Urwatul-Wusqaa - At-Tawba : 79
اَلَّذِیْنَ یَلْمِزُوْنَ الْمُطَّوِّعِیْنَ مِنَ الْمُؤْمِنِیْنَ فِی الصَّدَقٰتِ وَ الَّذِیْنَ لَا یَجِدُوْنَ اِلَّا جُهْدَهُمْ فَیَسْخَرُوْنَ مِنْهُمْ١ؕ سَخِرَ اللّٰهُ مِنْهُمْ١٘ وَ لَهُمْ عَذَابٌ اَلِیْمٌ
اَلَّذِيْنَ : وہ لوگ جو يَلْمِزُوْنَ : عیب لگاتے ہیں الْمُطَّوِّعِيْنَ : خوشی سے کرتے ہیں مِنَ : سے (جو) الْمُؤْمِنِيْنَ : مومن (جمع) فِي : میں الصَّدَقٰتِ : صدقہ (جمع) خیرات وَالَّذِيْنَ : اور وہ لوگ جو لَا يَجِدُوْنَ : نہیں پاتے اِلَّا : مگر جُهْدَهُمْ : اپنی محنت فَيَسْخَرُوْنَ : وہ مذاق کرتے ہیں مِنْهُمْ : ان سے سَخِرَ : مذاق (کا جواب دیا) اللّٰهُ : اللہ مِنْهُمْ : ان سے وَلَهُمْ : اور ان کے لیے عَذَابٌ : عذاب اَلِيْمٌ : دردناک
جن لوگوں کا حال یہ ہے کہ خوش دلی سے خیرات کرنے والے مومنوں پر عیب لگاتے ہیں اور جن مومنوں کو اپنی محنت و مشقت کی کمائی کے سوا اور کچھ میسر نہیں ان پر تمسخر کرنے لگتے ہیں تو در اصل اللہ کی طرف سے خود ان پر تمسخر ہو رہا ہے ان کے لیے عذاب دردناک ہے
عیبوں میں پرورش پانے والے غریب مومنوں پر کس طرح عیب لگاتے ہیں اور کیوں لگاتے ہیں ؟ 105: ہم اوپر بیان کرچکے ہیں کہ وہ حالات کتنے نازل تھے جن حالات میں نبی اعظم و آخر ﷺ نے تبوک کی طرف پیش قدمی کا فیصلہ فرمایا اور ظاہر ہے کہ جب اتنا لمبا سفر ہو اور مجاہدین کی تعداد بھی تیس ہزار ہو اور مدت بھی معلوم نہ ہو تو اس کے لئے کتنے سرو سامان کی ضرورت ہو سکتی ہے۔ ان حالات کے پیش نظر آپ ﷺ نے چندہ جمع کرنے کی اپیل فرمائی۔ لبیک کہنے والوں نے تم من دھن سب پیش کردیا لین دیتا کون ہے ؟ وہی جس کے پاس کچھ موجود ہو۔ تبوک کے حالات و واقعات پڑھنے سے بڑے عجیب و غریب انکشاف سامنے آتے ہیں جن کو پڑھ سن کر انسان انگشت بدنداں رہ جاتا ہے کہ ان سرفروشان اسلام نے کیا کیا مثالیں قائم کیں۔ بہرحال جہاں سینکڑوں ، ہزاروں اور لاکھوں پیش کرنے والے تھے وہاں ایک سیر جو اور آدھ سیر کھجوریں دینے بھی حاضر ہوتے رہے۔ لیکن منافقین کی حالت بڑی عجیب تھی کہ ہاتھ سے کچھ دیتے بھی نہیں تھے اور خوشی اور رضا سے پیش کرنے والوں کو عیب کی نظر سے بھی دیکھتے تھے۔ روایات میں موجود ہے کہ جب عبدالرحمٰن بن عوف چار ہزار درہم لے کر حاضر ہوئے اور عدی بن حاتم نے ستر وسق کھجوریں پیش کیں اور اس طرح دوسرے مسلمان بھی مال کثیر راہ الٰہی میں پیش کرتے دیکھے تو کہنے لگے کہ یہ لوگ خدا کی راہ میں دینے کے لئے کب لائے ہیں یہ تو محض ریاکاری ہے تاکہ لوگوں کے دلوں پر اتنی سخاوت کا سکہ جما سکیں اور جب کوئی غریب صحابی سیر آدھ سیر پیش کرتا تو اس طرح کی باتیں جیسے انہوں نے ابو عقیل کی ساتھ کیں۔ ابو عقیل ایک غریب اور نادار شخص تھے بڑی تگ و دو کر کے وہ ایک سیر کھجوریں لے کر حاضر ہوئے تو ان نالائقوں نے مذاق اڑایا اور کہنے لگے کہ اس ایک سیر سے کسی لشکر کی ضیافت کا سامان ہوگا۔ مختصر یہ کہ ان کا نفس امارہ نہ تو متمول صحابہ ؓ کی فیاضانہ پیش کشوں سے متاثر ہوا نہ ان کی نادار جاں بازوں کے ایثار سے جو ساری رات کنوئیں سے پانی نکالتے رہتے اور جو کچھ مزدوری ملتی کھجوریں یا جو اسے وہ اپنے دین اسلام کی سربلندی کے لئے اپنے رسول ﷺ کی خدمت میں حاضر کردیتے۔ فرمایا ان عیوب کے اندر رہ کر پرورش پانے والے نے غریب و نادار مسلمانوں کی جو عیب جوئی کی یہ کیوں کی ؟ محض اس لئے کہ اللہ اور اس کے رسول ﷺ نے ان کو مال دے دے کر مال دار بنا دیا اور اب ان کی نظروں میں کچھ بھی نہیں جچتا وہ مسلمانوں سے ٹھٹھا اور مذاق کرتے ہیں لنکث عنقریب ان کی یہ طاقت سلب کرلی جائے گی جس کے بل بوتے وہ یہ سب کچھ کر رہے ہیں اور یہ گویا اللہ کی طرف سے ان پر مذاق ہوگا یعنی ان کے کئے ہوئے مذاق کا صلہ ، بدلہ اور نتیجہ اور آخرت میں ان کے لئے رسوا کن عذاب ہے۔
Top