Urwatul-Wusqaa - Al-An'aam : 151
قُلْ تَعَالَوْا اَتْلُ مَا حَرَّمَ رَبُّكُمْ عَلَیْكُمْ اَلَّا تُشْرِكُوْا بِهٖ شَیْئًا وَّ بِالْوَالِدَیْنِ اِحْسَانًا١ۚ وَ لَا تَقْتُلُوْۤا اَوْلَادَكُمْ مِّنْ اِمْلَاقٍ١ؕ نَحْنُ نَرْزُقُكُمْ وَ اِیَّاهُمْ١ۚ وَ لَا تَقْرَبُوا الْفَوَاحِشَ مَا ظَهَرَ مِنْهَا وَ مَا بَطَنَ١ۚ وَ لَا تَقْتُلُوا النَّفْسَ الَّتِیْ حَرَّمَ اللّٰهُ اِلَّا بِالْحَقِّ١ؕ ذٰلِكُمْ وَصّٰىكُمْ بِهٖ لَعَلَّكُمْ تَعْقِلُوْنَ
قُلْ : فرمادیں تَعَالَوْا : آؤ اَتْلُ : میں پڑھ کر سناؤں مَا حَرَّمَ : جو حرام کیا رَبُّكُمْ : تمہارا رب عَلَيْكُمْ : تم پر اَلَّا تُشْرِكُوْا : کہ نہ شریک ٹھہراؤ بِهٖ : اس کے ساتھ شَيْئًا : کچھ۔ کوئی وَّبِالْوَالِدَيْنِ : اور والدین کے ساتھ اِحْسَانًا : نیک سلوک وَلَا تَقْتُلُوْٓا : اور نہ قتل کرو اَوْلَادَكُمْ : اپنی اولاد مِّنْ : سے اِمْلَاقٍ : مفلس نَحْنُ : ہم نَرْزُقُكُمْ : تمہیں رزق دیتے ہیں وَاِيَّاهُمْ : اور ان کو وَلَا تَقْرَبُوا : اور قریب نہ جاؤ تم الْفَوَاحِشَ : بےحیائی (جمع) مَا ظَهَرَ : جو ظاہر ہو مِنْهَا : اس سے (ان میں) وَمَا : اور جو بَطَنَ : چھپی ہو وَلَا تَقْتُلُوا : اور نہ قتل کرو النَّفْسَ : جان الَّتِيْ : جو۔ جس حَرَّمَ : حرمت دی اللّٰهُ : اللہ اِلَّا بالْحَقِّ : مگر حق پر ذٰلِكُمْ : یہ وَصّٰىكُمْ : تمہیں حکم دیا ہے بِهٖ : اس کا لَعَلَّكُمْ : تا کہ تم تَعْقِلُوْنَ : عقل سے کام لو (سمجھو)
ان سے کہو آؤ میں تمہیں پڑھ کر سناؤں جو کچھ تمہارے پروردگار نے تم پر حرام کیا ہے ؟ اللہ کے ساتھ کسی چیز کو شریک نہ ٹھہراؤ ، ماں باپ کے ساتھ نیک سلوک کرو ، اپنی اولاد کو مفلسی کے ڈر سے قتل نہ کرو ہم تمہیں روزی دیتے ہیں اور انہیں بھی دیں گے اور بےحیائی کی باتوں کے قریب بھی نہ جاؤ وہ کھلے طور پر ہوں یا چھپی ہوئی ہوں اور کسی جان کو قتل نہ کرو جسے اللہ نے حرام ٹھرا دیا ہے ہاں ! یہ کہ کسی حق کی بنا پر قتل کرنا پڑے ، یہ ہیں وہ باتیں جن کی اللہ نے تمہیں وصیت کی ہے تاکہ تم سمجھ بوجھ سے کام لو
اللہ تعالیٰ کے ساتھ اس کی ذات اور صفات میں کسی کو شریک نہ ٹھہرائو : 235: اس کا مطلب صرف اتنا ہی نہیں کہ اللہ کے ساتھ کسی کی پرستش نہ کرو بلکہ یہ بھی ہے کہ بندگی اور غلامی اور بےچون وچرا اطاعت بھی صرف اسی کی کرو ، اسی کے حکم کو حکم اور اسی کے قانون کو قانون مانو اور اس کے سوا کسی کا اقتدار اعلیٰ تسلیم نہ کرو اور یہ صرف ایک مذہبی عقیدہ اور انفرادی طرز عمل کے لئے ایک ہدایت ہی نہیں ہے بلکہ اس پورے نظام اخلاق و تمدن وسیاست کا سنگ بنیاد بھی ہے جو مدینہ طیبہ پہنچ کر نبی اعظم وآخر ﷺ نے عملاً قائم کیا اور اس کی عمارت اسی نظرئیے پر اٹھائی گئی تھی کہ اللہ تعالیٰ ہی ملک کا مالک اور حقییع بادشاہ ہے اور اس کی شریعت ملک کا قانون ہے۔ رہی یہ بات کہ ذات خداوندی میں شرک کیا ہے ؟ وہ یہ ہے کہ جوہر الوہیت میں کسی کو حصہ دار قرار دیا جائے مثلاً نصاریٰ کا عقیدہ تثلیث ، مشرکین عرب کا فرشتوں کو خدا کی بیٹیاں قراردینا اور دوسرے مشرکین کا اپنے دیوتائوں اور دیویوں کو اور شاہی خاندانوں کو جنس الہہ کے افراد قرار دینا یہ سب شرک فی الذات ہیں اور اسی طرح ” نور من نور اللہ “ کی صدائیں بلند کرنا بھی ان لوگوں کے لئے شرک فی الذات سمجھا جائے گا جو اپنے آپ کو علماء کہلانے کے باوجود اس شرک کے مرتکب ہوتے ہیں عوام کالانعام اگر اس کا مطلب نہ سمجھتے ہوں تو ان کے لئے کوئی رعایت ممکن ہے۔ صفات میں شرک یہ ہے کہ خدائی صفات جیسی کی وہ خدا کے لئے ہیں ویسا ہی ان کو یا ان میں سے کسی صفت کو کسی دوسرے کے لئے قرار دینا مثلاً کسی کے متعلق یہ سمجھنا کہ اس پر غیب کی ساری حقیقتیں روشن ہیں یا وہ سب کچھ سنتا اور دیکھتا ہے یا وہ تمام نقائص اور تمام کمزوریوں سے پاک اور منزہ ہے۔ گویا جس طرح اللہ بغیر آنکھ کے دیکھتا ہے اور بغیر کان کے سنتا ہے اسی طرح فلاں بزرگ بھی بغیر آنکھ کے دیکھتا اور بغیر کان کے سنتا ہے۔ ہاں ! آنکھ کی حد تک دیکھنا اور بصیرت کی حد تک بصیرت رکھنا اسی طرح کان کی حد تک سننا اور عقل وفکر کی حد تک سمجھنا شرک نہیں ہوگا اور نہ ہی اس کو کوئی شرک کہتا یا سمجھتا ہے۔ اسی طرح اختیارات میں اللہ کا شریک ٹھہرانا وہ یہ ہے کہ خدا ہونے کی حیثیت سے جو اختیارات صرف اللہ کے لئے خاص ہیں ان کو یا ان میں سے کسی ایک کو اللہ کے سوا اور کسی کے لئے تسلیم کیا جائے جیسا کہ موت وزندگی جو اپنے حقیقی معنوں میں ہے وہ صرف اور صرف اللہ کے اختیار میں ہے جو کسی دوسرے کو عطا نہیں کی جاسکتی اور پھر کسی کے متعلق یہ خیال کرنا کہ فلاں بھی زندہ کرتا اور مارتا ہے یعنی حقیقی معنوں میں جو موت وزندگی ہے اسی زندگی اور موت کی اس کو باذن اللہ اجازت دی گئی ہے تو یہ یقیناً شرک ہے جیسا کہ عیسیٰ (علیہ السلام) کے متعلق عیسائیوں کا عقیدہ ہے اور اسی طرح مثلاً فوق الفطری طریقہ سے کسی کو نفع وضرر پہنچانا اور حاجت روائی اور دستگیری کرنا ، محافظت ونگہبانی کرنا ، دعائیں سننا اور قسمتوں کو بنانا اور بگاڑنا اور اسی طرح حرام و حلال اور جائز وناجائز کی حدود مقرر کرنا اور انسانی زندگی کے لئے قانون وشرع تجویز کرنا یہ سب وہ مخصوص اختیارات ہیں جو صرف اللہ ہی کی ذات کو حاصل ہیں جن میں سے کسی کو غیر اللہ کے لئے تسلیم کرنا شرک فی الاختیارات ہے یعنی اللہ کے اختیارات میں کسی دوسرے کو شریک کرنا ہے۔ اسی طرح حقوق میں شرک یہ ہے کہ خدا ہونے کی حیثیت سے بندوں پر اللہ تعالیٰ کے لئے جو مخصوص حقوق ہیں وہ یا ان میں سے کوئی ایک حق اللہ کے سوا کسی دوسرے کے لئے تسلیم کیا جائے۔ مثلاً رکوع و سجود ، شکر نعمت یا اعتراف برتری کے لئے نذر ونیاز اور قربانی ، قضائے حاجات اور نفع ومشکلات کے لئے منت ، مصائب ومشکلات میں مدد کے لئے پکارنا اور ایسی ہی پرستش اور تعظیم وتمجید کی دوسری تمام صورتیں جو اللہ ہی کی ذات کے لئے مخصوص ہیں ان میں کسی دوسرے کو شریک ٹھہرانا ان سارے حقوق میں سے جو صرف اور صرف اللہ ہی کا حق ہے کسی دوسرے کو حق دینا اللہ کے ساتھ شریک ٹھہرانا ہے خواہ اس کو اللہ کے ناموں میں سے کوئی نام دیا جائے یا نہ دیا جائے۔ اس کی تشریحات قرآن کریم میں جگہ جگہ پھیلی ہوئی ہیں۔ ماں باپ کے ساتھ نیک سلوک کرو کیونکہ ان کی بےحرمتی اور بدسلوکی حرام ہے : 236: اسلامی معاشرے کی یہ دوسری پابندی ہے۔ اس پابندی میں یہ بات بتائی گئی ہے کہ اللہ کے بعد انسانوں میں سب سے مقدم حق والدین کا ہے۔ اولاد کو والدین کا مطیع ، خدمت گزار اور ادب شناس ہونا چاہئے۔ اسی جگہ یہ بات بھی ذہن میں رہے کہ اللہ تعالیٰ کے حقوق کا لحاظ رکھتے ہوئے والدین کے حقوق کی نگہداشت کرنا ہے۔ ایسا نہیں کہ کوئی اللہ تعالیٰ کا مخصوص حق والدین کو دے دیا جائے۔ اس طرح وہ شرک فی الحقوق ہوگا جس کا ذکر پہلے کیا جا چکا اس لئے کہ ایک کا حق ادا کرنا اس طرح کہ دوسرے کا حق مارا جائے اس کی کوئی صورت اسلام میں جائز اور درست نہیں اور یہی وہ مقام ہے جہاں لوگوں کی اکثریت کو ٹھوکر لگتی ہے اور اپنی ناسمجھی کو اختلاف کا لباس پہنایا جاتا ہے۔ اس جگہ جو بات بتائی گئی وہ تو یہ تھی کہ معاشرے کا اجتماعی اخلاق ایسا ہونا چاہئے جو اولاد کو والدین سے بےنیاز بنا دینے والا نہ ہو بلکہ ان کا احسان مند اور ان کے احترام کا پابند بنائے اور خصوصاً بڑھاپے میں اس طرح ان کی خدمت کرنا سکھائے جس طرح بچپن میں وہ اس کی پرورش اور ناز برداری کرچکے ہیں۔ یہ آیت بھی صرف ایک اخلاقی سفارش نہیں بلکہ اس کی بنیاد پر بعد میں والدین کے وہ شرعی اختیارات مقرر کئے گئے ہیں جن کی تفصیلات ہم کو نبی اعظم وآخر ﷺ کے ارشادات میں ملتی ہے اور جو اسلامی معاشرے کی ذہنی اور اخلاقی تربیت میں اور مسلمانوں کے آداب تہذیب میں والدین کے آداب و اطاعت اور ان کے حقوق کی نگہداشت میں ایک اہم عنصر کی حیثیت سے شامل کیا گیا ہے اور ان چیزوں نے ہمیشہ ہمیشہ کے لئے یہ اصول طے کردیا کہ اسلامی ریاست اپنے قوانین اور انتظامی احکام اور تعلیمی پالیسی کے ذریعہ سے خاندان کے ادارے کو مضبوط اور محفوظ کرنے کی کوشش کرے گی نہ اس کو کمزور کرتے ہوئے اولاد کو مادر پدر آزاد بنا کر سارے احکام سے ان کو آزاد کر دے گی جیسا کہ آج کل بدقسمتی سے ہوتا چلا جا رہا ہے اور یہ بھی کہ جن ممالک نے اس پابندی کو اٹھایا ہے وہ عنقریب ایسے گڑھے میں گرنے والے ہیں کہ جہاں سے ان کے لئے نکلنا مشکل ہی نہیں بلکہ ناممکن ہوجائے گا اور دنیا کی عمر کو پیش نظر رکھتے ہوئے یہ تسلیم کرنا ہوگا کہ وہ وقت عنقریب آنے والا ہے کہ ان کی یہ منفی سوچ ان کے لئے باعث عذاب ہوگی اور اسی عذاب سے وہ لوگ اور وہ ممالک بھی نہیں بچ سکیں گے جو ان کی دیکھا دیکھی اور نقالی میں اسلامی روایات سے روز بروز بیزار ہوتے چلے جا رہے ہیں۔ جس طرح سورج کا بےنور ہونا انسانی ہلاکت کا باعث ہے بالکل اسی طرح الٰہی تعلیمات سے ابیٰ و انکار بھی یقیناً اسی ہلاکت کا باعث ہوگا۔ والدین کے اس حق کو قرآن کریم نے جگہ جگہ اور بڑے زور دار الفاظ میں بیان کیا ہے اور اکثر مقامات پر توحید کے ساتھ اس کو بیان کر کے یہ ثابت کیا ہے کہ اللہ کے بعد بندوں کے حقوق میں سب سے مقدم حق انسان پر اس کے والدین کا ہے۔ مفلسی کے ڈر سے اپنی اولاد کو قتل نہ کرو ، اللہ تمہارا اور ان کا حقیقی رب ہے : 237: اسلامی معاشرے کی یہ تیسری پابندی ہے جو اس جگہ بیان ہوئی جس کا خلاف یقیناً حرام ہے۔ عربوں میں قتل اولاد کی ایک سے زیادہ وحشیانہ اور وہمانہ صورتیں تھیں مثلاً اولاد کو اپنے وہمی معبودوں کی خوشنودی کے لئے قربان کرنا اور لڑکیوں کو اس وجہ سے کہ ہم سسرالی بن جائیں گے زندہ درگور کرنا اور اس وجہ سے اولاد کو قتل کرنا کہ اولاد زیادہ ہوگئی تو ان کے رزق کا کیا بنے گا اور کہاں سے ان کو کھلائیں گے ؟ اس جگہ اس تیسری صورت کا ذکر کیا گیا ہے اور پہلی دونوں صورتوں کا ذکر بھی قرآن کریم میں بہت سے مقامات پر موجود ہے۔ ارشاد الٰہی ہے کہ اللہ تعالیٰ نے اپنے بندوں کے درمیان رزق کی بخشش میں کمی وبیشی کا جو فرق رکھا ہے انسان اس کی مصلحتوں کو نہیں سمجھ سکتا لہٰذا تقسیم رزق کے فطری نظام میں انسان کو اپنی مصنوعی تدبیروں سے دخل انداز نہ ہونا چاہئے۔ فطری نامساوات کو مصنوعی مساوات میں تبدیل کرنا یا اس نامساوات کو فطرت کے حدود سے بڑھ کر بےانصافی کی حد تک پہنچا دینا دونوں ہی یکساں طور پر غلط ہیں۔ ایک صحیح معاشی نظام وہی ہے جو اللہ کے مقرر کئے ہوئے طریق تقسیم رزق سے قریب تر ہو۔ قتل اولاد کی جو صورتیں دنیا میں رائج رہ چکی ہیں اور آج بھی پوری دنیا میں ان کا رواج موجود ہے جس میں ہمارا ملک پاکستان بھی اس رواج کی زد میں ہے اور اس کے نتائج سب کے سامنے موجود ہیں کہ کیا نکلے ہیں ؟ اس کی تفصیلات بہت زیادہ ہیں سب باتوں کا تجزیہ کرنے کے بعد جو نتیجہ نکلتا ہے وہ یہ ہے کہ یہ خاندانی منصوبہ بندی ان ساری اولاد کشی کی صورتوں سے زیادہ بری ہے جو اس سے پہلے رائج رہ چکی ہیں کیونکہ اس کے نتیجے میں قوائے انسانی کمزور سے کمزور تر ہو رہے ہیں اور جوں جوں یہ کمزوری بڑھے گی افزائش نسل زیادہ ہوگی کیوں ؟ اس لئے کہ یہ فطرت کا اصول ہے کہ جس قدر ایک چیز کو تلف کرنے کی مصنوعی صورتیں بڑھتی جائیں گی اتنی ہی اس کی افزائش بڑھتی جائے گی اور اس کے بڑھنے کی نئی نئی صورتیں نکلتی آئیں گی۔ انسان اس خوش فہمی میں مبتلا ہوتا ہے کہ میں نے اس کی فلاں صورت ختم کردی لیکن اس کی سمجھ میں یہ نہیں آتا کہ میں نے جو ختم کیا اس کے تلف کرنے کے نتیجہ میں اس کی چار پانچ صورتیں اس کی افزائش کے لئے مزید بڑھ چکی ہیں اور اسی طرح ان کے نام رکھنے اور پھر ان میں سے ایک ایک کے ختم کرنے کی صورت اسی طرح ہر ایک کے ختم ہونے کے نتیجہ میں فطرت ان کو کئی ایک اقسام میں مزید بڑھا رہی ہے اور اس کا مجموعی نتیجہ پہلے سے بہت زیادہ مختلف شکلوں اور صورتوں میں سامنے آیا ہے اور اس طرح آج پانچ سے پچاس صورتیں اس کی افزائش کی سامنے آچکی ہیں اور ایک روز یقیناً ایسا آئے گا کہ انسان تھک ہار کر بیٹھ رہے اور نتیجہ اس ذات کے سپرد کرے جس کے سپرد خود فطرت نے کیا تھا کیونکہ وہی سب کا حقیقی رب ہے۔ اسلام نے جو فطری منصوبہ بندی بنائی تھی یہ سب اس فطری منصوبہ بندی سے انحراف کا نتیجہ ہے۔ اس جگہ آپ کے غور کرنے کے لئے ایک چیز پر اکتفا کیا جاتا ہے آپ اس پر غور کریں بات یقیناً آپ پر روشن ہوجائے گی۔ دنیا میں آج تک مرد کے مقابلہ میں عورت کو ختم کرنے کی زیادہ صورتیں اختیار کی گئیں اور اسی طرح عورت کو مرد کے مقابلہ میں نامبارک سمجھا گیا اور آج اس کا نتیجہ جو آپ کے سامنے ہے کیا رہا ؟ یہی کہ عورتوں کی تعداد مردوں کے مقابلے میں زیادہ ہوگئی اور اسی طرح آج عورتیں مردوں کے مقابلہ میں مبارک سمجھی جانے لگیں اور یہ تجزیہ پوری دنیا کے نظام کو سامنے رکھ کر نکالا گیا ہے کسی ایک ملک کو سامنے رکھ کر نہیں۔ آپ اپنے ملک کی آبادی اور خانہ شماری کو سامنے رکھیں گے تو یقیناً یہی نتیجہ سامنے آئے گا کہ تقسیم ہند کے وقت کو کوئی بڑی مدت نہیں ہوئی کیونکہ اس کروڑوں سال کی بڑھیا کی عمر کے پیش نظر رکھا جائے تو پچاس سال کی آخر مدت ہی کیا ہے لیکن اس پچاس سال کی معمولی مدت کو سامنے رکھ کر یہ فیصلہ کرلیں کہ تقسیم کے وقت مردوں اور عورتوں کی کیا نسبت تھی اور آج کیا ہے اور یہ کہ تقسیم کے وقت عورت کا کیا مقام تھا اور آج کیا ہے ؟ بس اسی کو پیش نظر رکھ کر فیصلہ کرلیں کہ عمل کیا ہے اور اس کا فطری رد عمل کیا ؟ آپ یقیناً اس نتیجہ پر پہنچیں گے کہ جتنا عمل تیز ہوا اتنا ہی اس کا رد عمل بھی۔ قدرت کا یہ سارا عمل اس ایک مثال سے سمجھ سکتے ہو کہ جوں جوں بچہ رحم میں بڑھتا جاتا ہے اور مادہ بچہ کے وضع کرنے کے جوں جوں قریب آتی جاتی ہے چھاتیوں میں اس کی خوراک کی افزائش شروع ہوجاتی ہے اور جونہی بچہ بطن سے باہر آتا ہے ماں کی چھاتی دودھ سے بھر جاتی ہے لیکن جس ماں کے رحم میں بیج نہ ڈالا گیا ہو یا رحم کی زمین نے اس بیج کو قبول نہ کیا ہو تو چھاتی میں دودھ کی افزائش شروع نہیں ہوتی آخر کیوں ؟ اس لئے کہ جب ایک عمل نہیں تو رد عمل کیسے ہو ؟ بے حیائی کی باتوں کے قریب بھی نہ جائو وہ کھلی ہوں یا چھپی ہوں : 238: اسلامی معاشرے کی چوتھی پابندی کو فحش کہا گیا ہے۔ فحش کیا ہے ؟ ہر برا کام اور وہ قول وعمل جس کی برائی کھلی ہوئی ہو اور وہ عمل جس کا سننا اور کرنا برا لگے یا فطری طور پر انسان اس کو کرنا یا کہنا برا جانے یعنی ایسا عمل ، قول اور فعل جس کا کرنے یا کہنے والا اس کے ظاہر ہونے کو پسند نہ کرے۔ بےحیائی کا کام المعروف زنا ، برا کلام جو شرعاً اور عرفاً برا محسوس ہو اور اسی طرح امر قبیح بھی فحش ہے۔ الفاحشۃ ما عظم قبحہ من الافعال والاقوال (مفردات ) قرآن کریم میں زنا ، عمل قوم لوط یعنی سدو میت ، برہنگی ، جھوٹی تہمت اور باپ کی منکوحہ سے نکاح اور حدیث میں چوری ، شراب نوشی ، پانسے ، ازلام اور بھیک مانگنے کو بھی فواحش کہا گیا ہے اور اسی طرح کے دوسرے تمام گندے افعال پر بھی فواحش کا لفظ اطلاق کرتا ہے۔ اس کو قرآن کریم نے لا تقربوا الزنا کے الفاظ سے بیان کیا ہے۔ اس حکم کے مخاطب افراد بھی ہیں اور معاشرہ بحیثیت مجموعی بھی۔ افراد کے لئے اس حکم کے معنی یہ ہیں کہ وہ محض فعل زنا ہی سے بچنے پر اکتفا نہ کریں بلکہ زنا کے مقدمات اور اس کے ان ابتدائی محرکات سے دور رہیں جو اس راستے کی طرف لے جاتے ہیں۔ رہا معاشرہ تو اس حکم کی رو سے اس کا فرض یہ ہے کہ وہ اجتماعی زندگی میں زنا اور محرکات زنا اور اسباب زنا کا سدباب کرے اور اسی غرض کے لئے قانون سے تعلیم و تربیت سے اجتماعی ماحول کی اصلاحی سے معاشرتی زندگی کی مناسب تشکیل سے اور دوسری تمام موثر تدبیر سے کام لے اس لئے کہ فواحش وہ چیزیں ہیں جو ایمانی قوت کو کمزور کرتی ہیں اور آہستہ آہستہ اس کو بالکل ختم کر کے رکھ دیتی ہیں۔ اسلامی معاشرے کی یہ وہ پابندی ہے جس سے آخر کار اسلامی نظام زندگی کے ایک وسیع پروگرام کی تشکیل ہوئی۔ قتل ناحق کے مرتکب بھی نہ ہو اس لئے کہ یہ فعل بھی حرام ٹھہرایا گیا ہے : 239: اسلامی معاشرے کی پانچویں پابندی قتل نفس ہے۔ قتل نفس سے مراد صرف دوسرے انسان ہی کا قتل نہیں ہے بلکہ خود اپنے آپ کو قتل کرنا بھی ہے اس لئے کہ نفس جس کو اللہ نے ذی حرمت ٹھہرایا ہے اس کی تعریف میں دوسرے نفوس کی طرح انسان کا اپنا نفس بھی داخل ہے اس لئے جتنا بڑا گناہ اور جتنا بڑا جرم قتل انسان ہے اتنا ہی بڑا جرم اور گناہ خود کشی بھی ہے۔ آدمی کی بڑی غلط فہمیوں میں سے ایک غلط فہمی یہ ہے کہ وہ اپنے آپ کو اپنی جان کا مالک اور اپنی اس ملکیت کو باختیار خودتلف کردینے کا مجاز سمجھتا ہے حالانکہ یہ جان اللہ کی ملکیت ہے اور ہم اس کے اتلاف کو تو درکنار اس کے کسی بےجا استعمال کے بھی مجاز نہیں ہیں۔ دنیا کی اس امتحان گاہ میں اللہ تعالیٰ جس طرح بھی ہمارا امتحان لے اسی طرح ہمیں آخر وقت تک امتحان دیتے رہنا چاہئے۔ خواہ حالات امتحان اچھے ہوں یا برے اللہ کے دئیے ہوئے وقت کو قصداً ختم کر کے امتحان گاہ سے بھاگ نکلنے کی کوشش بجائے خود غلط ہے کجا کہ یہ فرار بھی ایک ایسے جرم عظیم کے ذریعہ سے کیا جائے جسے اللہ نے صریح الفاظ میں حرام قرار دیا ہے اس کے دوسرے معنی یہ ہیں کہ آدمی دنیا کی چھوٹی چھوٹی تکلیفوں اور ذلتوں اور رسوائیوں سے بچ کر عظیم تر اور ابدی تکلیف ورسوائی کی طرف بھاگتا ہے۔ اس کے بعد ” الا بالحق “ کی استثنا نے یہ بات ثابت کردی کہ کوئی وقت ایسا بھی آتا ہے کہ کسی انسانی جان کو تلف کرنا ضروری ہوجاتا ہے جس سے نہ عقل انکار کرتی ہے اور نہ نقل اس کی تین صورتیں بیان کی گئی ہیں۔ (1) ۔ قتل عمد کے مجرم سے قصاص۔ (2) ۔ دین حق کے راستے میں مزاحمت کرنے والوں سے باقاعدہ طریقہ کے مطابق جنگ۔ (3) ۔ اسلامی حکومت کو الٹنے کی سعی کرنے والوں کو سزائے موت اور مرتد ہونے کے بعد اسلامی حکومت کے خلاف علم بغاوت بلند کردینا بھی اسی ضمن میں آتا ہے۔ فرمایا یہ وہ باتیں ہیں جن کی اللہ تعالیٰ نے تمہیں وصیت کی ہے کہ تم سمجھ بوجھ سے کام لو اور ان کے قریب نہ جائو۔ یتیموں کے مال کی طرف کھاجانے کی نیت سے ہاتھ بڑھانا بھی حرام ہے : 240: اسلامی معاشرے کی چھٹی پابندی یہ ہے کہ یتیموں کے مال کو ناجائز طریقہ سے ہڑپ کرلیا جائے اور اس طرح کا کھایا ہوا مال بھی یقیناً ناجائز اور حرام ہے۔ یہ بھی محض ایک اخلاقی ہدایت نہیں بلکہ اسلامی حکومت میں یتامی کے حقوق کی حفاظت کے لئے انتظامی اور قانونی دونوں طرح کی تدابیر اختیار کرنا ہوں گی اور دونوں ہی طرح کی تدابیر اختیار کی گئی تھیں دوسری جگہ قرآن کریم نے یتیموں کے مال کو ناجائز طریقہ سے کھا جانے کو دوزخ کی آگ قرار دیا ہے اور جب اسلامی حکومت اپنے ان تمام شہریوں کے مفاد کی محافظ ہے جو اپنے مفاد کی خود حفاظت کرنے کے قابل نہ ہوں اور اس میں ہر طرح کے کمزور طبقہ کے لوگ شامل ہوجاتے ہیں اور ان کی یہ شمولیت برابری کے طریقہ پر ہوگی اسلام میں طبقاتی تقسیم کا کوئی جواز موجود نہیں بلکہ اسلام اس مذہبی تفریق کو شرک سے موسوم کرتا ہے اور یتیموں کے مال کی حفاظت نہایت ضروری ہے اور وہ اس طرح ہوگی کہ ان کے مال کو ان کی جائز ضرورت کے علاوہ خرچ نہ کیا جائے اور اگر مال محفوظ رکھا جائے اور یتیموں کو کھانا اور ان کا دوسرا خرچ کفیل اپنی گرہ سے ادا کرتا ہے تو یہ بہت بڑی نیکی ہے لیکن اگر کفیل اس قابل نہ ہو اور اتنی وسعت نہ رکھتا ہو کہ اس کی ضروریات کو پورا کردے تو اس کے مال میں سے باقاعدہ حساب کتاب سے وصول کرے۔ اندھیر نگری والا معاملہ نہ کرے اور یہ معاملہ یتیم کے سن رشد تک پہنچ جانے تک ہوگا اور جب وہ یتیم سن رشد کو پہنچ جائے اور اپنے مال کی حفاظت خود کرلینے کا اہل ہو تو اس کو اس کا مال لوٹا دینا چاہئے اور یہ بھی کہ ایسے وقت حساب کتاب کر کے گواہوں کے روبرو اس کی کفالت کی ذمہ داری سے سبکدوش ہونا چاہئے تاکہ بعد میں کوئی شکوہ وشکایت پیدا نہ ہو۔ ماپ اور تول کو انصاف کے ساتھ پورا کرنا بھی ہر شخص کی ذمہ داری ہے : 241: یہ گویا اسلامی معاشرے کی ساتویں پابندی ہے کہ لین دین کے طریقے اور لین دین میں ماپ اور تول کے آلے ایک طرح کے ہوں۔ باٹ ہوں تو ایک جیسے اور ماپنے کا آلہ لینے اور دینے میں برابر کا ہو کم وبیش نہ ہو کہ لینے کا اور دینے کا اور۔ حسب سابق یہ ہدایت بھی باہمی معاملت تک محدود نہ رہی بلکہ اسلامی حکومت کے قیام کے بعد یہ بات حکومت کے فرائض میں داخل کی گئی ہے کہ وہ منڈیوں اور بازاروں میں اوزان اور پیمانوں کی نگرانی کرے اور تطفیف اگر ہو تو بزور بند کر دے تطفیف چھوٹی اور حقیر چیز کے لئے بولا جاتا ہے اور اصطلاحاً ناپ تول میں چوری چھپے کمی کرنے کے لئے استعمال کیا جاتا ہے کیونکہ یہ کام کرنے والا ماپ کر یا تول کر کوئی بڑی چیز نہیں اڑاتا بلکہ ہاتھ کی صفائی دکھا کر جھکتا تول کردیتا ہوا نظر آنے کے باوجود ایک چھٹانک آدھ چھٹانک ایک سیر سے کم ہی دیتا ہے اور اس طرح بار بار تول کر بیسیوں اور سینکڑوں کو آدھی آدھی چھٹانک کم دے کر اپنے سینکڑوں چھٹاکیاں اکٹھی کرلیتا ہے جو اس چیز کے نفع سے الگ ہوتی ہیں بلاشبہ اس ناجائز مال سے وہ کتنا ہی مال اکٹھا کرے اور اس طرح ہاتھ کی صفائی سے سینکڑوں انسانوں کو دھوکا دیتا ہے اور جب ایک انسان کے ساتھ دھوکا کرنے کے لئے یہ فعل حرام ممنوع ہے تو ان سارے انسانوں کے ساتھ کیسے جائز ہو سکتا ہے۔ بہرحال ایسے مال کو جائز مال نہیں کہا جاسکتا بلکہ یہ حرام مال ہے خواہ کم ہے یا زیادہ مختصر یہ کہ اس طرح انسانوں کے ساتھ دھوکہ سے پیش آنے والا آدمی اللہ کے ہاں دھوکا باز ہی کہلا سکتا ہے اور حقیقت یہ ہے کہ اس طرح ڈنڈی مارنے والی قوم نہ کبھی دنیا میں فروغ پا سکی اور نہ ہی آئندہ فروغ پائے گی اور یہ برائی کوئی منفرد برائی نہیں ہے بلکہ یہ بہت سی برائیوں کے پائے جانے کی ایک علامت ہے۔ فرمایا ” ہم کسی جان پر اس کے مقدور سے زیادہ بوجھ نہیں ڈالتے۔ “ یہ وہ معیار ہے جو اللہ تعالیٰ نے تمام اعمال کے لئے مقرر فرمایا ہے کہ وہ لوگوں پر ان کی برداشت اور ان کے امکان سے زیادہ بوجھ نہیں ڈالتا۔ اس سے ایک تو یہ بات واضح ہوگئی کہ اللہ تعالیٰ نے یہ احکام جو دئیے ہیں انسان کی فطرت اور اس کی صلاحیتوں کو تول کر دئیے ہیں ان میں کوئی چیز بھی ایسی نہیں جو اس کے تحمل سے باہر ہو اور جو شخص ان کو اپنے تحمل سے باہر جانتا ہے وہ اللہ کی کہی بات کو رد کرنے کی کوشش کرتا ہے لیکن آج جو صورت حال ہے وہ اس قدر بگڑ چکی ہے کہ کوئی آدمی الا ما شاء اللہ ایسا نظر آئے جو اس بیماری بلکہ ان بیماریوں میں گھرا ہوا نہ ہو اور جب اس کو کہا جائے گا تو وہ فوراً بول اٹھے گا جی آج کل تو ان باتوں کے سوا انسان چل ہی نہیں سکتا بلکہ یہ ساری چیزیں کبھی ممنوع ہوں گی آج تو ان کے سوا اس دنیا میں زندہ رہنا ہی محال ہے۔ جب بھی بات کرو تو انصاف کی کرو خواہ کوئی شخص تمہارا کتنا ہی قریبی کیوں نہ ہو : 242: یہ اسلامی معاشرے کی آٹھویں پابندی ہے جو اس جگہ بیان ہوئی ہے کہ ایک سچے مسلمان کی زبان پر سچی بات کے علاوہ کوئی دوسری بات نہیں آنا چاہئے جب بھی کوئی بات منہ سے نکلے تو وہ بالکل سچ ہو لیکن اس جگہ موقع کلام دلیل ہے کہ تمہاری کوئی شہادت اور تمہارا کوئی فیصلہ حق و عدل سے ہٹا ہوا نہ ہو بلکہ جب بھی دو آدمیوں کے درمیان کوئی شہادت دو یا کوئی فیصلہ کرو تو وہ حق وعدل کے مطابق ہو اور اس معاملے میں اپنے کسی عزیز و قریب کے ساتھ بھی کسی قسم کی کوئی رو رعایت نہ ہو۔ اسلامی تاریخ میں سینکڑوں مثالیں اس طرح کی موجود ہیں کہ نبی اعظم و آخر ﷺ کے سامنے جو فیصلے لائے جاتے ان میں آپ کبھی بھی کسی عزیز و اقارب کی رعایت نہ کرتے یہاں تک کہ جو بات غیر مسلموں کے حق میں جاتی بےجھجک اس کو بھی کہہ دیتے اور کبھی یہ خیال نہ فرماتے کہ اس طرح ایک مسلمان کے دل پر کیا گزرے گی ؟ اور آپ ارشاد فرماتے کہ لوگو غلط شہادت دے کر میرے سے کوئی غلط فیصلہ نہ کرا لینا اگر آپ نے ایسا کیا تو اس کا وبال غلط شہادت دینے والے کی گردن پر ہوگا اور میرے فیصلے پر اللہ کا فیصلہ نافذ ہوجائے گا جو عالم الغیب اور بذات الصدور ہے۔ اللہ کے ساتھ کئے گئے عہدو پیمان بھی پورے کروان کے متعلق تم سے سوال ہوگا : 243: یہ اسلامی معاشرے کی نویں پابندی ہے جو اس جگہ بیان کی گئی کہ ” اللہ کے ساتھ عہدو پیمان کیا ہے اسے بھی پورا کرو۔ “ اور یہ پچھلی باتوں سے بھی زیادہ جامع بات ہے کہ اللہ کے ہر عہد کو پورا کرو اس میں وہ تمام عہد بھی آگئے جو اللہ نے بندوں سے لئے ہیں اور وہ عہد بھی آگئے جو ہم ایک دوسرے سے کسی خاص صالح مقصد کے لئے کرتے ہیں ہر عہد کی عند اللہ ذمہ داری ہے اس لئے ہر عہد عہد الٰہی ہے اگر وہ اللہ کے احکام کی حدود کے اندر ہے اور اس کے متعلق دوسری جگہ اس طرح فرمایا گیا ” عہد کی پابندی کرو ، بیشک عہد کے بارے میں تم کو جواب دہی کرنی ہوگی۔ “ اس لئے کہ یہ پوری قوم کا داخلی اور خارجی قانون کا سنگ بنیاد ہے۔ اسلام قبول کرتے وقت انسان جس کامل اطاعت خداوندی کا پختہ وعدہ کرتا ہے اس کو پوری طرح نباھنے کا ارشاد ہو رہا ہے اور مذکورہ بالا دو آیتوں میں زندگی بسر کرنے کے جو لا زوال اصول بیان ہوئے ہیں مسلمانوں نے جب تک ان اصولوں کو اپنی عملی زندگی میں اپنایا اور سچے دل سے ان پر کاربند رہے تو ان کی سروری کا ڈنکا چار دانگ عالم میں بجتا رہا اور جب سے ہم نے ان حیات بخش اصولوں سے بےاعتنائی برتنی شروع کی اس وقت سے زوال وادبار کا چکر شروع ہوا۔ نہ معلوم کب ہماری چشم ہوش کھلے گی اور وہ دن سعید کب طلوع ہوگا جب ہم قرآنی ہدایت پر عمل پیرا ہو کر شاہراہ ترقی پر گامزن ہوں گے۔
Top