بِسْمِ اللّٰهِ الرَّحْمٰنِ الرَّحِيْمِ
Urwatul-Wusqaa - Al-Anfaal : 1
یَسْئَلُوْنَكَ عَنِ الْاَنْفَالِ١ؕ قُلِ الْاَنْفَالُ لِلّٰهِ وَ الرَّسُوْلِ١ۚ فَاتَّقُوا اللّٰهَ وَ اَصْلِحُوْا ذَاتَ بَیْنِكُمْ١۪ وَ اَطِیْعُوا اللّٰهَ وَ رَسُوْلَهٗۤ اِنْ كُنْتُمْ مُّؤْمِنِیْنَ
يَسْئَلُوْنَكَ : آپ سے پوچھتے ہیں عَنِ : سے الْاَنْفَالِ : غنیمت قُلِ : کہ دیں الْاَنْفَالُ : غنیمت لِلّٰهِ : اللہ کیلئے وَالرَّسُوْلِ : اور رسول فَاتَّقُوا : پس ڈرو اللّٰهَ : اللہ وَاَصْلِحُوْا : اور درست کرو ذَاتَ : اپنے تئیں بَيْنِكُمْ : آپس میں وَاَطِيْعُوا : اور اطاعت کرو اللّٰهَ : اللہ وَرَسُوْلَهٗٓ : اور اس کا رسول اِنْ : اگر كُنْتُمْ : تم ہو مُّؤْمِنِيْنَ : مومن (جمع)
لوگ تم سے پوچھتے ہیں مال غنیمت کے بارے میں کیا ہونا چاہیے ؟ کہہ دو مال غنیمت در اصل اللہ اور اس کے رسول کا ہے ، پس چاہیے کہ اللہ سے ڈرو ، اپنا باہمی معاملہ درست رکھو اور اس کی اور اس کے رسول کی اطاعت کے لیے سرگرم ہوجاؤ اگر تم مومن ہو
اے پیغمبر اسلام لوگ آپ سے مال غنیمت کے متعلق پوچھتے ہیں کہ وہ کیا ہے ؟ 1: الْاَنْفَالِ 1ؕ ، نفل کی جمع ہے جس کے متعنی زائد ، فضل اور انعام کے ہیں جیسا کہ نگلی عبادت یعنی نماز ، روزہ اور صدقہ و خیرات کو بھی کہا جاتا ہے جو فرض واجب نہ ہو اس کو نفل محض اس لئے کہا جاتا ہے کہ یہ کسی کے ذمہ لازم نہیں ہوتا۔ کرنے والے کی خوشی ہے چاہے کرے تو اجر پائے اور چاہے نہ کرے اس جگہ نفل سے مراد وہ مال ہے جو کفار سے لڑائی کے بعد حاصل ہوتا ہے اور اس کو غنیمت کے نام سے بھی موسوم کیا جاتا ہے۔ اس سوال کی ضرورت کیا پیش آئی ؟ مکہ میں جب بنی اعظم و آخر ﷺ کی دعوت کا ظہور ہوا تو قدرتی طور پر دو گروہ پیدا ہوگئے۔ ایک ان لوگوں کا تھا جنہوں نے یہ دعوت قبول کی ، دوسرا تمام قوم اور اس کے درداروں کا جو اس کے مخالف تھے۔ دونوں میں بنا انزاع کیا تھی ؟ پیروان دعوت کہتے تھے کہ انہیں حق ہے جس بات کو وہ درست سمجھیں ، اختیار کریں لیکن مخالف کہتے تھے کہ انہیں یہ حق حاصل نہیں یعنی وہ انسان کے اعتقاد و ضمیر کی آزادی تسلیم نہیں کرتے تھے۔ وہ چاہتے تھے کہ بزور شمشیر مسلمانوں کو ان کے عقائد سے پھیر دیں پیغمبر اسلام نے تیرہ برس تک ہر طرح کے مظالم برداشت کئے آخر جب مکہ میں زندہ رہنا دشوار ہوگیا تو اللہ نے دمینے چلے آنے کا حکمدیا اور آپ مدینہ چلے آئے لیکن قریش مکہ نے اس جگہ بھی چین سے بیٹنے نہ دیا ، پے در پے حملے شروع کردیا۔ اب پیغمبر اسلام کے سامنے تین راہیں تھیں۔ 1 : جس بات کو حق سمجھتے ہیں اس سے دست بردار ہوجائیں۔ 