Urwatul-Wusqaa - Adh-Dhaariyat : 57
مَاۤ اُرِیْدُ مِنْهُمْ مِّنْ رِّزْقٍ وَّ مَاۤ اُرِیْدُ اَنْ یُّطْعِمُوْنِ
مَآ اُرِيْدُ : نہیں میں چاہتا مِنْهُمْ : ان سے مِّنْ رِّزْقٍ : کوئی رزق وَّمَآ اُرِيْدُ : اور نہیں میں چاہتا اَنْ : کہ يُّطْعِمُوْنِ : وہ کھلائیں مجھ کو
میں ان سے کوئی رزق نہیں چاہتا اور نہ یہ چاہتا ہوں کہ وہ مجھے کچھ کھلائیں پلائیں
میں ان سے کوئی رزق نہیں چاہتا اور نہ یہ چاہتا ہوں کہ وہ مجھ کو کھلائیں 57 ؎ گزشتہ آیت میں جو یہ ارشاد فرمایا تھا کہ ” میں نے جنوں اور انسانوں کو محض اپنی عبادت کے لئے پیدا کیا ہے “ اس کی مزید وضاحت اس زیر نظر آیت نے کردی ہے وہ اس طرح کہ کوئی شخص یہ نہ سمجھے کہ اللہ تعالیٰ کو اس بات کی بہت ضرورت ہے کہ کوئی اس کی عبادت کرے اور ظاہر ہے کہ ضرورت احتیاج کی نشاندہی کرتی ہے اور اللہ تعالیٰ کی ذات کسی کی محتاج نہیں اور نہ ہی اس کو کسی کی احتیاج ہے بلکہ اس کا اصل مقصد تو یہ تھا کہ اللہ تعالیٰ نے اس مکلف مخلوق کے فرائض میں یہ چیز رکھ دی ہے کہ وہ صرف اور صرف اللہ تعالیٰ کی عبادت کریں اور کسی دوسرے کی عبادت نہ کریں اور ان کو اس کا مکلف بنایا گیا ہے۔ کہ وہ یہ فریضہ ‘ فریضہ سمجھ کر ادا کریں اور بالا راہ اور بالا اختیار کسی دوسرے کی عبادت نہ کریں اور ان کو اس کا مکلف بنایا گیا ہے کہ وہ یہ فریضہ ‘ فریضہ سمجھ کر ادا کریں اور بالا راہ اور با لا اختیار کسی دوسرے کی عبادت نہ کریں اور یہ کہ اگر وہ ایسا کریں گے تو اپنی ذمہ داری اور اپنا فرض بالا رادہ پورا کریں گے اور اگر ایسا نہیں کریں گے تو بالاختیار اور بالا ارادہ ایسا نہیں کریں گے اور پھر ایسا نہ کر کے وہ ایک ایسے جرم کے مرتکب ہوں گے جس جرم کی پاداش میں ان کو سزا دی جاسکے گی اور اگر وہ اس کی پابندی کریں گے تو چونکہ انہوں نے یہ پابندی بالا رادہ اور بالاختیار کی ہوگی اس لئے وہ اس کے مستحق ٹھہریں گے کہ ان کو انعام و اکرام دیا جائے لہٰذا اگر وہ پابندی کریں گے تو یقینا ان کو انعام و اکرام بھی دیا جائے گا۔ اب زیر نظر آیت میں اس کی وضاحت اس طرح فرمائی کہ محتاجوں کی جتنی احتیاجیں بھی اس دنیا میں موجود ہیں سب سے بڑی اور اہم احتیاج رزق کی ہے اور میں نے ان سے جب رزق کا مطالبہ نہیں کیا تو آخر کیوں نہیں کیا ؟ محض اس لئے کہ مجھے کسی چیز کی بھی احتیاج نہیں ہے اور نہ ہی میں ان سے رزق کا طلب گار ہوں جو ساری احتیاجوں میں بڑی احتیاج سمجھی گئی ہے اور نہ ہی میں نے اس لئے ان کو عبادت کا حکم دیا ہے کہ مجھے ان کے سجدوں اور ان کی طاعتوں کی حاجت ہے ؟ نہیں اور ہرگز نہیں۔ اس میں بھی ان ہی کا فائدہ ہے کہ میرے ہاں جب وہ سرنیاز جھکائیں گے تو ان کی خفتہ صلاحیتیں بیدار ہوجائیں گی اور ان کو حیوانی اور شیطانی ہتھکنڈوں سے چھٹکارا مل جائے گا اور پھر ان کا عقاب ہمت ایسی بلندیوں پر پرواز کرے گا جہاں فرشتوں کی رسائی بھی ممکن نہیں ہے۔ غور کرو کہ جو اللہ تعالیٰ کی عبادت سے محروم رہتے ہیں ساری عمران کا قدم حیوانی زندگی کے دائرہ سے باہر نہیں نکلتا۔ انہیں انسانی عظمتوں اور اس کی صلاحیتوں کی بیکرانیوں کا علم ہی نہیں ہوتا وہ ہمیشہ حیوانی زندگی کی لذتوں ہی میں مگن رہتے ہیں اور اپنی اصلاح کے زریں مواقع ضائع کردیتے ہیں۔ فرمایا اگر تم غور کرو گے تو تم کو معلوم ہوجائے گا کہ صرف انسانوں ہی کا نہیں بلکہ اس پوری کائنات کی روزی کا بندوبست تو اس کے اپنے ذمہ ہے وہی سب کو کھلاتا اور پلاتا ہے اور اس طرح کھلاتا پلاتا ہے کہ خود نہیں کھاتا اور پیتا۔ انسانوں کی ساری کوششوں کو بار آور کرنے والا وہ خود ہے اور وہ صرف وہ ہی ہے جو خود نہیں کھاتا اور دوسروں کو کھلاتا ہے ۔ قرآن کریم نے کتنی وضاحت اور صفائی سے یہ بات ارشاد فرمائی ہے کہ اللہ تعالیٰ فرماتا ہے کہ میں لوگوں سے رق نہیں چاہتا کہ وہ مجھے کھلائیں اور احادیث میں ہے کہ اللہ تعالیٰ قیامت کے روز اپنے بعض بندوں کو مخاطب کر کے فرمائے گا کہ اے آدم کے بیٹے میں نے تجھ سے کھانا مانگا لیکن تو نے مجھے کھانا نہیں دیا۔ بندہ کہے گا کہ اے میرے اللہ ! میں تجھے کھانا کیسے دیتا تو رب العالمین ہے ؟ اللہ تعالیٰ ارشاد فرمائے گا کہ کیا تجھے معلوم نہیں کہ میرے فلاں بندے نے تجھ سے کھانا طلب کیا تھا لیکن تو نے اس کو نہیں کھلایا اگر تو اس کو کھانا کھلا دیتا تو مجھے اس کے پاس موجود پاتا۔ (رواء مسلم ‘ عن ابی ہریرہ ؓ) اس سے کیا بات معلوم ہوئی ؟ بشمول قرآن کریم کی اس آیت کے اور اس حدیث اور اس حدیث جیسی ساری دوسری حدیثوں سے جو بات واضح ہوتی ہے وہ یہ ہے کہ مانگنا وہ مانگتا ہوتا ہے جو اپنی ذات کے لئے مانگا جائے خواہ وہ مکمل طور پر اپنی ذات کے لئے ہو یا اپنی ذات کا اس میں کچھ حصہ ہو۔ جیسے آج کل کے مانگنے والوں کا حال ہے اور وہ مانگنے والے جو دوسروں کے لئے صرف لوگوں کی توجہ دلاتے ہیں لیکن خود اس مال کو ہاتھ تک نہیں لگاتے ان کا مانگنا اور اپیل کرنا ماگنا نہیں کہلاتا بلکہ دوسروں کو محض توجہ دلانے کے ضمن میں آتا ہے اور یہ توجہ خود اللہ رب ذوالجلال والاکرام نے بھی دلائی ہے جو ہر طرح کی احتیاج سے پاک ہے ور رسول اللہ ﷺ نے بھی توجہ دلائی ہے لیکن اپنی ذات کے لئے اس مال کا استعمال کبھی روا نہیں رکھا اور نہ ہی استعمال کیا ہے۔ زیر نظر آیت کو گزشتہ آیت سے ملا کر اس کے مفہوم کو سمجھنے کی ایک بار پھر کوشش کریں فرمایا اللہ تعالیٰ نے جنوں اور انسانوں کو ایک جنس کی دو اقسام میں پیدا کیا ہے ۔ انہیں اپنی کسی احتیاج کے لئے پیدا نہیں کیا کہ وہ ہر حال میں ان کا نخرہ پورا کرے اور ان کی ناز برداری کرتا رہے۔ اس کو اپنی سلطنت کی حفاظت و نگرانی کی کوئی ضرورت نہیں۔ اس کی حکومت اس کے اپنے ذمہ اور اپنی قوت پر قائم ہے۔ وہ کسی کا محتاج نہیں بلکہ اس دنیا کے سارے لوگ خواہ وہ کون ہیں ‘ کہاں ہیں اور کیسے ہیں اسی کے محتاج ہیں۔ اس نے ان کو اس لئے پیدا کیا ہے کہ وہ اس کی عبادت و اطاعت کا حق ادا کر کے سعادت و کمال کے مدارج حاصل کریں جو اس نے ان کے لئے مقرر کر رکھے ہیں۔ اس مقصد کی یاد دہانی کے لئے اس نے رسول بھیجے تاکہ لوگوں پر اصل حقیقت واضح ہوجائے لیکن رسول کی ذمہ داری صرف حق کو واضح کردینے کی ہے جب رسول نے اس ذمہ داری کو پورا کردیا تو وہ بری الذمہ ہوگیا اگر لوگوں نے اس کی دعوت کو قبول نہ کیا تو انہوں نے قبول نہ کر کے خود اپنا نقصان کیا اللہ اور اس کے رسول کا کچھ نہیں بگاڑا کہ ہر ممکن ان کو راضی کرنے کی کوشش کی جائے تاکہ اللہ اور اس کا رسول اس نقصان سے بچ جائیں۔ اللہ کی ذات نقصان سے پاک ہے اور اللہ کا رسول ویسے ہی اللہ تعالیٰ کا پیغام پہنچا کر اپنی ذمہ داری سے بری الذمہ ہے۔ رہے لوگ وہ سمجھتے ہیں تو ان کا فائدہ ہے اگر نہیں سمجھتے تو اپنے پائوں پر خود کلہاڑی چلا رہے ہیں۔ اللہ تعالیٰ نہ تو ان کے رزق کا محتاج ہے اور نہ اس کو ضرورت ہے کہ یہ لوگ مجھ کو کھلائیں۔ وہ بےنیاز ہے ‘ اس نے جو کچھ کیا ہے محض انسانوں کے فائدہ کے لئے کیا اور اگر وہ ان کو لوگوں کی ضرورتوں کی طرف توجہ دلاتا ہے تو محض اس لئے کہ وہ اسطرح اللہ کے شکر گزار بندے بن جائیں نہ اس لئے کہ اب اس کو کوئی ضرورت لاحق ہوگئی ہے۔ 58 ؎ زیر نظر آیت پر غور کرو کہ پوری آیت کے سارے الفاظ میں صرف لفظ (ان) کے سوا اللہ تعالیٰ کے ذاتی اور صفاتی نام ہیں اور پھر ان ناموں کو کس طرح جوڑ کر بیان کردیا گیا ہے کہ بہت بڑا مفہوم اس میں پنہاں نظر آ رہا ہے۔ علاوہ ازیں قرآن کریم کی کوئی آیت ایسی نہیں جس میں صرف ایک ہی لفظ استعمال کر کے آیت کا مضمون اس طرح اللہ تعالیٰ کے ذاتی اور صفاتی ناموں سے پورا کردیا گیا ہو۔ ہاں ! بعض آیتوں میں اللہ تعالیٰ کے ذاتی اور صفاتی نام اکٹھے بیان ہوئے ہیں اور وہ پانچ ‘ چھ سے زیادہ بھی ہیں لیکن ان میں دوسرے الفاظ بھی ایک سے زائد آئے ہیں جیسے سورة الحشر کی آیت 22 ‘ 23 اور 24۔ بلاشبہ اللہ تعالیٰ کے ذاتی نام کے ساتھ صفاتی ناموں کا تسلسل بیان ایک بہت بڑی خوبی ہے اور اس خوبی کے باعث لوگوں نے سورة الحشر کی آیت 22 ‘ 24 کو اسم اعظم کی آیت قرار دے کر اس کے وظیفہ کا حکم دیا ہے اور اس کے فضائل میں بہت کچھ تحریر کیا گیا ہے لیکن ہمارے خیال میں اس لحاظ سے قران کریم کی دوسری آیتوں کے مقابلہ میں زیرنظر آیت کو ترجیح دی جانا ضروری ہے۔ لیکن علامہ امین احسن اصلاحی (رح) نے اپنے استاد گرامی قدر علامہ فراہی رحمتہ اللہ کے حوالہ سے ایک عجیب نقطہ بیان کیا ہے جو شاید علامہ امین احسن (رح) کو بہت پسند آیا ہوگا اس لئے اس کا خصوصاً ذکر کیا ہے لیکن جو نقطہ فراہمی (رح) نے بیان کیا ہے اس میں سوائے تکلف کے ہمیں کوئی بات نظر نہیں آئی اور (المعین) کو حالت رفع میں سمجھنے کی بجائے اس کو مجرور بنانے اور سمجھانے کے لئے جو قاعدہ بتایا ہے اس کو ہم نے محض تکلف کا نام دیا ہے کیوں ؟ اس لئے کہ علامہ (رح) نے جو توجیہہ پیش کی ہے کہ لفظ متین اللہ تعالیٰ کی صفت کی حیثیت سے قرآن کریم میں کہیں اور نہیں آیا۔ اس بات کو ہم اس وقت صحیح سمجھتے جب اللہ تعالیٰ کے دوسرے صفاتی نام قرآن کریم میں من و عن موجود ہوتے حالانکہ یہ بات بالکل واضح اور صاف ہے کہ اللہ تعالیٰ کے کتنے ہی صفاتی نام ہیں جو قرآن کریم میں اپنی اس حالت میں بھی موجود نہیں ہیں اور کتنے ہی نام ہیں جن کے مشقات قرآن کریم میں ملتے ہیں اور بعض ایسے بھی ہیں جن کے مشقات بھی بیان نہیں ہوئے محض مادہ استعمال ہوا ہے پھر ان صفاتی ناموں میں سے صرف ایک نام (المعین) ہی کو کیوں الگ کیا جائے اس لئے کہ (معین) کا لفظ اللہ تعالیٰ کی صفت کی حیثیت سے قرآن کریم میں کہیں اور استعمال نہیں ہوا۔ اگر یہ ضروری قرار دیا جائے تو پہلے دن صفاتی ناموں کو نکلنا چاہئے جن کے مشقات بھی بعینہ قرآن کریم میں نہیں ملتے صرف مادے پائے جاتے ہیں۔ مثلاً (الخافض ‘ الواحد ‘ المجد ‘ المقدم ‘ الموخر ‘ المعطی ‘ المانع ‘ الضار ‘ النافع ‘ الرشید ‘ العدل ‘ الجلیل) حالانکہ یہ صفاتی نام معروف صفاتی نام ہیں پھر ان میں ایک (المتین) بھی داخل سمجھ لیں تو کیا ہوگا ؟ اور اللہ تعالیٰ کے صفاتی ناموں میں سے وہ اسماء جو بعینہ قرآن کریم میں موجود نہیں مگر ان کے مشقات مذکور ہیں تو ان سے بھی زیادہ ہیں جن کے مشقات بھی بعینہ قرآن کریم میں نہیں ملتے جیسا کہ اوپر ذکر کیا گام ہے۔ بہرحال ( المعین) کو اللہ تعالیٰ کے صفاتی ناموں سے نکالنے کے لئے اس تکلف کی کوئی ضرورت نہیں جس کی تکلیف علامہ فراہمی (رح) نے کی اور اصلاحی (رح) نے شاگردی کے لحاظ میں اس کو بہت پسند کیا جب کہ یہ صفاتی نام کتب احادیث میں بھی مع اپنی فضیلت کے آ چکے ہیں۔ ہاں ! اگر ان احادیث پر کوئی اعترض ہے تو اس کا رنگ کوئی دوسرا اختیار کیا جائے اس لئے کہ علامہ (رح) کے اس رنگ میں بھنگ پڑگئی ہے۔ یہ بات قبل ازیں ہم نے بہت دفعہ عرض کی ہے کہ بعض اوقات بڑے بڑے قابل اور عقل مند لوگ بھی ایسی بات کہہ دیتے ہیں جس میں کوئی خاص وزن نہیں ہوتا لیکن بعد میں آنے والے ان کے اپنے وزن سے اتنے متاثر ہوتے ہیں کہ ان کی بےوزن بات میں بھی ان کو بہت وزن محسوس ہونے لگتا ہے۔ حالانکہ اسلام نے بہت سنہری اصول بتا دیا ہے کہ انبیاء کرام اور رسل عظام (علیہ السلام) کے بعد کسی شخص کو معصوم تسلیم نہ کیا جائے ورنہ اس سے بہت خرابیاں پیدا ہوں گی اور عزت و احترام اس چیز کا نام نہیں کہ کسی غیر نبی و رسول بزرگ کی بات کو وہ اہمیت دی جائے جو کسی نبی و رسول کی بات ہی کو دی جاسکتی ہو وہ بھی اس وقت جب اچھی طرح ثابت ہوجائے کہ یہ بات واقعی نبی و رسول کی ہے۔
Top