Tafseer-e-Usmani - Yunus : 24
اِنَّمَا مَثَلُ الْحَیٰوةِ الدُّنْیَا كَمَآءٍ اَنْزَلْنٰهُ مِنَ السَّمَآءِ فَاخْتَلَطَ بِهٖ نَبَاتُ الْاَرْضِ مِمَّا یَاْكُلُ النَّاسُ وَ الْاَنْعَامُ١ؕ حَتّٰۤى اِذَاۤ اَخَذَتِ الْاَرْضُ زُخْرُفَهَا وَ ازَّیَّنَتْ وَ ظَنَّ اَهْلُهَاۤ اَنَّهُمْ قٰدِرُوْنَ عَلَیْهَاۤ١ۙ اَتٰىهَاۤ اَمْرُنَا لَیْلًا اَوْ نَهَارًا فَجَعَلْنٰهَا حَصِیْدًا كَاَنْ لَّمْ تَغْنَ بِالْاَمْسِ١ؕ كَذٰلِكَ نُفَصِّلُ الْاٰیٰتِ لِقَوْمٍ یَّتَفَكَّرُوْنَ
اِنَّمَا : اس کے سوا نہیں مَثَلُ : مثال الْحَيٰوةِ الدُّنْيَا : دنیا کی زندگی كَمَآءٍ : جیسے پانی اَنْزَلْنٰهُ : ہم نے اسے اتارا مِنَ السَّمَآءِ : آسمان سے فَاخْتَلَطَ : تو ملا جلا نکلا بِهٖ : اس سے نَبَاتُ الْاَرْضِ : زمین کا سبزہ مِمَّا : جس سے يَاْكُلُ : کھاتے ہیں النَّاسُ : لوگ وَالْاَنْعَامُ : اور چوپائے حَتّٰٓي : یہانتک کہ اِذَآ : جب اَخَذَتِ : پکڑ لی الْاَرْضُ : زمین زُخْرُفَهَا : اپنی رونق وَازَّيَّنَتْ : اور مزین ہوگئی وَظَنَّ : اور خیال کیا اَهْلُهَآ : زمین والے اَنَّھُمْ : کہ وہ قٰدِرُوْنَ : قدرت رکھتے ہیں عَلَيْهَآ : اس پر اَتٰىھَآ : اس پر آیا اَمْرُنَا : ہمارا حکم لَيْلًا : رات میں اَوْ نَهَارًا : یا دن کے وقت فَجَعَلْنٰھَا : تو ہم نے کردیا حَصِيْدًا : کٹا ہوا ڈھیر كَاَنْ : گویا کہ لَّمْ تَغْنَ : وہ نہ تھی بِالْاَمْسِ : کل كَذٰلِكَ : اسی طرح نُفَصِّلُ : ہم کھول کر بیان کرتے ہیں الْاٰيٰتِ : آیتیں لِقَوْمٍ : لوگوں کے لیے يَّتَفَكَّرُوْنَ : جو غور وفکر کرتے ہیں
دنیا کی زندگانی کی وہی مثل ہے جیسے ہم نے پانی اتارا آسمان سے پھر رلا ملا نکلا اس سے سبزہ زمین کا جو کہ کھائیں آدمی اور جانور3 یہاں تک کہ جب پکڑی زمین نے رونق اور مزین ہوگئی اور خیال کیا زمین والوں نے کہ یہ ہمارے ہاتھ لگے گی4 ناگاہ پہنچا اس پر ہمارا حکم رات کو یا دن کو پھر کر ڈالا اس کو کاٹ کر ڈھیر گویا کل یہاں نہ تھی آبادی اسی طرح ہم کھول کر بیان کرتے ہیں نشانیوں کو ان لوگوں کے سامنے جو غور کرتے ہیں5
