Urwatul-Wusqaa - Al-Anfaal : 23
وَ لَوْ عَلِمَ اللّٰهُ فِیْهِمْ خَیْرًا لَّاَسْمَعَهُمْ١ؕ وَ لَوْ اَسْمَعَهُمْ لَتَوَلَّوْا وَّ هُمْ مُّعْرِضُوْنَ
وَلَوْ : اور اگر عَلِمَ اللّٰهُ : جانتا اللہ فِيْهِمْ : ان میں خَيْرًا : کوئی بھلائی لَّاَسْمَعَهُمْ : تو ضرور سنادیتا ان کو وَلَوْ : اور اگر اَسْمَعَهُمْ : انہیں سنا دے لَتَوَلَّوْا : اور ضرور پھرجائیں وَّهُمْ : اور وہ مُّعْرِضُوْنَ : منہ پھیرنے والے
اور اگر اللہ دیکھتا کہ ان میں کچھ بھلائی ہے تو ضرور انہیں سنوا دیتا اور اگر وہ انہیں سنوائے تو نتیجہ یہی نکلے گا کہ اس سے منہ پھیر لیں گے اور وہ اس سے پھرے ہوئے ہیں
ان میں کچھ بھی بھلائی موجود ہوتی تو اللہ ان کو ضرور سنوادیتا : 32: اللہ تعالیٰ نے ہر انسان میں ساری صلاحیتیں ودیعت فرمائی ہیں اگرچہ ان میں کمئ بیشی تسلیم ہے تاہن وہی صلاحیت کام کرتی ہے جس کے لئے وہ کوشش کرتا ہے اور جیسی کچھ اس کی کوشش ہوتی ہے ویسی ہی صلاحیت ترقی کرتی ہے مثلاً دنیا میں جتنا پیشے ایجاد ہوئے ہیں ان سب کی صلاحیت ہر انسان میں موجود ہے لیکن جو شخص جس کے حاصل کرنے کی کوشش کرتا ہے اس میں وہ کامیاب ہوتا ہے اور باقی صلاحیتیں اس طرح سوئی رہتی ہیں اور وہ کبھی نہیں جاگتیں۔ یہی بات عقل و فکر کی ہے جو شخص اس سے کام لیتا ہے اس کو وہ یقیناً کام دیتی ہے اور جو اس کو چھونا بھی پسند نہیں کرتا اس کو وہ کبھی مجبور نہیں کرتی۔ اس آیت میں ارشاد فرمایا کہ اگر اللہ ان میں کوئی بھلائی دیکھتا تو ان کو اعتقاد کے ساتھ سننے کی توفیق یقیناً دے دیتا جب وہ ہی اس سے وہ کام لینے کے لئے تیار نہیں گویا ان کو طلب حق نہیں ہے تو ان کو حق سنائی بھی جائے تو یقیناً وہ اس سے رو گردانی کریں گے اور روگردانی کرنے والو کو اس سے کیا حاصل ہوگا ؟ بھلائی سے مراد اس جگہ طلب حق ہے کہ طلب ہی کے ذریعہ تدبیر اور فہم کے دروازے کھلتے ہیں اور اس سے اعتقاد و عمل کی توفیق ہوتی ہے اور جس میں طلب حق نہیں گویا اس میں کوئی بھلائی نہیں۔ مطلب یہ ہے کہ اگر ان میں کوئی بھلائی ہوتی تو یقیناً وہ اللہ کے علم میں ہوتی جب اللہ کے علم میں ان سے اندر کوئی بھلائی نہیں تو معلوم ہوا کہ در حقیقت وہ ہر بھلائی سے محروم ہیں اور اس محرومی کی حالت میں اگر ان کو غور و فکر اور تدبر و اعتقاد کی دعوت دی جائے تو ہرگز قبول نہیں کریں گے بلکہ اس سے منہ پھیر کر بھاگیں گے یعنی ان کی یہ روگردانی اس وجہ سے نہ ہوگی کہ دین میں ان کو کوئی اعتراض کی بات نظر آگئی ہے اس لئے وہ نہیں مان رہے بلکہ حقیقت یہ ہے کہ وہ حق پر کان دھرنے کے لئے تیار نہیں ہیں۔ اگر ان کو سنوا بھی دے تو وہ قبول کرنے کے لئے تیار نہ ہوں گے : 33: یہ اس لئے فرمایا کہ دراصل وہ قبولیت کی صلاحیت کھو چکے ہیں اس لئے ان کو سنوانا اور نہ سنوانا دونوں برابر ہیں کیونکہ کسی چیز کو سننا اس وقت مفید ہوسکتا ہے جب اس کے مطابق عمل کیا جائے ۔ افسوس کہ آج مسلمانوں کا بھی سننا ویسا ہی سننا ہوگیا اس لئے کہ وہ سنے ہوئے کو کبھی سمجھنے کی کوشش نہیں کرتے اور خصوصاً قرآن کریم ہی کے ساتھ یہ ظلم و ستم کیا جارہا ہے کہ وہ سمجھتے ہیں جن حرفوں کی آواز سے قرآن کریم کے الفاظ بنے ہیں انہیں کسی نہ کسی طرح کان میں ڈال لینا سماعت قرآن ہے اور اس سے ثواب کے ہم مستحق ہوجاتے ہیں اور اس سے زیادہ کسی بات کی کوئی ضرورت نہیں۔ حالانکہ سننے سے فائدہ اس وقت ہوتا ہے جب انسان اس پر غور کرے اور عقل سے اس کو سمجھے اور پھر اس کے مطابق عمل کرے۔ آج بد قسمتی سے قوم مسلم نے اپنے آپ کو خیرو خوبی سے اس لئے محروم کرلیا کہ وہ قرآن کریم کو سمجھنے کے لیے تیار ہی نہیں بلکہ حق کی عداوت میں وہ یہاں تک ترقی کرچکے ہیں کہ اگر کملہ حق ان کے کان میں ڈالا بھی جائے تو بوجہ عناد کے وہ اس سے منہ پھیر لیتے ہیں۔ غور و فکر کرنا تو بڑی دور کی بات ہے وہ سننے کے لئے بھی تیار نہیں اور اگر کوئی بات ان کے کان میں پڑ ہی جائے تو بڑبڑانے لگتے ہیں۔ پھر افسوس کی بات یہ ہے کہ عوام تو عوام رہے آج خواص کا بھی یہی حال ہے اور اس پر جتنا رویا جائے اتنا ہی کم ہے۔ کوئی سر پیٹے یا بال نوچے حقیقت یہی ہے کہ قرآن کریم کا کوئی صفحہ اس مضمون سے خالی نہیں اور اس کے ہر بیان میں یہ بات نمایاں ہے کہ میری دعوت سر تا سر تتعقل و تفکر کی دعوت ہے جو انسان اپنے حواس و عقل سے کام نہیں لیتا وہ قرآن کریم کے نزدیک انسان نہیں بلکہ بدترین چوپایہ ہے اور وہ فکر و عمل کی حس حالت کو کفر کی حالت قرار دیتا ہے اس کا سرچشمہ یہی عقل و حواس کا تعطل ہے اور آج اس سے قوم مسلم دو چار ہے اور پیشوایان اسلام ہیں کہ ان کو پیٹ کے دھندے سے فراغت ہی نہیں۔
Top