Urwatul-Wusqaa - Al-Ghaashiya : 20
وَ اِلَى الْاَرْضِ كَیْفَ سُطِحَتْٙ
وَاِلَى الْاَرْضِ : اور زمین کی طرف كَيْفَ : کیسے سُطِحَتْ : بچھائی گئی
اور زمین کہ وہ کیسے بچھائی گئی ہے
اور زمین کہ وہ کس طرح بچھائی گئی ہے 20 ؎ زمانہ کے حالات ہیں کہ بدلتے رہتے ہیں کبھی دکھ ہوتا ہے تو کبھی سکھ میں انسان سرشار ہوتا ہے۔ فرمایا اگر سکھ ، عیش اور دولت کی حالت پیدا ہوجائے تو زمین کی طرح بچھ جائو اور بجائے تکبر اور بخل کے آپس میں فروتنی اور انکسار ، حلم اور تواضع ، فیاضی اور وسعت زمین کی طرح پیدا ہوجائے کہ جہاں تک کوئی نظر ڈالے وہ بچھی ہوئی نظر آتی جاتی ہے جوں جوں نظر میں وسعت آئے گی اس کی وسعت مزید بڑھتی چلی جائے گی اور پھر دیکھو کہ وہ کس طرح دوست اور دشمن کے قدموں سے رات اور دن کو روندی جاتی ہے اور پامال ہوتی رہتی ہے لیکن اس کے باوجود اس کا فیض عام ہے کہ امیر ہو یا غریب ، دوست ہو یا دشمن سب کے سب اس کے سینہ پر آرام پاتے ہیں ۔ اس کے غلے ، پھل ، اجناس ، سبزیاں اور ترکاریاں ، پانی اور ہوا ہرچیز سے نفع اٹھاتے ہیں پس سکھ اور غلبہ کی حالت میں شکر کا نمونہ زمین سے سیکھ لو تمہاری فروتنی اور خاکساری ، حلم اور تواضع ، فیاضی اور بےنفسی ایسی ہی ہو جس کا نظارہ زمین میں نظر آتا ہے اس طرح قرآن کریم نے ایک بدو کو اور ایک نا خواندہ اور ان پڑھ آدمی کو سارا دین کس طرح سکھا دیا کہ اس کی بدویت اور نا خواندگی بھی درمیان میں مزاحم نہ ہوئی ۔ اس جگہ ہم نے محض اشارات دیئے ہیں اس کی مکمل تفسیر کی جائے توبیسیوں صفحات سیاہ ہوتے چلے جائیں لیکن مقصود بیان فقط تفہیم ہے بحث و تمحیت نہیں اور جب کام اشارے سے چل جائے تو وہاں گفتگو مفید نہیں ہوتی ۔ قرآن کریم کے نصائح اور محمد رسول اللہ ﷺ کی کرائی گئی تفہیم کا کا ئ ہی مقام ہے اور آپ ﷺ کو حکم دیا گیا ہے کہ آپ ﷺ نصیحت کا معاملہ جاری رکیں ص اور نصیحت حاصل کرنے والوں کی طرف نظر اٹھا کر بھی نہ دیکھیں کہ انہوں نے کس طرح کی نصیحت حاصل کی ہے اور وہ کس درجہ کے لوگ ہیں۔
Top