3 بعض نے (فَاخْتَلَطَ بِهٖ نَبَاتُ الْاَرْضِ ) 10 ۔ یونس :24) کے معنی کثرت پیداوار کے لیے ہیں۔ کیونکہ جب زمین کی پیداوار زیادہ قوی ہوتی ہے تو گنجان ہو کر ایک جز دوسرے سے مل جاتا اور لپٹ جاتا ہے۔ بعض نے " بہ " کی " ب " کو مصاحبت کے لیے لے کر یہ معنی کیے ہیں کہ زمین کا سبزہ پانی کے ساتھ رل مل جاتا ہے۔ کیونکہ نباتات اجزائے مائیہ کو اپنے اندر جذب کرتے ہیں، جس طرح کھانا انسان کا جزو بدن بنتا ہے۔ ایسے ہی پانی، گویا نباتات کی غذا بنتی ہے۔ مترجم (رح) کے صنیع سے مترشح ہوتا ہے کہ اختلاط سے یہ مراد لے رہے ہیں کہ زمین اور پانی کے ملنے سے جو سبزہ نکلتا ہے اس میں آدمی کی اور جانوروں کی خوراک مخلوط (رلی ملی) ہوتی ہے۔ مثلاً گیہوں کے درخت میں دانہ ہے جو انسان کی غذا بنتی ہے اور بھوسہ بھی ہے جو جانوروں کی خوراک ہے۔ اسی طرح درختوں میں پھل اور پتے لگتے ہیں جن میں سے ہر ایک کے کھانے والے علیحدہ ہیں۔ 4 یعنی مختلف الوان و اشکال کی نباتات میں زمین کو پر رونق اور مزین کردیا اور کھیتی وغیرہ ایسی تیار ہوگئی کہ مالکوں کو کامل بھروسہ ہوگیا کہ اب اس سے پورا فائدہ اٹھانے کا وقت آگیا ہے۔ 5 یعنی ناگہاں خدا کے حکم سے دن میں یا رات میں کوئی آفت پہنچی (مثلاً بگولا آگیا، یا اولے پڑگئے یا ٹڈی دل پہنچ گیا۔ وعلیٰ ہذا القیاس) اس نے تمام زراعت کا ایسا صفایا کر ڈالا، گویا کبھی یہاں ایک تنکا بھی نہ اگا تھا۔ ٹھیک اسی طرح حیات دنیا کی مثال سمجھ لو کہ خواہ کتنی ہی حسین و تروتازہ نظر آئے، حتی کہ بیوقوف لوگ اس کی رونق و دلربائی پر مفتون ہو کر اصلی حقیقت کو فراموش کردیں لیکن اس کی یہ شادابی اور زینت و بہجت محض چندہ روزہ ہے جو بہت جلد زوال و فناء کے ہاتھوں نسیًا منسیًا ہوجائے گی۔ حضرت شاہ صاحب نے اس مثال کو نہایت لطیف طرز میں خاص انسانی حیات پر منطبق کیا ہے یعنی پانی کی طرح روح آسمان (عالم بالا) سے آئی، کا لبد خاکی میں مل کر قوت پکڑی، دونوں کے ملنے سے آدمی بنا، پھر کام کیے انسانی اور حیوانی دونوں طرح کے۔ جب ہر ہنر میں پورا ہوا اور اس کے متعلقین کو اس پر بھروسہ ہوگیا، ناگہاں موت آپہنچی۔ جس نے ایک دم میں سارا بنا بنایا کھیل ختم کردیا۔ پھر ایسا بےنام نشان ہوا گویا کبھی زمین پر آباد ہی نہ ہوا تھا (فائدہ) لَیْلاً اَوْنَہَاراً (رات کو یا دن کو) شاید اس لیے فرمایا کہ رات کا وقت غفلت کا ہے اور دن میں لوگ عموماً بیدار ہوتے ہیں۔ مطلب یہ ہے کہ جب خدا کا حکم آپہنچے، پھر سوتا ہو یا جاگتا، غافل ہو یا بیدار کوئی شخص کسی حالت میں اس کو روک نہیں سکتا۔
Top