Urwatul-Wusqaa - At-Tur : 30
اَمْ یَقُوْلُوْنَ شَاعِرٌ نَّتَرَبَّصُ بِهٖ رَیْبَ الْمَنُوْنِ
اَمْ يَقُوْلُوْنَ : یا وہ کہتے ہیں شَاعِرٌ : ایک شاعر ہے نَّتَرَبَّصُ : ہم انتظار کر رہے ہیں بِهٖ : اس کے بارے میں رَيْبَ : حوادث کا الْمَنُوْنِ : موت کے۔ زمانے کے
کیا یہ کہتے ہیں کہ یہ شاعر ہے ؟ ہم اس کے لیے گردش زمانہ کے منتظر ہیں
کیا وہ آپ کو شاعر کہتے ہیں اور آپ کے لیے گردش زمانہ کی انتظار میں ہیں ؟ 30: شاعر کیا ہے ؟ اسم فاعل کا صیغہ واحد مذکر ہے جس کے معنی ہیں شعر کہنے والا۔ شعارۃ ، سے جس کے معنی شاعر ہونے کے ہیں اور شعر کے معنی معروف ہیں اور سب جانتے ہیں کہ بال کو کہتے ہیں جیسا کہ قرآن کریم میں ہے ومن اصوافھا و اوبارھا و اشعارھا ، اور بھیڑوں کی اون سے اور اونٹوں کی بیریوں سے اور بکریوں کے بالوں سے اور ، کذا ، یعنی میں نے علم حاصل کیا جو باریکی میں ایسا ہے جیسے بال کا پتہ چلانا اور شاعر کو شاعر اس کی فطانت اور معرفت کی پہچان کی بنا پر کہا گیا ہے۔ پس شعر اصل میں علم دقیق کا نام ہے۔ عرب کا محاورہ ہے کہ لیت شعری ، کاش مجھے اس کا گہرا پتہ ہوتا ، اور عرف میں جو کلام موزوں اور مقفی ہو اس کا نام شعر ہے اور جو صفت شعر گوئی سے مخصوص ہو اس کا نام شاعر ہوگیا۔ قرآن کریم میں کفار کی زبانی مذکور ہے ، بل افتراہ بل ھو شاعر۔ نہیں جھوٹ باندھتا ہے ، نہیں شعر کہتا ہے ، اور ۔ لشاعر مجنون۔ ایک شاعر دیوانہ کے لیے۔ شاعر نتربص بہ ریب المنون۔ یہ شاعر ہے ہم منتظر ہیں اس پر گردش زمانہ کے ، بہت سے مفسرین نے تو اسے اس پر محمول کیا ہے کہ کفار نے نبی اعظم و آخر ﷺ پر الزام لگایا تھا کہ آپ نعوذ باللہ منظوم و مقفی شعر پیش کرتے ہیں حتی کہ انہوں نے قرآن کریم میں جہاں کہیں بھی ایسے الفاظ آئے ہیں جن میں وزن کا شبہ ہوتا ہے جیسے ، وجفان کالجواب و قدور راسیت ، اور تبت یدا ابی لھب و تب۔ میں ان سب کی تاویل کی ہے اور بعض حقیقت شناسوں نے کہا ہے کہ اس الزام سے کافروں کا یہ مقصد تھا ہی نہیں کیونکہ کلام اللہ ظاہر ہے کہ وہ اسالیب شعر پر نہیں ہے اور یہ بات ایسی ہے کہ عجم کے غیر فصیح لوگوں پر بھی مخفی نہیں فضلا $ عرب کا تو ذکر ہی کیا بلکہ انہوں نے نعوذ باللہ آپ کو کذب سے منسوب کیا تھا کیونکہ شعر کی تعبیر کذب سے کی جاتی ہے اور شاعر بمعنی کاذب ہے حتی کہ ایک قوم نے تو ادلہ کاذبہ کا نام ہی ادلہ شعریہ رکھا ہے اور اس لیے حق تعالیٰ شانہ نے عام شعراء کا یہ وصف بیان فرمایا ہے : والشعراء یتبعہم الغاون۔ الم تر انھم فی کل واد یھیمون۔ وانھم یقولون ما لا یفعلون۔ اور شعراء کی پیروہ گمراہ لوگ ہی کرتے ہیں۔ کیا آپ نے نہیں دیکھا کہ وہ ہر میدان میں سر مارتے پھرتے ہیں اور وہ ایسی باتیں کہتے ہیں جو کرتے نہیں۔ (اس کی تفسیر محولہ بالا آیت اور سورت سے دیکھیں جو عروۃ الوثقی کی چھٹی جلد میں ملے گی) اور اسی وجہ سے شعر کو جھوٹ کا ٹھکانا کہا گیا ہے۔ احسن الشعر اکذبہ لا احسن اومت کہ اکذب او۔ اور بعض حکماء کا کا بیان ہے کہ کوئی متدین اللھجہ شاعری میں نادرہ کار نہیں دیکھا گیا۔ بہرحال یہ بات امر واقع ہے کہ نبی اعظم و آخر ﷺ ترجمان حقیقت تھے شاعر نہ تھے ، نہ ہی شاعری آپ کے لیے زیبا تھی۔ پیغمبرانہ صداقت اور شاعرانہ تخیلات میں زمین و آسمان کا فرق ہے البتہ کسی موقع پر کسی شاعر کا شعر پڑھ دینا یا رجز کے وقت بےساختہ مقفی عبارت زبان مبارک سے نکل جان یہ ایک الگ بات ہے اسے شاعری نہیں کہتے۔ حافظ ابن حجر عسقلانی نے فتح الباری میں تحریر کیا ہے کہ اس امر میں اختلاف کیا گیا ہے کہ نبی اعظم و آخر کے لیے کسی شعر کا بطور مثال بیان کرنا یا کسی دوسرے کا شعر بطور حکایت نقل کرنا روا تھا تو صحیح یہ ہے کہ ایسا کرنا آپ کے لیے جائز تھا۔ (ج اول ص 445 طبع مصر 348) علامہ احمد قسطلانی (رح) مواہب اللدنیہ میں رقم طراز ہیں کہ آیا شعر کی ممانعت صرف نبی اعظم و آخر کے لیے خاص تھی یا نوع انبیاء (علیہم السلام) کے لیے تھی۔ بعض علماء کا بیان ہے کہ یہ ممانعت عام تھی کیونکہ ارشاد ہے وما علمناہ الشعر وما ینبغی لہ۔ اور ہم نے اس کو شعر نہیں سکھایا اور نہ ہی شعر اس کے لائق تھا اور اس میں خصوصیت کی کوئی وجہ ظاہر نہیں ہے۔ (اس کی تفسیر سورة یس سے ملاحظہ کریں اور سورة یس عروۃ الوثقی جلد ہفتم میں ملے گی) مختصراً یہ کہ زیر نظر آیت میں بیان یہ کیا گیا ہے کہ کفار خود ہی الزام لگاتے اور پھر سوچتے کہ ہم کیسے بےسروپا الزام لگا رہے ہیں کوئی سنے گا تو آخر کیا کہے گا پھر پہلو بدلتے اور کہتے کہ یہ تو شاعر ہے حالانکہ وہ اچھی طرح جانتے اور سمجھتے تھے اور ان سے بڑھ کر اس حقیقت سے اور کون واقف ہے کہ جو کلام بلاغت پر پیش کرتے ہیں اس کو شاعری کے ساتھ کوئی دور کا بھی واسطہ نہیں ہے بہرحال وہ اپنے دل کو تسلی دینے کے لیے یہ کہا کرتے کہ یہ شاعر ہے بہت جلد اس کی زندگی کا پیمانہ لبریز ہوجائے گا اور اس کے بعد دنیا اس کو بھول جائے گی جس طرح دوسرے نامی گرامی شاعروں کا حال ہوا اسلیے تم کو پریشان ہونے کی ضرور نہیں اور اپنے دل کو اس طرح تسلی دیتے تھے۔ ان کو کیا معلوم تھا کہ محمد رسول اللہ ﷺ کا نام رہتی دنیا تک باقی رہے گا اور ان کافروں کی باتوں کو جھوٹ کا پلندہ سمجھا جائے گا۔ زیر نظر آیت میں ایک لفظ آیا ہے المنون ، اور یہ اسم ہے جس کے معنی مدت اور زمانہ کے ہیں اور ریب المنون کے معنی ہیں حوادث زمانہ جیسا کہ تحریر ہے کہ حوادث الدھر فیھلک کفیرہ من الشعراءۃ (جلالین) حوادث الدھر فیھلک کما ھلک الشعراء قبلہ ففستریح والمنون الدھر او الموت (جامع البیان) اور ریب راب کا مصدر ہے جس کے معنی ہیں قلق و اضطراب میں مبتلا کردینا۔ ریب المنون ، کا معنی و مطلب یہ ہوا کہ اس کو زمانے کے حوادث اور لیل و نہار کی گردش خود ہی پریشان کرکے رکھ دے گی۔
Top