Urwatul-Wusqaa - An-Najm : 8
ثُمَّ دَنَا فَتَدَلّٰىۙ
ثُمَّ دَنَا : پھر قریب آیا فَتَدَلّٰى : پھر اتر آیا
پھر قریب ہوا (مزید) آگے بڑھا
پھر قریب ہوا اور مزید آگے بڑھا 8 ؎ قریب کون ہوا ؟ جس کو بلایا گیا تھا یعنی محمد رسول اللہ ﷺ آپ ﷺ کس کے قریب ہوئے ؟ بلانے والے کے یعنی رب ذوالجلال والاکرام کے۔ ” دنی “ وہ نزدیک ہوا۔ وہ قریب ہوا۔ ذنو سے ماضی کا صیغہ واحد مذکر غائب۔ (فتدلی) کا اصل مادہ دل و ہے جس کے معنی اترنے اور شکنے کے ہیں۔ تدلی وہ اتر آیا ‘ وہ لٹک آیا اور اس کا مآحصل مزید قریب ہونا ہی ہو سکتا ہے ماضی کا صیغہ واحد مذکر غائب۔ اللہ تعالیٰ اور بندے کا قرب پہلے ہی کتنا ہے کہ اس سے زیادہ قرب کسی اور کو حاصل نہیں جو قرب بندہ اور اللہ رب ذوالجلال والا کرام کا ہے اس کا ذکر پیچھے سورة ق کی آیت 19 میں گزر چکا ہے اور سورة الواقعہ کی آیت 85 میں مزید وضاحت آئے گی ان شاء اللہ العزیز اور نبی اعظم و آخر ﷺ کا قرب تو بہرحال دوسرے انسانوں سے بہت ہی زیادہ قریب کا ہے پھر جب احادیث میں اس کی وضاحت موجود ہے کہ جب بندہ اللہ کے قریب ہونے کی کوشش کرتا ہے تو اللہ تعالیٰ خود بندہ کے قریب آنے میں انسان سے بھی جلدی اور زیادہ قریب آتا ہے اور یہ بات روز روشن سے بھی زیادہ واضح ہے کہ یہ قرب مکان و زمان کا قرب نہیں بلکہ یہ وہ قرب ہے جو سجدہ ریزیوں اور فرمانبرداریوں کا مآحصل ہوتا ہے اور جو مکان و زمان کے قرب سے بےنیاز کردیتا ہے جس کو نہ تو زبان بیان کرسکتی ہے اور نہ قلم کے نوک سے اس کو نکالا جاسکتا ہے اور اس کی صحیح تصویر وہی سمجھتا ہے جس کو وہ حاصل ہوتا ہے گویا عطا کرنے والا جانتا ہے یا وہ جانتا ہے جس کو عطا کیا جاتا ہے۔ غور کرو کہ اس قرب کو قرآن کریم نے کس انداز میں بیان کیا پھر اس کی ایک جھلک آنے والی آیت مزید پیش کر رہی ہے۔
Top