Urwatul-Wusqaa - Al-A'raaf : 117
وَ اَوْحَیْنَاۤ اِلٰى مُوْسٰۤى اَنْ اَلْقِ عَصَاكَ١ۚ فَاِذَا هِیَ تَلْقَفُ مَا یَاْفِكُوْنَۚ
وَاَوْحَيْنَآ : اور ہم نے وحی بھیجی اِلٰى : طرف مُوْسٰٓي : موسیٰ اَنْ : کہ اَلْقِ : ڈالو عَصَاكَ : اپنا عصا فَاِذَا : تو ناگاہ هِىَ : وہ تَلْقَفُ : نگلنے لگا مَا : جو يَاْفِكُوْنَ : انہوں نے ڈھکوسلا بنایا تھا
اور ہم نے موسیٰ (علیہ السلام) پر وحی کی کہ تم بھی اپنی لاٹھی ڈال دو جونہی اس نے لاٹھی پھینکی تو اچانک کیا ہوا جو کچھ جھوٹی نمائش جادوگروں کی تھی سب اس نے نگل کرنا بود کر دی
اس وقت ہم نے عصا ڈالنے کی وحی موسیٰ (علیہ السلام) پر کردی : 128: اللہ تعالیٰ نے فرمایا ایسے وقت میں جب لوگوں کی آنکھیں اور خیال دونوں باطل سے مرعوب ہو رہے تھے ہم نے موسیٰ (علیہ السلام) کو دلائل حق کی لاٹھی پھینک دینے کا حکم فرمایا اور موسیٰ (علیہ السلام) کا لاٹھی کو پھینکنا تھا کہ وہ ان کی ایک ایک بناوٹ کو ہڑپ کرتی چلی گئی۔ جادوگروں کی طرف سے جو کچھ بنایا گیا تھا وہ سراسر جھوٹ ، دھوکا اور فریب تھا اگرچہ اس وقت ظاہری نظر سے دیکھنے والوں کو وہ جھوٹ جھوٹ دکھائی نہ دیا ، کیوں ؟ اس لئے کہ صرف ایک چیز کو دیکھ کر فیصلہ کرنا نہایت مشکل ہوتا ہے جب تک ساتھ دوسری بھی نہ ہو اور یہ بھی کہ دونوں چیزوں کو نہیں تو کم از کم ایک چیز کی پہچان ضرور ہو جو سرے سے کسی چیز کی پہچان ہی نہ رکھتا ہو وہ کیا شناخت کرے گا۔ حاضرین میں اکثریت ان لوگوں کی تھی جو حق و باطل کی پہچان نہیں رکھتے تھے اور اس سے کم وہ لوگ تھے جو جھوٹ کا جھوٹ ہونا جانتے تھے اس لئے کہ ان کو جھوٹ نے دبا لیا تھا یعنی بنی اسرائیل لیکن سچ کی شناخت کرنے والے ان میں بھی بہت کم تھے۔ ساحروں نے جب جھوٹ کو سچ کر دکھانے کی کوشش کی تو ان کا متاثر ہونا یقینی تھا کیونکہ بصارت ایسے وقت میں اکثر جواب دے جاتی ہے اور یہی کچھ اس وقت ہوا کہ بصیرت نہ رکھنے والوں کی بصارت نے جب حق و باطل میں فرق نہ کیا تو وہ باطل کو حق سمجھ بیٹھے لیکن جو نہی حق کی دلیل کھلی اور باطل اس کے سامنے ٹھہر نہ سکا تب جا کر ان لوگوں کی آنکھیں کھلیں لیکن اس کے باوجود ” میں نہ مانوں “ والوں نے حق کو جھٹلایا اور باطل کو ڈنڈے کے زور سے سچ بنانے کی ناکام کوشش کی۔ اس وقت تک اس نے حق کو حق نہ مانا جب تک موت کو اس نے آنکھوں سے نہ دیکھ لیا اور وہ وہی وقت تھا جب دریائے نیل یا بحر قلزم کے پانی نے اس کا گلا آدبایا اس وقت موسیٰ (علیہ السلام) کی عصا کا اثر ظاہر ہوا لیکن یہ وقت وہ تھا کہ جو کچھ ہونا تھا اس کا فیصلہ نافذ ہوچکا تھا اس لئے ایسے وقت میں اس سچ نے بھی فرعون کو کچھ فائدہ نہ دیا بلکہ الٹا رسوا ہی کیا۔ اس آیت میں لفظ ” تَلْقَفُ “ استعمال ہوا اور یہ لفظ قرآن کریم میں تین بار استعمال ہوا ہے اور تینوں بار موسیٰ (علیہ السلام) کے اس واقعہ میں ذکر کیا گیا ہے جس کا مادہ ل قہے اور اس کے معنی ایک چیز کو دانائی کے ساتھ لے لینے کے ہیں خواہ منہ سے ہو یا ہاتھ سے جیسے سیاہی چوس کا غذ سیاہی کو لے لیتا ہے اور اس کو مزید پھیلنے نہیں دیتا۔
Top