Mafhoom-ul-Quran - Al-A'raaf : 8
وَ الْوَزْنُ یَوْمَئِذِ اِ۟لْحَقُّ١ۚ فَمَنْ ثَقُلَتْ مَوَازِیْنُهٗ فَاُولٰٓئِكَ هُمُ الْمُفْلِحُوْنَ
وَالْوَزْنُ : اور وزن يَوْمَئِذِ : اس دن الْحَقُّ : حق فَمَنْ : تو جس ثَقُلَتْ : بھاری ہوئے مَوَازِيْنُهٗ : میزان (نیکیوں کے وزن فَاُولٰٓئِكَ : تو وہی هُمُ : وہ الْمُفْلِحُوْنَ : فلاح پانے والے
اور اس دن تولنا برحق ہے پھر جس کسی کا پلہ بھاری نکلے گا تو کامیابی اسی کے لیے ہو گی
اعمال کی جانچ لازم ہے فلاح وہی پائیں گے جن کے اچھے اعمال بھاری ہوں گے : 8: فرمایا حق کا تقاضا ہے کہ اعمال تو لے جائیں اور وہ یقیناً تو لے جائیں گے۔ اعمال کے وزن سے کیا مراد ہے ؟ اس میزان کی شکل و صورت کیا ہوگی ؟ جو کچھ تو لا جائے گا وہ فی نفسہ وہ اعمال ہوں گے یا ان اعمال کے وہ صحائف جن میں وہ اعمال لکھے گئے ہیں ؟ یہ اور اس طرح کے کتنے ہی سوال ہیں جو لوگوں نے خود اٹھائے ہیں اور پھر خود ہی ان کا جواب بھی دیا ہے اور پھر ایک دوسرے سے اختلاف کر کے اس قدر دور نکل گئے ہیں کہ ان کو اپنے چلنے کی جگہ کا پتہ ہی نہیں رہا کہ ہم کہاں سے چلے تھے اور کہاں نکل گئے۔ بعد میں آنے والوں نے ان بحثوں کو پڑھا تو کسی کو معتزلہ کہہ کر اس کا رد کیا اور کسی کو اہل سنت کہہ کر اس کے بیان کی تصدیق کی لیکن ہمارے خیال میں یہ ساری بحثیں بیکار ہیں اور ذہنی عیاشی کے سوا ان میں کچھ بھی نہیں۔ حق کا تقاضا ہے کہ اعمال تو لے جائیں ، کیوں ؟ اس لئے کہ حق کو دبایا گیا اور حق کو چھپایا گیا اور یہ بھی کہ حق کے ساتھ باطل کو ملایا گیا اور ملمع سازی کر کے حق پر باطل چڑھایا گیا تاکہ حق حق نہ رہے بلکہ باطل ہوجائے جب ان کا وقت آیا تو حق کو حق کر دکھایا اور باطل باطل ہو کر رہ گیا۔ اب حق کیوں تقاضا نہ کرے کہ اعمال تو لے جائیں۔ کیونکہ وہ خود ایک عمل ہے۔ رہی یہ بات کہ اعمال کے تولنے کا طریقہ کیا ہوگا تو اس وقت جب انسانی عقل نے حرارت اور روشنی کے درجات کو ناپنے کے اور ہوا اور پانی کے دبائو کا اندازہ کرنے کے مقیاس اور آلات ایجاد کر لئے ہیں تو اس عقل کل اور قادر مطلق کی قدرت کاملہ سے کیا بعید ہے کہ وہ ایسا پیمانہ یا ایسا مقیاس یا کوئی آلہ پیدا فرمادے جس کے قریب کرتے ہی حق اور باطل کا تول نکھر کر سامنے آجائے اور بات کو تول کر کرنے والوں سے تو یہ وزن آج بھی پوشیدہ نہیں جو خود یہ سبق پڑھاتے ہیں کہ پہلے بات کو تولو پھر بولو کیا وہ تولنا نہیں جانتے ؟ تو پھر یہ بحث کتنی لغو ہے جس کو خواہ مخواہ اٹھا کر وقت ضائع کیا گیا۔ فرمایا نیک اعمال والوں کا پلڑا یقیناً بھاری ہوگا اور کامیابی بھی ان ہی کے حصے میں آئے گی۔ برے اعمال کرنے والے روسیاہ ہو کر رہ جائیں گے جب ان کا اپنا پلڑا ہلکا نظر آئے گا یہ ایک طریقہ بیان ہے جس کو اور بھی کئی طریقوں سے قرآن کریم نے بیان کیا ہے جیسا کہ اعمال نامہ کو دائیں یا بائیں ہاتھ میں دیتے ہی اعمال تل جائیں گے اور اس سے آگے بڑھ کر صرف دائیں اور بائیں میں لوگوں کو تقسیم کر کے اعمال کا وزن دکھا دیا جائے گا جبکہ دائیں والے کامیاب اور بائیں والے ناکام ہوں گے۔ اب بتائیے کہ اعمال تولنے میں کتنا وقت لگا۔
Top