Urwatul-Wusqaa - Al-Maaida : 85
فَاَثَابَهُمُ اللّٰهُ بِمَا قَالُوْا جَنّٰتٍ تَجْرِیْ مِنْ تَحْتِهَا الْاَنْهٰرُ خٰلِدِیْنَ فِیْهَا١ؕ وَ ذٰلِكَ جَزَآءُ الْمُحْسِنِیْنَ
فَاَثَابَهُمُ : پس ان کو دئیے اللّٰهُ : اللہ بِمَا قَالُوْا : اس کے بدلے جو انہوں نے کہا جَنّٰتٍ : باغات تَجْرِيْ : بہتی ہیں مِنْ : سے تَحْتِهَا : اس کے نیچے الْاَنْھٰرُ : نہریں خٰلِدِيْنَ : ہمیشہ رہیں گے فِيْهَا : اس (ان) میں وَذٰلِكَ : اور یہ جَزَآءُ : جزا الْمُحْسِنِيْنَ : نیکو کار (جمع)
تو اللہ ان کے اس کہنے کے صلے میں انہیں جنتیں عطا فرمائے گا جن کے نیچے نہریں بہہ رہی ہیں وہ ہمیشہ ان جنتوں میں رہیں گے ایسا ہی بدلہ ہے جو نیک کرداروں کے لیے ٹھہرا دیا گیا ہے
انہوں نے اپنی سچائی کا بدلہ یہ پایا کہ ان کو جنت کا سر ٹیفکیٹ مل گیا : 210: جس ایمان کا انہوں نے اظہار کیا وہ وہی ایمان ہے جس کی حقیقت اسلامی رویہ زندگی اور کافرانہ رویہ زندگی کو شروع سے آخر تک بالکل ایک دوسرے سے جدا کردیتی ہے مسلم جو صحیح معنوں میں خدا پر ایمان لاتا ہے اپنی زندگی کے ہر شعبے میں خدا کی مرضی کا تابع فرمان بن کر کام کرتا ہے اور اس کے رویہ میں کسی جگہ بھی خود مختاری کا رنگ نہیں آنے پاتا الایہ کہ عارضی طور پر کسی وقت اس پر غفلت طاری ہوجائے اور وہ اللہ کے ساتھ اپنے معاہد کو بھول جائے اور کوئی خود مختار انہ حرکت کر بیٹھے اس طرح جو گروہ اہل ایمان سے مرکب ہو وہ اجتماعی طور پر بھی کوئی پالیسی ، کوئی سیاست ، کوئی طرزتمدن اور تہذیب ، کوئی طریق معیشت و معاشرت اور کوئی بین الاقوامی رویہ خدا کی مرضی اور اس کے قانوں شرعی کی پابندی سے آزاد ہو کر اختیار نہیں کرسکتا وہ جہاں ہوتا ہے اور جس حال میں ہوتا ہے اللہ کا بندہ بن کر ہی رہتا ہے۔ اسی کا صدور ان سے ہوا کہ سچائی ان کے سامنے آئی تو انہوں نے بغیر کسی حیل وحجت کے تسلیم کرلیا اور تسلیم بھی دل کی تہہ سے کیا جس کا نتیجہ یہ ہوا کہ اللہ تعالیٰ نے انہیں اسی وقت جنت کا سرٹیفکیٹ دے دیا کہ ” ان کے اس کہنے کے صلے میں انہیں جنتیں عطا فرمائیں جن کے نیچے نہریں بہہ رہی ہیں وہ ہمیشہ ہمیشہ ان جنتوں میں رہیں گے۔ “ اندازہ کیجئے کہ انہوں نے سچائی کو قبول کرنے میں اگر ذرا دیر نہیں کی تھی تو اللہ نے ان کو صلہ دینے میں کتنی دیر کی ؟ کہ ان کی تہہ دل سے سچائی کا اقرار زبان پر آیا تو ادھر وحی الٰہی نے ان کو جنت کو خوشخبری سنا دی اور اس طرح ان کا صلہ نقد ادا کردیا۔ فرمایا ” ایسا ہی بدلہ ہم نے نیک کرداروں کے لئے ٹھہرادیا ہے۔ “ جس کا مطلب بالکل صاف ہے کہ قانون خداوندی کسی خاص گروہ یا کسی خاص انسان کے لئے نہیں بنایا گیا بلکہ وہ سب کے لئے یکسانیت رکھتا ہے جس طرح وہ پہلے تھا آج بھی ہے۔ چناچہ نیک کردار ہوگئے تو کوئی وجہ نہیں کہ تم اپنی نیک کرداری کا صلہ نہ پاؤ ۔
Top