Urwatul-Wusqaa - An-Najm : 40
وَ اَنَّ سَعْیَهٗ سَوْفَ یُرٰى۪
وَاَنَّ سَعْيَهٗ : اور یہ کہ اس کی کوشش سَوْفَ يُرٰى : عنقریب دیکھی جائے گی
اور بلاشبہ اس کی کوشش جلد ہی سامنے آجائے گی
اور بلاشبہ اس کی کوشش جلد ہی سامنے آجائے گی 40 ؎ غور کرو کہ اگر یہ بات ہوتی جو اشتراکی ذہن رکھنے والوں نے بنائی ہے یا وہ بات ہوتی جو ثواب کے ٹھیکہ داروں نے مردوں کی بخشش کے لئے اختراع کی ہے تو اس آیت کا مفہوم کیا ہوتا جو سعی و کوشش کرنے والے کو مخاطب کر کے کی جا رہی ہے کہ ہر انسان اپنی زندگی کے لمحات کو جن مقاصد کے لئے صرف کر رہا ہے اور اپنی ساری قوتیں اور توانایاں ان کے حصول کے لئے وقف کئے ہوئے ہے قیامت کے روز ان کی پوری جانچ پڑتال کی جائے گی اور اس کے مقاصد اور اس کی نیت کے مطابق اس کی کو شس و سعی کے نتائج برآمد ہوں گے اس لئے آج ہی اپنے اعمال کا خود احتساب کیا کرو تاکہ قیامت کے روز تمہیں نادم اور شرمسار نہ ہونا پڑے۔ غور کرو کہ ہم کو کیا کرنا چاہئے تھا اور ہم کیا کر رہے ہیں۔ کہا یہ جا رہا ہے کہ عنقریب وہ وقت آنے والا ہے کہ ہر ایک انسان جو اس نے جدوجہد اور کوشش کی ہے اس کو اپنے سامنے دیکھے گا اس لئے جو کچھ آنے والے دن میں اس کو دیکھنا ہے اس کے متعلق اس کو فکر ہونی چاہئے تھی۔ اور اس کے متعلق اس کو محاسبہ کرنا چاہئے تھا کہ وہ کود احتساب کر کے دیکھ لیتا اور اچھی طرح جانچ لیتا کہ ایسا نہ ہو کہ جب میری کوشش و سعی کا نتیجہ میرے سامنے آئے تو مجھے شرمندگی نہ ہو۔ لیکن ہمارے لیڈر تحریکیں چلاتے ہیں اور ان کا نام احتساب رکھتے ہیں۔ وہ احتساب کرتے ہیں ‘ کن کا ؟ جو ان کے مخالف ہیں ان کا وہ احتساب چاہتے ہیں ‘ کس کا ؟ جن سے ان کی ان بن ہے ان کا لیکن ان میں سے کوئی ایک لیڈر ایسا بھی آپ دکھا سکتے ہیں جو اپنا احتساب خود کر رہا ہو لیکن احتسابوں اور ان دھرنوں کا کوئی فائدہ ؟ فائدہ یہ ہے کہ پوری قوم کی قوم اب بےلگام ہو رہی ہے اور آہستہ آہستہ بےلگام ہونے کے نتائج بھی سامنے آ رہے ہیں۔ جن لوگوں کے احتساب کی باتیں کی جا رہی ہیں اور جن کے اثاثے منجمد کئے جا رہے ہیں وہ بالکل اطمینان کے ساتھ تحریک چلا رہے ہیں ‘ جلوس نکال رہے ہیں اور عوام ہیں کون سے عوام وہی جنہوں نے ٹیوی پر ‘ اخبارات میں ان لیڈروں کے احتساب اور ان کے اثاثے منجمد ہونے کی خبر دیکھی اور پڑھی ہیں اور صبح انہی لیڈروں کے حق میں نعرے لگائے جا رہے ہیں ‘ ایسا کیوں ؟ اس لئے کہ وہ احتساب احتساب کے نعرے لگانے والوں کے بارے میں اچھی طرح جان چکے ہیں کہ انکی ہانڈیاں بھی اسی طرح سیاہ ہیں اور ان کا منہ بھی اسی طرح کالا ہے گویا یہ لوگ سیشے میں اپنا منہ دیکھ کر شور مچا رہے ہیں اس لئے کہ بروں کو برا منہ نظر آ رہا ہے اور آج جو چہرے ہیں یہ کل تک بدل جائیں گے تو وہ بھی یہی کچھ کریں گے جو آج وہ کر رہے ہیں اور اسی طرح کر کے وہ قوم کو دھوکے میں ڈالنے کی کوشش میں مصروف ہیں اور قوم ان سے بھی زیادہ سمجھدار ہے وہ اپنا الو سیدھا کرنے کے لئے دونوں گروپوں کے ساتھ ہے اور وہ دونوں گروپوں کی عیاریوں اور مکاریوں سے اچھی طرح واقف ہوچکی ہے۔ ہماری سیاست کا یہی حال ہی ‘ ہمارے گروہوں کا یہی حال ہی ‘ ہماری دینی درسگاہوں کا یہی حال ہے ‘ ہماری ساری جماعتوں کا خواہ وہ سیاسی جماعتیں ہیں یا خالصتاً مذہبی جماعتیں ہیں سب اسی ڈگر پر چل نکلی ہیں۔ تعجب ہے کہ ہم میں ایک بھی ایسا نظر نہیں ص آیا جس کو اپنا احتساب کرنے کی ضرورت محسوس ہوتی ہو اور قرآن کریم کی تعلیم کا مآحصل یہ ہے کہ جب تک انسان اپنا محاسبہ خود کر کے اپنی اصلاح خود نہ کرے کبھی اصلاح نہیں ہو سکتی۔ ہم میں سے ہر ایک دوسرے کی اصلاح کی فکر میں ہے لیکن ہم میں سے کسی کو فکر نہیں تو محض اپنی اصلاح کی نہیں اور قانون یہ کہتا ہے کہ جب اصلاح کرنے والے کی اپنی اصلاح نہ ہو تو وہ دوسرے کی اصلاح کر ہی نہیں سکتا اور اسی قانون کے مطابق نتیجہ ہمارے سامنے ہے کہ ہم جوں جوں اصلاح اور احتساب کا شور کرتے ہیں تخریب کاری اتنی ہی بڑھتی چلی جا رہی ہے اور اس وقت یہی کچھ کرتے ہم مکمل طور پر تباہی کے گڑھے کے کنارے پہنچ چکے ہیں بالکل اس تباہی کے گڑھے پر جس تباہی کے گڑھے سے بچانے کے لئے محمد رسول اللہ ﷺ کو نبی و رسول بنا کر بھیجا گیا تھا اور آپ ﷺ نے فی الواقع اپنی قوم کو اس تباہی کے گڑھے کے کنارے سے ہٹا کر دکھا دیا تھا اور اتنا دور کردیا تھا کہ تباہی و بربادی کے گڑھے کی بجائے حوض کوثر کے کنارے پر لا کھڑا کردیا تھا لیکن ہماری حالت یہ ہے کہ ہم انکھیں بند کر کے حوض کوثر کے گیت گاتے گاتی اس گڑھے کا کنارے جا پہنچے ہیں جو تباہی و بربادی کا گڑھا ہے اور نہ معلوم کہ اب دھڑام کی آواز کب آتی ہے ؟ جونہی آواز آئے گی تو ہم میں سے ہر ایک اپنی اپنی سعی و کوشش کا نتیجہ اپنی آنکھوں سے دیکھ لے گا۔
Top