْحَقِّ١ۙ وَ نَطْمَعُ اَنْ یُّدْخِلَنَا رَبُّنَا مَعَ الْقَوْمِ الصّٰلِحِیْنَ
وَمَا : اور کیا لَنَا : ہم کو لَا نُؤْمِنُ : ہم ایمان نہ لائیں بِاللّٰهِ : اللہ پر وَمَا : اور جو جَآءَنَا : ہمارے پاس آیا مِنَ : سے۔ پر الْحَقِّ : حق وَنَطْمَعُ : اور ہم طمع رکھتے ہیں اَنْ : کہ يُّدْخِلَنَا : ہمیں داخل کرے رَبُّنَا : ہمارا رب مَعَ : ساتھ الْقَوْمِ : قوم الصّٰلِحِيْنَ : نیک لوگ
اور ہمیں کیا ہوگیا ہے کہ ہم اللہ پر اور اس کلام پر جو سچائی کے ساتھ ہمارے پاس آیا ایمان نہ لائیں اور اللہ سے اس کی توقع نہ رکھیں کہ وہ ہمیں نیک کردار انسانوں کے گروہ میں داخل کر دے ؟
وہ پکار اٹھے کہ سچائی سے انکار ایمان کے تقاضا کے خلاف ہے : 209: بہت بڑی بات ہے جو انہوں نے برملا کہہ دی اور بےخوف وخطر کہہ دی کہ ” ہمیں کیا ہوگیا ہے کہ ہم اللہ پر اور اس کے کلام پر جو سچائی کے ساتھ ہمارے پاس آیا ایمان نہ لائیں “ بلاشبہ ایمان کا تقاضا آج بھی وہی ہے جو اس وقت تھا اور اسی چیز کا نام ” ایمان “ ہے جو انہوں نے بیان کی پھر انہوں نے دعوت اسلام کو قبول کر کے مسیح (علیہ السلام) کی لائی ہوئی تعلیم ہی کی تصدیق کی اور اس طرح وہ زمرہ صالحین میں داخل ہوگئے اور یہی ان کی آرزو تھی اور وہ پکار پکار کر کہہ رہے تھے کہ ہمیں کیا ہے کہ ہم ” اللہ سے اس کی توقع نہ رکھیں کہ وہ ہمیں نیک کردار انسانوں کے گروہ میں داخل کردے۔ “ اسلام کی نظر میں ” منافق “ کافر سے بھی برا ہے کیوں ؟ اس لئے کہ کافر اپنے کفر میں سچا ہوتا ہے لیکن منافق اپنے دعویٰ اسلام میں سچا نہیں ہوتا بلکہ جھوٹا ہوتا ہے اور جھوٹ اور اسلام کا آپس میں جوڑ نہیں جڑتا۔ منافق لاکھ دعویٰ اسلام کرے جب وہ اس دعویٰ میں سچا نہیں ہے تو وہ اس کافر سے بھی برا ہے جو کم از کم اپنے کفر میں سچا تو ہے کیونکہ سچائی ہر حال میں سچائی ہے خواہ وہ کہیں جائے اور اس کے کہنے والا کوئی ہو۔ کافر انکار کرتا ہے معلوم ہے کس چیز کا ؟ سچائی کا لیکن سچائی کا انکار کر کے چھپاتا نہیں بلکہ اپنے انکار کرنے کو برملا تسلیم کرتا ہے کہ میں اس سچائی کا انکاری ہوں لیکن اسلام کی اس سچائی کو بھی سچائی مانتا اور تسلیم کرتا ہے کیونکہ اس نے اپنے انکار کرنے کو چھپایا نہیں بلکہ مان لیا ہے اور پھر جب اس نے اپنے انکار کرنے کو مان لیا ہے اس کا اعتراف کرلیا ہے تو بہرحال وہ اس بیان میں سچاہی ہے اگرچہ کافر ہی ہے۔ پھر اس کے مقابلہ میں منافق کیا ہے ؟ وہی جو سچائی کا اقرار کرتا ہے لیکن اس سچائی کے اقرار کرنے میں وہ جھوٹا ہے۔ اس کے جھوٹا ہونے نے اس کے سچائی کو قبول کرنے کے اعتراف کی کوئی قیمت نہ پائی بلکہ اس کو جھوٹا قرار دے کر اس سچے کافر کے مقابلہ میں اس جھوٹے مسلمان کو برا قرار دیا۔ قرآن کریم اور احادیث کے اوراق میں اسکی مثالیں اتنی ہیں کہ اس کی مزید وضاحت کی ضرورت نہیں رہتی۔ سورئہ منافقوں شروع ہوتی ہے اور منافقین کی زبان کا اقرار اس میں اس طرح بیان ہوتا ہے کہ ” اے پیغمبر اسلام ! جب یہ منافق تمہارے پاس آتے ہیں تو کہتے ہیں ” ہم گواہی دیتے ہیں کہ آپ (علیہ السلام) یقینا اللہ کے رسول ہیں۔ “ ہاں ! اللہ جانتا ہے کہ تم ضرور اس کے رسول ہو۔ مگر اللہ گواہی دیتا ہے کہ ” یہ منافق قطعی جھوٹے ہیں۔ “ منافقوں نے کیا کہا تھا ” ہم گواہی دیتے ہیں کہ آپ (علیہ السلام) یقینا اللہ کے رسول ہیں۔ “ یہ بات جو انہوں نے زبان سے کہی وہ بجائے خود سچی ہے لیکن ان کا عمل اس پر گواہ ہے کہ انہوں نے یہ بات دل کی گہرائیوں میں اتر کر نہیں کہی بلکہ سرسری طور پر زبان سے کہہ دی ہے جس پر ان کا عمل خود گواہ ہے کہ انہوں نے اس ” سچی بات “ کو جھوٹ موٹ سے ” سچی بات “ کہہ رہے ہیں کیونکہ وہ عملی طور پر اپنے کہے ہوئے جملہ سے منکر ہیں ۔ پھر قرآن کریم میں ارشاد فرمایا گیا کہ ” اللہ گواہی دیتا ہے کہ یہ منافق قطعی جھوٹ بول رہے ہیں۔ “ مطلب کیا ہوا ؟ یہی کہ وہ سچی بات کو جھوٹ موٹ سے ” سچی بات “ کہہ رہے ہیں کیونکہ وہ عملی طور پر اپنے کہے ہوئے جملہ سے منکر ہیں۔ پھر قرآن کریم میں ارشاد فرمایا گیا کہ ” اللہ گواہی دیتا ہے کہ یہ منافق قطعی جھوٹ بول رہ ہیں ۔ “ مطلب کیا ہوا ؟ یہی کہ وہ سچی بات کو جھوٹ موٹ سے ” سچی بات “ کہہ رہے ہیں اور جھوٹ موٹ کی بات کہنے والا کبھی سچا نہیں ہوتا۔ کتنے سچے تھے وہ لوگ جن کی وجہ سے سچ سچ ہوگیا اور جھوٹ جھوٹ ہو کر رہا۔ جماعتی زندگی کے لحاظ سے وہ بھی قوم نصاریٰ ہی شمار ہوتے تھے لیکن ان کی سچائی نے ان کو وہ مقام دیا جو بہت کم لوگوں کو نصیب ہوا اور ان کی سچائی کے گیت رہتی دنیا تک گائے جاتے رہیں گے۔
Top