Tafseer-e-Usmani - An-Nahl : 125
اُدْعُ اِلٰى سَبِیْلِ رَبِّكَ بِالْحِكْمَةِ وَ الْمَوْعِظَةِ الْحَسَنَةِ وَ جَادِلْهُمْ بِالَّتِیْ هِیَ اَحْسَنُ١ؕ اِنَّ رَبَّكَ هُوَ اَعْلَمُ بِمَنْ ضَلَّ عَنْ سَبِیْلِهٖ وَ هُوَ اَعْلَمُ بِالْمُهْتَدِیْنَ
اُدْعُ : تم بلاؤ اِلٰى : طرف سَبِيْلِ : راستہ رَبِّكَ : اپنا رب بِالْحِكْمَةِ : حکمت (دانائی) سے وَالْمَوْعِظَةِ : اور نصیحت الْحَسَنَةِ : اچھی وَجَادِلْهُمْ : اور بحث کرو ان سے بِالَّتِيْ : ایسے جو هِىَ : وہ اَحْسَنُ : سب سے بہتر اِنَّ : بیشک رَبَّكَ : تمہارا رب هُوَ : وہ اَعْلَمُ : خوب جاننے والا بِمَنْ : اس کو جو ضَلَّ : گمراہ ہوا عَنْ : سے سَبِيْلِهٖ : اس کا راستہ وَهُوَ : اور وہ اَعْلَمُ : خوب جاننے والا بِالْمُهْتَدِيْنَ : راہ پانے والوں کو
بلا اپنے رب کی راہ پر پکی باتیں سمجھا کر اور نصیحت سنا کر بھلی طرح اور الزام دے ان کو جس طرح بہتر ہو6  تیرا رب ہی بہتر جانتا ہے ان کو جو بھول گیا اس کی راہ اور وہی بہتر جانتا ہے ان کو جو راہ پر ہیں7
6  اوپر کی آیتوں میں مخاطبین کو آگاہ کرنا تھا کہ یہ پیغمبر اصل ملت ابراہیمی لے کر آئے ہیں، اگر کامیابی چاہتے ہو اور " حنیف " ہونے کے دعوے میں سچے ہو تو اس راستہ پر چل پڑو۔ اُدْعُ اِلٰی سَبِیْلِ رَبِّکَ الخ سے خود پیغمبر ﷺ کو تعلیم دی جا رہی ہے کہ لوگوں کو راستہ پر کس طرح لانا چاہیے، اس کے تین طریقے بتلائے۔ حکمت، موعظت، حسنہ، جدال بالتی ہی احسن " حکمت " سے مراد یہ ہے کہ نہایت پختہ اور اٹل مضامین مضبوط دلائل وبراہین کی روشنی میں حکیمانہ انداز سے پیش کیے جائیں۔ جن کو سن کر فہم و ادراک اور علمی ذوق رکھنے والا طبقہ گردن جھکا سکے۔ دنیا کے خیالی فلسفے ان کے سامنے ماند پڑجائیں اور کسی قسم کی علمی و دماغی ترقیات وحی الٰہی کی بیان کردہ حقائق کا ایک شوشہ تبدیل نہ کرسکیں۔ " موعظت حسنہ " موثر اور رقت انگیز نصیحتوں سے عبارت ہے جن میں نرم خوئی اور دلسوزی کی روح بھری ہو۔ اخلاص، ہمدردی اور شفقت و حسن اخلاق سے خوبصورت اور معتدل پیرایہ میں جو نصیحت کی جاتی ہے، بسا اوقات پتھر کے دل بھی موم ہوجاتے ہیں، مردوں میں جانیں پڑجاتی ہیں۔ ایک مایوس و پژمردہ قوم جھر جھری لے کر کھڑی ہوجاتی ہے، لوگ ترغیب و ترہیب کے مضامین سن کر منزل مقصود کی طرف بیتابانہ دوڑنے لگتے ہیں۔ اور بالخصوص جو زیادہ عالی دماغ اور ذکی و فہیم نہیں ہوتے، مگر طلب حق کی چنگاری سینے میں رکھتے ہیں، ان میں موثر وعظ و پند سے عمل کی ایسی اسٹیم بھری جاسکتی ہے جو بڑی اونچی عالمانہ تحقیقات کے ذریعہ سے ممکن نہیں۔ ہاں دنیا میں ہمیشہ سے ایک ایسی جماعت بھی موجود رہی ہے جن کا کام ہر چیز میں الجھنا اور بات بات میں حجتیں نکالنا اور کج بحثی کرنا ہے یہ لوگ نہ حکمت کی باتیں قبول کرتے ہیں نہ وعظ و نصیحت سنتے ہیں۔ بلکہ چاہتے ہیں کہ ہر مسئلہ میں بحث و مناظرہ کا بازار گرم ہو۔ بعض اوقات اہل فہم و انصاف اور طالبین حق کو بھی شبہات گھیر لیتے ہیں اور بدون بحث کے تسلی نہیں ہوتی اس لیے وَجَادِلْہُمْ بالَّتِیْ ھیَ اَحْسَنُ فرما دیا کہ اگر ایسا موقع پیشئے تو بہترین طریقہ سے تہذیب، شائستگی، حق شناسی اور انصاف کے ساتھ بحث کرو۔ اپنے حریف مقابل کو الزام دو تو بہترین اسلوب سے دو ، خواہ مخواہی دل آزار اور جگر خراش باتیں مت کرو۔ جن سے قضیہ بڑھے اور معاملہ طول کھینچے، مقصود تفہیم اور احقاق حق ہونا چاہیے۔ خشونت، بداخلاقی، سخن پروری اور ہٹ دھرمی سے کچھ نتیجہ نہیں۔ 7 یعنی طریق دعوت و تبلیغ میں تم کو خدا کے بتائے ہوئے راستہ پر چلنا چاہیے۔ اس فکر میں پڑنے کی ضرورت نہیں کہ کس نے مانا کس نے نہیں مانا۔ نتیجہ کو خدا کے سپرد کرو۔ وہ ہی راہ پر آنے والوں اور نہ آنے والوں کے حالات کو بہتر جانتا ہے جیسا مناسب ہوگا ان سے معاملہ کرے گا۔
Top