Urwatul-Wusqaa - Al-Anfaal : 46
وَ اَطِیْعُوا اللّٰهَ وَ رَسُوْلَهٗ وَ لَا تَنَازَعُوْا فَتَفْشَلُوْا وَ تَذْهَبَ رِیْحُكُمْ وَ اصْبِرُوْا١ؕ اِنَّ اللّٰهَ مَعَ الصّٰبِرِیْنَۚ
وَاَطِيْعُوا : اور اطاعت کرو اللّٰهَ : اللہ وَرَسُوْلَهٗ : اور اس کا رسول وَ : اور لَا تَنَازَعُوْا : آپس میں جھگڑا نہ کرو فَتَفْشَلُوْا : پس بزدل ہوجاؤگے وَتَذْهَبَ : اور جاتی رہے گی رِيْحُكُمْ : تمہاری ہوا وَاصْبِرُوْا : اور صبر کرو اِنَّ : بیشک اللّٰهَ : اللہ مَعَ : ساتھ الصّٰبِرِيْنَ : صبر کرنے والے
اور اللہ اور اس کے رسول کا کہا مانو اور آپس میں جھگڑا نہ کرو ایسا کرو گے تو تمہاری طاقت سست پڑجائے گی اور ہوا اکھڑ جائے گی اور تم صبر کرو ، اللہ ان کا ساتھی ہے جو صبر کرنے والے ہیں
دوسری ہدایت یہ ہے کہ اللہ اور اس کے رسول کا کہا مانو اور جھگڑا مت کرو : 62: اس آیت نے یہ وضاحت کردی کہ میدان جنگ میں بھی مسلمانوں کو اللہ اور اس کے رسول کی فرمانبرداری سے باہر قدم نہیں رکھنا چاہئے اور دوسرا یہ کہ جنگ کے متعلق بھی اسلام کے پاس اللہ اور اس کے رسول کی دی ہوئی ہدایات موجود ہیں اور انہی ہدایات میں جنگ لڑنے اور جنگ جیتنے کے گر موجودد ہیں اور پھر اس اطاعت الٰہی کی جگہ جگہ وضاحت بھی ارشاد فرمادی کہ دشمن کے مقابلہ میں کامل نظم و ضبط اور مکمل ڈسپلن قائم رکھنا اللہ ہی کی فرمانبرداری ہے اور میدان جنگ میں نظم ونسق کا فقدان اور آرزو و حکم کی خلاف ورزی اللہ اور اس کے رسول کی نافرمانی کے مترادف ہے اور جہاد کے وقت جہاد کرنا اللہ ہی کی عبادت ہے بلکہ دوسری ساری عبادات سے افضل ہے اور اس میں کوتاہی عبادت الٰہی میں کوتاہی کے مترادف ہے بلکہ ساری عبادت کے ضائع ہونے کا خطرہ بھی موجود ہے اور اس سلسلہ کی یہ تیسری ہدایت ہے ثابت قدمی ، ذکر اللہ کے ساتھ اللہ اور رسول کی اطاعت مل کر تین ہدایات ہوگئیں اور ابھی سلسلہ ہدایت جاری ہے۔ مشکل وقت آنے پر صبر کرنا اللہ کی معیت میں داخل ہونا ہے : 63; : فرمایا کہ جنگ کے دوران سب سے زیادہ خطرناک وہ چیز ہے جس کو تنازع کہا جاتا ہے اور اس سلسلہ میں یہ سب سے بڑی اور اہم تنبیہ ہے کہ ایسے وقت میں باہم نزاع اور کشاکشی نہ ہونی چاہئے اس پر مزید تاکید کرتے ہوئے ارشاد فرمایا کہ اگر کوئی ایسی بات ہوگئی تو تم میں اس کے نتیجہ میں بزدلی پھیل جائے گی اور تمہاری ہوا اکھڑ جائے گی اور تم دشمنوں کی نظر میں حقیر ہوجاؤ گے اور اجتماعی قوت پاشاں پاشاں ہوجائے گی اور ایک دوسرے کی طاقت و قوت کے ساتھ جو ملاپ کر کے قوت بڑھی تھی اس میں کمزوری واقع ہوگی اور جس چیز کو ہماری زبان میں ” ایک ایک اور دو گارہ “ کہا جاتا ہے وہ بات ختم ہوجائے گی اور اس طرح ہوا اکھڑ جانا سیدھا مغلوب ہوجانے کے مترادف ہے کیونکہ جب ایک دوسرے پر اعتماد و اتحاد نہ رہا تو اس کی اکیلی قوت رہ گئی جو میدان قتال میں کوئی چیز نہیں ہے۔ اس ہدایت کے بعد تنازع اور ہوا اکھڑ جانے سے محفوظ رہنے کا گر بھی بتادیا اور فرمایا : وَ اصْبِرُوْا 1ؕ یعنی صبر کو لازم پکڑ لو گویا جن چیزوں سے اختلاف اور نزاع پیدا ہوتا ہے ان کو برداشت کر جاؤ ۔ خلاف طبع امور کو نظر انداز کرتے ہوئے اگر تمہاری رائے پر عمل نہیں کیا جارہا ہے تو تم دوسروں کی رائے پر گامزن ہوجاؤ اور دل پر صبر کر کے اجتماعی قوت کے ساتھ جمے رہو اور اس وقت سمجھ لو کہ ہماری رائے کوئی رائے نہیں اگر دوسروں کی رائے کا نتیجہ صحیح سامنے نہ آئے تو بھی خاموش رہو اور طعن وتشنیع نہ کرو کیونکہ اس وقت اس سے چشم پوشی لازم و ضروری ہے۔ اپنی رائے قائم کرنے یا رائے دینے کا ایک وقت ہوتا ہے اور کوئی کام بھی چاہے وہ کتنا ہی صحیح اور درست کیوں نہ ہو اگر بےوقت ہو تو اس کی اہمیت وہ نہیں رہتی اور آیت کے آخر میں فرمادیا کہ : اِنَّ اللّٰهَ مَعَ الصّٰبِرِیْنَۚ0046 یعنی لبر کرنے والوں کو اللہ کی معیت حاصل ہوتی ہے گویا یہ اتنی بڑی دولت اور تنی بڑی نعمت ہے کہ اس کے سامنے دنیا جہان کی ساری دولتیں اور نعمتیں ہیچ ہوجاتیت ہیں۔ نبی اعظم و آخر ﷺ نے بعض غزوات میں انہیں الٰہی ہدایات کے پیش نظر میدان جنگ میں پہنچ کر بھی یہ خطبہ ارشاد فرمایا کہ ” اے لوگو ! دشمن سے مقابلہ کی تمنا نہ کرو بلکہ اللہ تعالیٰ سے عافیت طلب کرو اور اگر ناگزیر طور پر مقابلہ ہو ہی جاے تو پھر صبر و ثبات کو لازم پکڑو اور یہ سمجھ لو کہ جنت تلواروں کے سائے میں ہے۔ “ (مسلم) اس طرح اس آیت میں جو ہدایات دی گئیں ان کا ماحصل اس طرح ہے کہ ” باہمی نزاع سے بچو ورنہ سست پڑجاؤ گے اور ساری بات بگڑ جائے گی “ اور یہ کہ ” کتنی ہی مشکلیں پیش آئیں پوری مردانگی سے جھیلتے رہو اور بالاخر جیت اسی کی ہے جو زیادہ جھیلنے والا ہوگا۔ “
Top