Urwatul-Wusqaa - Adh-Dhaariyat : 56
وَ مَا خَلَقْتُ الْجِنَّ وَ الْاِنْسَ اِلَّا لِیَعْبُدُوْنِ
وَمَا : اور نہیں خَلَقْتُ الْجِنَّ : پیدا کیا میں نے جنوں کو وَالْاِنْسَ : اور انسانوں کو اِلَّا : مگر لِيَعْبُدُوْنِ : اس لیے تاکہ وہ میری عبادت کریں
اور میں نے جنوں اور انسانوں کو صرف اپنی عبادت کیلئے پیدا کیا ہے
میں نے جنوں اور انسانوں کو فقط اپنی عبادت کے لئے پیدا کیا ہے 56 ؎ لفظ جن کا اطلاق پوری کائنات کی ہر اس مخلوق پر محیط ہے جو مخلوق پوشیدہ رہتی ہے ۔ کبھی ظاہر ہوتی ہے اور کبھی پوشیدہ ہوجاتی ہے۔ بالکل مخفی ہے کہ نظر آہی نہیں سکتی۔ وہ جو اس قدر زور آور ہے کہ اس پر مشکل سے قابو پایا جاسکتا ہے۔ وہ مخلوق جو ذوی العقول نہیں ہے۔ وہ مخلوق جو من حیث الجنس انسان سے تعلق رکھتی ہے لیکن بود و باش میں وہ مدنی نہیں ہے بلکہ بدوی اور سفری ہے۔ وہ مخلوق جس کی اصل آگ سے ہے وہ مرئی نہیں بلکہ بالکل مخفی ہے اور ملک یعنی فرشتہ کی ضد ہے جو مجسمہ برائی ہے اور خیر کا اس میں کوئی عنصر نہیں ہے۔ قرآن کریم میں ان ساری اصناف کا ذکر موجود ہے چونکہ ان سب پر مشمول انسان کے لفظ جن کا اطلاق ہوتا ہے اس لئے اس میں اختلاف ناگزیر تھا ہے اور رہے گا۔ لیکن جب بنیادی طور پر کوئی اختلاف نہ ہو تو فرعی اختلاف مہلک نہیں بلکہ مفید ہے اور اس کا ہونا اور اس کا موجود رہنا لازم و ضروری ہے بلکہ انسانی ترقیوں اور ایجادات کا سارا انحصار اس پر ہے کہ یہ اختلاف موجود رہے تاکہ بات سے بات نکلتی اور پھیلتی رہے تفصیلات اس کی بہت لمبی ہیں اور پیچھے ہم ضروری مقامات پر اس کی وضاحت بھی کرتے آ رہے ہیں وہ قارئین کرام جو اس تفسیر کا مسلسل مطالعہ کرتے آ رہے ہیں ان پر بہت سی باتیں واضح ہوچکی ہوں گی اور وہ حقیقت کو یقینا سمجھ چکے ہوں گے تاہم ان شاء اللہ العزیز اس کی مزید وضاحت سورة الجن ہی میں ہوگی کیونکہ اس کے ساتھ اس کی مناسبت موجود ہے۔ اس جگہ صرف یہ بتانا مقصود ہے کہ وہ مخلوق جس پر جن کا اطلاق ہوتا ہے لیکن اس کے باوجود مکلف بھی ہے وہ وہی مخلوق ہے جو من حیث الجنس تو انسان سے تعلق رکھتی ہے لیکن چونکہ وہ مدنی نہیں بلکہ بدوی اور سفری ہے وہ طبعاً مدنیت کو پسند نہیں کرتی اس لئے اس پر جن کا لفظ اطلاق کرتا ہے اور قرآن کریم جس طرح انسانوں کو مخاطب کرتا ہے بالکل اسی طرح جنوں کو بھی مخاطب کرتا ہے جس طرح انسانوں کو مکلف قرار دیتا ہے بالکل اسی طرح ان جنوں کو بھی مکلف قرار دیتا ہے۔ جو نبی و رسول ان انسانوں کے لئے ہے وہ نبی و رسول ان جنوں کے لئے بھی ہے۔ حلت و حرمت کا جو قانون ان انسانوں کے لئے ہے وہ ان جنوں کے لئے بھی ہے اور ان دونوں میں کسی طرح کا کوئی فرق روا نہیں رکھا گیا۔ یہ جن چونکہ من حیث الجنس انسان ہی ہیں اس لئے انسانوں کے ساتھ ان کے تعلقات و روابط ‘ لین دین اور ایک دوسرے سے میل جول اکثر ہوتا رہتا ہے اور یہ بات معروف ہے۔ قرآن کریم نے ان کو اسی نام سے یاد کیا ہے جو ان کو اپنی بود و باش اور رہن سہن کے طریقوں کے لحاظ سے پسند ہے اور دونوں کو ایک ہی جیسا مکلف بیان کرتے ہوئے ارشاد فرمایا ہے کہ میں نے ان کو محض اپنی عبادت کے لئے پیدا کیا ہے یعنی میں نے جن و انس کو اس لئے پیدا کیا ہے کہ میں انہیں حکم دوں کہ وہ میری عبادت کریں کیونکہ یہی مکلف ہیں اور مکلف ہیں تو محض اس لئے کہ صاحب ارادہ ہیں اور ان کو ایک حد تک اختیار بھی دیا گیا ہے کہ چاہیں عبادت کریں اور چاہیں نہ کریں۔ باقی مخلوق میں سے کوئی ایک مخلوق بھی ایسی نہیں پیدا کی گئی جو چاہے تو ایک کام کرے اور چاہے تو نہ کرے وہ جس کام اور جس مقصد کے لئے پیدا کی گئی ہے وہ اسی پر مجبور بھی کردی گئی ہے کہ وہ اپنے مقصد کو پورا کرے۔ اس کو اختیار نہیں دیا گیا کہ وہ چاہے ایک کام کرے اور چاہے نہ کرے ملائکہ یعنی فرشتے ایک غیر مرئی مخلوق ہے لیکن یہ ارادہ اس میں نہیں رکھا گیا کہ وہ چاہے ایک کام کرے اور چاہے نہ کرے۔ نہیں ہرگز نہیں بلکہ جس مقصد کے لئے ان کو پیدا کیا گیا وہ مقصد وہ پورا کر رہے ہیں اور کرتے ہی رہیں گے۔ سورج کتنی بڑی چیز ہے کہ اگر یہ زمین پر رکھا جائے تو امین کو بشمول اس کے سمندروں کے ڈھانپ لے لیکن کیا وہ صاحب ارادہ ہے ؟ کہ چاہے طلوع ہو اور چاہے نہ ہو یا وہ جب چاہے طلوع ہو اور جب چاہے غروب ہو۔ اس طرح اسی کائنات ارضی و سماوی میں سے ایک ایک کے متعلق غور کرتے چلے جائو تو تم کسی ایک کو بھی صاحب ارادہ و اختیار نہیں پائو گے۔ ہاں ! صرف اور صرف انسان ہی ایسی مخلوق ہے جس کو عقل و فہم ‘ امتیاز و اختیار کی نعمتیں ارزاں کی گئی ہیں اس لئے ان کا تقاضا ہے کہ وہ اپنی جبین نیاز اپنے ارادہ اور اختیار کے ساتھ اس ذات الٰہ کے سامنے جھکائے جس نے اس کو صاحب ارادہ اور اختیار بنایا ہے اور اپنے ان احسانات سے اسے مالا کردیا۔ اب اگر وہ کسی اور کی عبادت کرنے لگے جو اس کا خالق نہیں ہے اور اس کو اس نے صاحب ارادہ اختیار نہیں بنایا تو یہ اس کی نافرمانی اور الحاد ہوگا اور پھر اس کی اس نافرمانی اور الحاد کی سزا بھی ضرور ملنی چاہئے کیونکہ اس نے اپنے ارادہ و اختیار سے اللہ تعالیٰ کی عبادت کی بجائے غیر اللہ کی عبادت کی یا اپنے ارادہ و اختیار سے عبادت کے قریب نہ گیا اور اپنی طبع کو مسخ کرنے کی کوشش کی۔ اگر ان مکلف جنوں اور انسانوں کو ایک جنس سے تعبیر نہ کیا جائے تو وہ دونوں ایک امت اور ایک قوم نہیں ہو سکتے اور پھر جب ایک امت اور ایک قوم نہ ہوں تو ضروری ہے کہ ان دونوں امتوں اور دونوں قوموں سے الگ الگ رسول و نبی آئیں اور وہ اپنی اپنی امت اور قوم کو نبوت کا پیغام پہنچائیں اور اس طرح دونوں کے لئے الگ الگ قانون ‘ الگ الگ کتاب ‘ الگ الگ رسول اور الگ الگ احکام ہوں جو ان کی قومی زندگی کے مطابق ہوں۔ لیکن ہمارے مفسرین میں سے یہ بات کسی نے بھی تسلیم نہیں کی اور نہ ہی کتاب و سنت میں کہیں ان کی ہدایت و راہنمائی کے الگ الگ اصول و طریقے بتائے گئے ہیں بلکہ آنے والا نبی و رسول ان دونوں اصناف کے لئے یکساں ایک جیسا تسلیم کیا گیا ہے اور ہر نبی و رسول ان دونوں اصناف کے لئے بنایا گیا ہے حالانکہ قرآن کریم نے ایک جگہ نہیں اور ایک بار نہیں بلکہ بہت سے مقامات اور بہت سی جگہوں پر اس کی وضاحت کی ہے کہ ” ہم نے ہر ایک قوم کے لئے ایک رسول بھیجا ہے “۔ ( یونس : 37) اور یقینا ہمیں نے ہر قوم میں ایک رسول بھیجا ہے۔ “ (النحل : 36) ” اور ہم نے آپ ﷺ سے پہلے کتنے رسول ان کی اپنی اپنی قوم میں بھیجے۔ “ (الروم : 47) اور ہر قوم کے لئے ایک راہنما آیا۔ “ (الرعد : 7) ” اور کوئی قوم نہیں جس میں ایک نہ ایک ڈرانے والا نہ آیا ہو۔ “ (فاطر : 24) اور ہم نے پہلی قوموں میں کتنے رسول بھیجے اور ہم نے ہر پیغمبر کو اس کی قوم کی بولی میں بھیجا تاکہ وہ ان کو حقیقت حال سے آگاہ کرسکے۔ “ (ابراہیم : 5) پھر کوئی صاحب بتائیں کہ اگر یہ جن اور انسان ایک قوم نہیں اور ایک جنس نہیں تو ایک قوم ور جنس کا رسول دوسری قوم اور جنس کے لئے کیسے رسول بنایا گیا ؟ اس کی کوئی دلیل ؟ عورت اور مرد ایک جنس کی دو اصناف ہیں لیکن ایک جنس ہونے کے باعث ان کا رسول ایک ہی رہا۔ دنیا کے سارے انسان ایک ہی جنس سے تعلق رکھتے ہیں خواہ وہ کافر ہیں یا مسلمان ‘ ہندو ہیں یا سکھ ‘ یہودی ہیں یا عیسائی بہرحال ایک جنس ہونے کے باعث محمد رسول اللہ ﷺ (کافتہ للناس) کے لئے رسول بنا کر مبعوث کئے گئے دنیا میں جتنے رسول اور نبی بنا کر بھیجے گئے چونکہ وہ انسانوں ہی کی طرف نبی و رسول بنا کر بھیجے گئے تھے اس لئے پوری دنیا کے رسولوں اور نبیوں پر ایمان لانا شرط اسلام قرار دیا گیا اور کسی ایک نبی و رسول کی نبوت و رسالت کا انکار سارے نبیوں اور رسولوں کی نبوت و رسالت کا انکار تصور کیا گیا۔ جس کی وضاحت ہم پیچھے سے کرتے چلے آ رہے ہیں۔ مثلاً غزوہ الوثقیٰ جلد اول سورة البقرہ کی آیت 177 ‘ 285 ‘ جلد دوم سورة آل عمران کی آیت 74 ‘ سورة النساء کی آیت 136 ‘ 150 ‘ 152 ‘ وغیرہ وغیرہ میں۔ پھر اس کی مزید وضاحت اسی جلد کی سورة الاحقاف کی آیت 29 میں بھی کرچکے ہیں وہاں سے ملاحظہ فرمائیں۔
Top