2 : اس پر قائم رہیں مگر مسلمانوں کو قتل ہوتے دیکھتے رہیں اور ان کو ہاتھ ہلانے کی اجزت نہ دیں۔ 3 : ظلم و تشدد کا مردانہ وار مقابلہ کریں اور نتیجہ اللہ پر چھوڑ دیں۔ آپ ﷺ نے اللہ کے حکم سے تیسرا راستہ اختیار کیا اور یہی راہ حق بھی تھی اور نتیجہ وہی نکلا جو ہمیشہ سے نکلتا آرہا تھا یعنی حق فتح مند ہوا اور ظالموں کا ہمیشہ کے لئے خاتمہ ہوگیا۔ قرآن کریم نے جس لڑائی کو جائز رکھا اس کی حقیقت بس یہی ہے۔ اس جگہ چونکہ لڑائی کی حالت پیش آگئی تھی اس لئے اس کے ضروری احکام بھی بتادئیے گئے۔ عربوں کے ہام رواج تھا کہ جو قبیلہ کسی دوسرے قبیلہ پر حملہ کرتا تو ان کو تی تیغ کرلے ان کے مال پر قبضہ لیتا اور جو شخص جو کو قتل کرتا اس مقتول کا سارا ساز و سامان وہ حاصل کرلیتا۔ اسلام سے قبل چونکہ مار دھاڑ تھی جس کے پیچھے کوئی نظریہ نہیں تھا اسلام نے ایک نظریہ پیش کیا اور جو کچھ پیش کیا اس کے حق اور سچ ہونے کے دلائل پیش کئا لیکن دلائل تو وہیں کام دیتے ہیں جہاں عقل و فکر سے کام لینا روا سمجھا جائے۔ اسلام میں جب جہاد فرض کیا گیا تو اس کے لئے اصول و ضوابط بھی بتائے گئے۔ مدینہ پہنچنے کے بعد سب سے پہلا معرکہ غزوہ بدر کا پیش آیا اور اللہ تعالیٰ 313 نہتوں سے 950 ہاتھیوں کو شکست سے دو وچار کرادیا اور ان کو وہ ہزیمت اٹھانا پڑی کہ جس کی داستانیں رہتی دنیا تک یاد رکھی جائیں گی۔ کفار مکہ کے ستر آدمی مارے گئے اور ستر آدمی قیدی بنا لئے گئے اور باقی لوگ کرنا ہی سر و سامان چھوڑ کر بھاگ گئے۔ وہ سارا مال و دولت اور جنگی سامان اکھٹا کرلیا گیا لیکن اب اس کی تقسیم کا کیا کیا جائے یہ قدرتی سوال پیدا ہوتا تھا اور یہی پیدا ہوا اور اللہ نے اس کا جواب اس سورة الانفال کے شرور میں سنا دیا اور یہی وہ سورت ہے جس میں غزوہ بدر کی زیادہ تفصیل ہوئی اور اس معرکہ کا حال بڑی وضاحت سے بیان کیا گیا اور شروع ہی میں بتا دیا مال غنیمت اللہ اور اس کے رسول کی ملکیت ہے اور رسول اللہ ﷺ جس طرح چاہیں گے اللہ کے حکم سے اس کو تقسیم کریں گے یہ کسی کی ذاتی ملکیت نہیں ہے اور اس کے لئے ضابطہ بیان کرنے کا حق اللہ اور اس کے رسول کو ہے۔ اتنی بات تو اس قت وتا دی اور بعد میں اس کا تعین بای فرما دیا کہ اس کے تقسیم کرنے کا طریقہ کیا ہوگا چناچہ آگے چل کر اس کی پوری تفصیل بیان ہوگی۔ اس وقت یاد رکھنے کی بات صرف یہی ہے کہ وہ طریقہ جو پہلے تمہارے ہاں معروف ہے وہ سرا غلط اور زیادتی ہے کہ اس سے حق اور ناحق واضح نہیں ہوتا بلکہ اکثر و بیشتر طاقت و کمزور کو خواہ مخواہ قتل کر کے اس کے سامان کا مالک بن بیٹھتا ہے جو سراسر ظلم و زیادتی ہے۔ وہ روایات جو ابن مردویہ نے کلبی کی وساطت سے روایت ابو صالح اور عطاء نے ابن عجامان کی وساطت سے بروایت عمکرمہ حضرت ابن عباس ؓ کے بیان کے موافق حدیث کے الفاظ اس طرح بیان کئے ہیں کہ جو (جو شخص کسی دشمن کو قتل کرے گا اس سے چھینا ہوا مال یعنی اسلحہ اور لباس اس کا ہوگا) اس بات کی نسبت رسول اللہ ﷺ کی طرف صحیح نہیں ہے ہاں ! صحابہ کرام ؓ کے ذہن میں رواج کے مطابق یقیناً یہ بات ہوگی جیسا کہ اس واقعہ کی تفصیل غزوہ بدر کے شریک حضرت عبادہ ؓ کی زیادتی مسند احمد ، ترمذی ، ابن ماجہ اور مستدرک حاکم وغیرہ میں اس طرح منقول ہے کہ (یہ آیت تو ہمارے یعنی اصحاب بدر کے بارہ میں نازل ہوئی ہے جس کا واقعہ یہ تھا کہ مال غنیمت کی تقسیم کے بارہ میں ہمارے درمیان کچھ اختلاف پیدا ہوگیا تھا جس نے ہمارے اخلاق پر برا اثر ڈالا۔ اللہ تعالیٰ نے اس آیت کے ذریعہ اموال غنیمت کو ہمارے ہاتھوں سے لے کر رسول اللہ ﷺ کے سپرد کردیا اور آپ ﷺ نے سب حاضرین بدر میں اس کو مساوی طور پر تقسیم فرمادیا۔ ) اس اختلاف کی صورت جو پیش آئی اور جس طرح یہ اختلاف رونما ہوا اس کو بیان کرتے ہوئے انہوں نے کہا کہ (ہم سب غزوہ بدر میں رسول اللہ ﷺ کے ساتھ نکلے اور دونوں فریقوں میں یعنی مسلمانوں اور کفار میں گھمسان کی جنگ کے بعد اللہ تعالیٰ نے دشمن کو شکست دی تو اب ہمارے لشکر کے تین حصے ہوگئے۔ کچھ لوگوں نے بھاگتے دشمن کا تعاقب کیا تاکہ وہ پھر واپس نہ آسکے۔ کچھ لوگ دشمنوں کے چھوڑے ہوئے اموال یعنی غنیمت جمع کرنے میں لگ گئے اور کچھ لوگ رسول اللہ ﷺ کی گرد جمع رہے کہ کسی طرف سے چھپا ہوا دشمن آپ ﷺ پر حملہ نہ کردے۔ جب جنگ ختم ہوگئی اور رات کو ہر شخص اپنے ٹھکانے پر پہنچا تو جن لوگوں نے مال غنیمت جمع کیا تھا وہ کہنے لگے کہ یہ مال تو ہم نے جمع کیا ہے اس لئے اس میں ہمارے سوا کسی کا حصہ نہیں اور جو لوگ دشمن کے تعاقب میں گئے تھے انہوں نے کہا کہ تم لوگ ہم سے زیادہ اس کے حق دار نہیں ہو اور جو لوگ نبی کریم ﷺ کی حفاظت کے لیے آپ ﷺ کے گرد جمع رہے انہوں نے کہا کہ ہم چاہتے تو ہم بھی تمہارے ساتھ مال جمع کرنے میں تمہارے ساتھ شریک ہوتے لیکن رسول اللہ ﷺ کی حفاظت جو جہاد کا سب سے اہم کام تھا اس میں مشغول رہے اور اس لئے ہم اس کے مستحق ہیں۔ ہماری گفتگو رسول اللہ ﷺ تک بھی پہنچ گئی یعنی کسی نے سوال کے طور پر پوچھ لی تو اس پر یہ آیت نازل ہوئی جس نے واضح کردیا کہ یہ مال اللہ کا ہے اس کا کوئی مالک و حق دار نہیں بجز اس کے جس کو رسول اللہ ﷺ عطا فرمائیں۔ پھر آپ ﷺ نے اللہ کے حکم سے اس مال کو شرکاء بدر میں مساوی طور پر تقسیم فرما دیا اور سب لوگ آپ ﷺ کے فیصلہ پر راضی ہوگئے اور وہ صورت جو اس سے پہلے آپس میں پیش آئی تھی اس پر سب کے سب نادم ہوئے۔ اس سورة مبارک میں غزوہ بدر کے واقعات تفصیل سے بتائے گئے ہیں اس لئے اس کا ذکر کردینا مناسب معلوم ہوتا ہے کہ غزوہ بدر کو اس نام سے کیوں موسوم کیا گیا ؟ بدر دراصل ایک کنوئیں کا نام تھا جو اس کے سردار بدر بن حارث یا بدر بن کلدہ نے کھدوایا تھا لیکن بعد میں یہ ساری وادی کو بدر کے نام سے پکارا گیا۔ یہ وادی مدینہ منورہ سے تقریباً اسی میل جنوب مغرب کی طرف واقع ہے۔ آج کل وہاں ایک اچھا خاصہ قصبہ آباد ہے۔ اس قصبہ کی پہلی جامع مسجد بھی اس جگہ تعمیر ہوئی ہے جہاں غزوہ بدر کے موقع پر رسول اللہ ﷺ کے لئے ایک جھونپڑی بنائی گئی تھی اور اس کے گرد دور دور تک نخلستان ہیں۔ یہ وادی بیضوی شکل کی ہے جو اندازاً پانچ میل لمبی اور چار میل چوڑی ہے اس کے اردگرد کئی پہاڑیاں ہیں ان میں سے ایک کا نام العدوۃ الدنیا اور دوسری کا نام العدوۃ القصویٰ ہے۔ سمندر وہاں سے 12 ، 13 میل کے فاصلہ پر ہے۔ نبی کریم ﷺ کو مخبروں نے خبردی کہ قریش کا ایک تجارتی قافلہ جس میں ایک ہزار اونٹ اور تقریباً ایک لاکھ درہم کا سامان ہے اور یہ قافلہ شام کی طرف سے آرہا ہے اور دوسری اطلاع یہ تھی کہ قریش کا لشکر جو 950 بہادروں پر مشتمل ہے جس میں سات سو اونٹ ، ایک سو گھوڑے ہیں ان کی حفاظت یا مدینہ پر چڑھائی کرنے کے لئے مدینہ کی طرف بڑھ رہا ہے۔ جب یہ دونوں قسم کی خبریں مدینہ میں پھیل گئیں تو اس وقت یہ فیصلہ سب سے پہلے کرنا تھا کہ مدینہ والوں کو کس طرف پیش قدمی کرنی چاہئے۔ کچھ لوگوں کا خیال تھا کہ تجارتی قافلہ کی طرف بڑھنا چاہئے تاکہ مال پر قبضہ کرلیا جائے جس سے کفار کی مالی حالت کمزور ہوگی اور کچھ کا خیال تھا کہ اس لشکر کی طرف نکلنا چاہئے جو مدینہ پر چڑھائی کی خا پر آرہا ہے تاکہ اس کو روک دیا جائے اور مدینہ کی طرف پیش قدمی نہ کرسکے۔ نبی کریم ﷺ کی رائے بھی یہی تھی اور اللہ تعالیٰ کو بیا یہی رائے پسند تھی لہٰذا اللہ نے بھی اس کو پسند کیا اور اس کی طرف نکلنے کا حکم دیا۔ آپ ﷺ نے عمرو بن ام مکروم ؓ کو مدینہ طیبہ میں اپنا نائب مقرر فرمایا اور خود اس قافلہ کو ساتھ لے کر 12ؕ رمضان المبارک 2 ہجری کو 313 صحابہ ؓ کے ہمارہ مدینہ سے نکلے ان صحابہ کرام ؓ میں 74 مہاجرین تھے اور باقی سب انصار کے لوگ تھے اس جبش میں چار علم تھے۔ رسول اللہ ﷺ کا علم علی ؓ کے پاس تھا۔ مہاجرین کا علم مصعب بن تکمیر کے پاس ، خزرج کا علم حباب بن منذر کے پاس اور اوس کا علم سعد بن معاذ ؓ کے پاس تھا۔ اس سارے لشکر میں دو گھوڑے اور ستر اونٹ تھے۔ مسلمانوں کی طرف سے سب سے پہلے میدان میں نکلنے والے صبع ؓ تھے اور اس جنگ میں 14 صحابہ کرام ؓ نے شہادت پائی جن میں چھ مہاجر اور آٹھ انصار تھے۔ قریش کے لوگوں میں سے ستر آدمی مارے گئے اور ستر آدممی قید کر لئے گئے۔ یہ تصادم 17 رمضان المبارک 2 ہجری کو ہوا تھا اور 22 یا 23 رمضان المبارک کو یہ لشکر مدینہ واپس پہنچ گیا تھا۔ اگر تم مومن ہو تو اللہ سے ڈرو اور باہمی معاملہ درست رکھو : 2: مال غنیمت کو اللہ کا مال اور اس کے رسول کا قرار دینے کے ساتھ ہی مسلمانوں کو نصیحت جارہی ہے کہ جب تمہارا مطمع نظر مال نہیں بلکہ جہادگی سبیل اللہ ہے تو پھر مال دیکھ کر تمہارا دل کیوں للچائے اور کیوں یہ خواہش پیدا ہو کہ مجھے یہ مل جاتا تو بہتر ہوتا۔ مال اور اولاد کی محبت فطری ہے اور اسلام فطری چیزوں میں کبھی رکاوٹ کا باعث نہیں ہوا بلکہ فطری چیزوں کو پورا کرنے کی تلقین کرتا ہے لیکن اندھا دھند نہیں بلکہ ان کے لئے مخصوص پر یقے بتاتا ہے تاکہ انسانیت اور حیوانیت کا فرق واضح رہے ایسا نہ ہو کہ انسان فقط حیوان ہو کر رہ جائے اور اپنی انسانیت کو ضائع کر دے۔ غنیمت کا مال جب اللہ اور اس کا رسول اک قرار پایا تو اس کا مطلب یہ نہیں کہ سارے لوگ اس سے محروم رہیں گے بلکہ اس کا اصل مطلب یہ ہے کہ یہ مال کسی ایک انسان کا ملکیت نہیں کہ وہ اپنی مرضی سے اس میں تصرف شروع کردے بلکہ وہ اللہ کے حکم سے اس کا یا رسول کا کوئی نائب یعنی مقرر کردہ آدمی باقاعدگی کے ساتھ مسلمانوں میں قتسیم کرے گا اور جس کو جو کچھ ملا سمجھ لے کہ اس مال میں اس کا اتنا ہی حصہ تھا۔ جیسا کہ مسند احمد کی روایت ہے کہ سعد بن ابی وقاص ؓ نے فرمایا کہ غزوہ بدر میں میرے بھائی عمیر شہید ہوگئے میں نے ان کے مقابل مشرکین میں سے سعید بن العاص کو قتل کردیا اور اس کی تلوار اپنے قبضہ میں کرلی جس کو بعد میں نبی کریم ﷺ کی خدمت میں پیش کیا لیکن میں چاہتا تھا کہ یہ تلوار مجھے مل جائے میں نے اس کا اظہار بھی کیا مگر نبی کریم ﷺ نے حکم دیا کہ اس کو مال غنیمت میں جمع کردو۔ میں نے بادل نخواستہ مال غنیمت میں اس کو جمع کرا دیا۔ ابھی زیادہ دیر نہیں گزری تھی کہ آپ ﷺ پر سورة الانفال کی یہ آیت نازل ہئی۔ جب مال تقسیم ہوا تو رسول اللہ ﷺ نے مجھے طلب کیا اور وہ طلوار مجھے عنایت فرمادی اور اس طرح سارا مال غنیمت مسلمانوں میں تقسیم کردیا گیا۔ اس طرح یہ بات واضح ہوگئی کہ مال غنیمت جو لڑائی میں ہاتھ آئے وہ اللہ اور اس کے رسول کا ہے ، کا مطلب کیا ہے ؟ یہی کہ یہ بات نہیں کہ جو جس کے ہاتھ لگ گیا وہ اس کا ہوگیا بلکہ سب کچھ اپنے سپہ سالار کے سامنے پیش کیا جائے اور پھر وہ اسے جماعت میں تقسیم کردے گا۔ امن کی حالت ہو یا لڑائی کی ہو مسلمانوں کو باہم دگرصلح و صفائی کے ساتھ رہنا چاہئے اور وہ اسی طرح ممکن ہے کہ کوئی شخص صرف اپنی ہی غرض کو سامنے نہ رکھے بلکہ اجتماعی اغراض کو پیش نظر رکھتے ہوئے اپنے قائد اور رہنما کی پوری پوری اطاعت و فرمانبرداری کرے۔ بلاشبہ مال غنیمت کا یہ اجمالی حکم تھا اور تفصیلی حکم اس کے بعد نازل ہوا اور اس میں یہ طے پا گیا کہ پانچواں حصہ مال غنیمت کا بیت المال میں چلا جائے گا اور چار حصے غازیوں میں تقسیم ہوں گے اور بیت المال میں جانے والا مال بھی دوسرے ضرورت مند اور حاجت مندوں میں تقسیم ہوگا اور اس سے ملک کا حکمران اور انتظام و انسرام کرنے والا بھی اپنی جائز ضرورتوں کو پورا کرے گا۔ ہاں ! خیال کرے کہ جن لوگوں نے اس سے پہلے حکم کو دوسرے حکم سے منسوخ مانا ہے انہوں نے غور نہیں کیا اس میں منسوخی کی کوئی بات نہیں بلکہ اجمال و تفصیل کی بات ہے۔ جس طرح آگے چل کر اس طرح کے ایک مال کو جو دشمن سے حاصل ہو لیکن دشمن لڑے بغیر چھوڑ کر بھاگ جائے تو اس کو مال فئے کے نام سے یاد کیا گیا ہے جس کا ذکر سورة الحشر میں آیا ہے وہ پورے کا پورا رسول اللہ ﷺ کا زیر تصرف ہے اور آپ ﷺ اپنی صوابدید سے جس کو جتنا چاہیں عطافرمائیں اور اس کے لئے یہ بھی ضروری نہیں ہے کہ اس کا کوئی خاص حصہ ضرور مجاہدین میں صرف کیا جائے جیسا کہ مال غنیمت کے لئے لازم ہے۔ فرمایا (اللہ سے ڈرو اور اپنا باہمی معاملہ درست رکھو) اس میں اشارہ اس واقعہ کی طرف ہے جو اس غزوہ بدر میں اموال غنیمت کی تقسیم کے متعلق صحابہ کرام ؓ کو پیش آیا۔ کیونکہ اس غزوہ سے پہلے کوئی باقاعدہ جنگ نہ ہوئی تھی اور نہ ہی ان اموال کی تقسیم کا ابھی کوئی ضابطہ اس آیت کے ذریعے طے کردیا اب ان کے دلوں کی اصلاح اور باہمی تعلقات کی خوشگواری کی تدبیر بتالائی گئی ہے جس کا مرکزی نقطہ تقویٰ اور خوف الٰہی ہے اور حقیقت بھی یہی ہے کہ جب تقویٰ اور خوف الٰہی اور خوف آخرت غالب ہوتا ہے تو بڑے بڑے جھگڑے فوراً ختم ہوجاتے ہیں اور باہمی مناخرت کے پہاڑ گرد بن کر اڑ جاتے ہیں اور اہل تقویٰ کا حال تو یہ ہے کہ ان کے پاس جو صحیح معنوں میں متقی ہیں جنگ و جدل اور جھگڑے کے لئے کوئی طاقت ہی نہیں ہوتا کیونکہ ان کا قلب اللہ تعالیٰ کی محبت اور خوف اور یاد میں مصروف رہتا ہے اس لئے ایسے کاموں کے لئے ان کو قطعاً فرصت ہی نہیں ملتی۔ مومن کا مطلب اللہ اور اس کے رسول کی فرمانبرداری ہے : 3: آیت زیر نظر کے آخر میں پھر ایک بار تاکید کی جا رہی ہے کہ : مؤمن کا مطلب ہی اللہ اور اس کے رسول کی فرمانبرداری ہے۔ ہر مواحد کسی بحث و تامل کے بغیر اس بات پر متفق ہے کہ ہمیں اپنے خالق کے احکام پر بلاچون و چرا عمل کرنا چاہیے مگر مشکل یہ ہے کہ وہ تو غیر مرئی ہے اور انسانی ادارک سے ماوراء ہے۔ چناچہ اس کی مرضی یا حکم کس طرح معلوم کیا جائے ؟ سبھی اتفاق کرتے ہیں کہ جب تک اللہ تعالیٰ خود اپنے احکام ہم پر واضح نہ کر دے انسان کے لیے خود ان احکام سے آگاہی حاصل کرنا ممن نہیں۔ عملی طور پر تمام مذاہب کا بھی اس امر پر اتفاق ہے کہ دوسرے تمام حیوانات 4 کے لیے ان کی جبلت کافی ہے مگر حیوان ناطق (انسان) محض جبلت کی راہنمائی قبول نہیں کرسکتا کیونکہ وہ مشینی انداز میں عمل نہیں کرتا بلکہ وہ اپنی عقل و دانش کی روشنی میں استدلال کرتا ہے۔ یہی وجہ ہے کہ مختلف امور پر مختلف انسانوں کا ردعمل جدا جدا ہوتا ہے۔ انسان قوت استدلال سے مالامال ہونے کے باعث اس بات پر اتفاق کرتا ہے جس کا وہ قائل ہوجائے خواہ وہ ازخود قائل ہو یا کوئی دوسرا انسان اسے دلیل سے قائل کرے۔ وہ اگر انتہائی سنگین تعصب کا شکار نہ ہو تو وہ استدلال کے بعد اپنے فیصلے بھی بدل لیتا ہے۔ دوستوں پر اعتماد کی بدولت وہ اپنے خیر اندیش رفقاء کی رائے کو اولیت دیتا ہے۔ بچہ ابتداء میں ماں کی ہر بات پر عمل کرتا ہے ، پھر وہ والس کے احکام کو اولیت دیتا ہے اور بوجوہ اس کی اطاعت کا مرکز تبدیل ہوجاتا ہے۔ باپ کے بعد وہ اپنے استاد ، استاد کے بعد حکمران اور روحانی پیشوا کے احکام کی تعمیل کرتا ہے۔ اس کے بعد اس رویہ کے پس منظر میں ٹٹسزا و جزاثث کا تصور ہی کارفرما ہوتا ہے۔ روحانی راہنما اس کی روح کو تقدس سے ہمکنار کرتا ہے اور اس ضمن میں سب سے بڑا محرک اللہ تعالیٰ کا خوف ہے جو حیات بعد ممات پر قادر ہے اور بندے کو دوبارہ زندی دے کر نافرمانی کی سزا دے سکتا ہے اور سب سے بڑا روحانی راہنما خود اللہ کا رسول ہی ہو سکتا ہے۔ قرآن کریم کے مطابق نبی و رسول اپنے وقت کا سب سے متقی شخص اور اللہ کا سب سے زیادہ فرمانبردار بندہ ہوتات ہے اسے نزول وحی یا القا کے ذریعے اللہ تعالیٰ کا پیغام وصول ہوتا ہے۔ اللہ تعالیٰ کی طرف سے آنے والے ان پیغامات کو یکجا کر کے ایک قانونی ضابطہ کی شکل دے دی جاتی ہے اور جو اس ضابطہ کو قبول کرتے ہیں وہی صحیح معنوں میں مؤمن کہلاتے ہیں اور زیر نظر آیت میں اسلام کو قبول کرنے الوں سے اسی چیز کا مطالبہ کیا جا رہا ہے جب تم مؤمن کہلاتے ہو تو تم پر رسول اللہ ﷺ کی پیروی لازم آتی ہے لہٰذا کوئی کام ایسا مت کرو جو اللہ اور رسول ﷺ کی فرمانبرداری کے خلاف ہو۔ گویا ایمان کا تقاضا ہے اطاعت اور اطاعت نتیجہ ہے تقویٰ کا اور جب یہ چیزیں لوگوں کو حاصل ہوجائیں تو ان کے پاس کے جھگڑے خودبخود ختم ہوجائیں گے اور دشمنی کی جگہ الفت و محبت پیدا ہوجائے گی۔ اس لیے ہر مال میں تقویٰ اور اطاعت مؤمنین کا نصب العین ہونا چاہیے کہ اس کے بغیر کامیابی ممکن نہیں۔
Top