Tafseer-e-Usmani - Al-Qasas : 16
قَالَ رَبِّ اِنِّیْ ظَلَمْتُ نَفْسِیْ فَاغْفِرْ لِیْ فَغَفَرَ لَهٗ١ؕ اِنَّهٗ هُوَ الْغَفُوْرُ الرَّحِیْمُ
قَالَ : اس نے عرض کیا رَبِّ : اے میرے رب اِنِّىْ : بیشک میں ظَلَمْتُ : میں نے ظلم کیا نَفْسِيْ : اپنی جان فَاغْفِرْ لِيْ : پس بخشدے مجھے فَغَفَرَ : تو اس نے بخشدیا لَهٗ : اس کو اِنَّهٗ : بیشک وہ هُوَ : وہی الْغَفُوْرُ : بخشنے والا الرَّحِيْمُ : نہایت مہربان
بولا اے میرے رب میں نے برا کیا اپنی جان کا، سو بخش مجھ کو پھر اس کو بخش دیا بیشک وہی ہے بخشنے والا مہربان5
5 حضرت موسیٰ (علیہ السلام) جب جوان ہوئے، فرعون کی قوم سے بسبب ان کے ظلم و کفر کے بیزار رہتے اور بنی اسرائیل ان کے ساتھ لگے رہتے تھے، ان کی والدہ کا گھر شہر سے باہر تھا۔ حضرت موسیٰ کبھی وہاں جاتے کبھی فرعون کے گھر آتے۔ فرعون کی قوم (قبط) ان کی دشمن تھی کہ غیر قوم کا شخص ہے ایسا نہ ہو کہ زور پکڑ جائے۔ ایک روز دیکھا کہ دو شخص آپس میں لڑ رہے ہیں۔ ایک اسرائیلی دو قبطی۔ اسرائیلی نے موسیٰ کو دیکھ کر فریاد کی کہ مجھے اس قبطی کے ظلم سے چھڑاؤ۔ کہتے ہیں قبطی فرعون کے مطبخ کا آدمی تھا۔ موسیٰ پہلے ہی قبطیوں کے ظلم و ستم کو جانتے تھے۔ اس وقت آنکھ سے اس کی زیادتی دیکھ کر رگ حمیت پھڑک اٹھی۔ ممکن ہے سمجھانے بجھانے میں قبطی نے موسیٰ (علیہ السلام) کو بھی کوئی سخت لفظ کہا ہو۔ جیسا کہ بعض تفاسیر میں ہے غرض موسیٰ (علیہ السلام) نے اس کی تادیب و گوشمالی کے لیے ایک گھونسہ رسید کیا ماشاء اللہ بڑے طاقتور جوان تھے ایک ہی گھونسہ میں قبطی نے پانی نہ مانگا۔ خود موسیٰ (علیہ السلام) کو بھی اندازہ نہ تھا کہ ایک گھونسہ میں اس کم بخت کا کام تمام ہوجائے گا۔ پچھتائے کہ بےقصد خون ہوگیا۔ مانا کہ قبطی کافر حربی تھا، ظالم تھا، اور موسیٰ (علیہ السلام) کی نیت بھی محض ادب دینے کی تھی، جان سے مار ڈالنے کی نہ تھی۔ مگر ظاہر ہے اس وقت کوئی معرکہ جہاد نہ تھا۔ موسیٰ (علیہ السلام) نے قبطی قوم کو کوئی الٹی میٹم نہیں دیا تھا۔ بلکہ مصر میں ان کی بودوماند کا شروع سے جو طرز عمل رہا تھا اس سے لوگ مطمئن تھے کہ وہ یونہی کسی کی جان و مال لینے والے نہیں پھر ممکن ہے غیظ و غضب کے جوش میں معاملہ کی تحقیق بھی سرسری ہوئی ہو اور مکا مارتے وقت پوری طرح اندازہ نہ رہا ہو کہ کتنی ضرب تادیب کے لیے کافی ہے ادھر اس بلا ارادہ قتل سے اندیشہ تھا کہ فرقہ اور اشتعال پیدا ہو کر دوسرے مصائب و فتن کا دروازہ نہ کھل جائے۔ اس لیے اپنے فعل پر نادم ہوئے۔ اور سمجھے کہ اس میں کسی درجہ تک شیطان کا دخل ہے انبیاء (علیہم السلام) کی فطرت ایسی پاک و صاف اور ان کی استعداد اس قدر اعلیٰ ہوتی ہے کہ نبوت ملنے سے پیشتر ہی وہ اپنے ذرہ ذرہ عمل کا محاسبہ کرتے ہیں اور ادنیٰ سی لغزش یا خطائے اجتہادی پر بھی حق تعالیٰ سے رو رو کر معافی مانگتے تھے۔ چناچہ حضرت موسیٰ (علیہ السلام) نے اللہ سے اپنی تقصیرات کا اعتراف کر کے معافی چاہی جو دے دی گئی اور غالباً اس معافی کا علم ان کو بذریعہ الہام وغیرہ ہوا ہوگا۔ آخر پیغمبر لوگ نبوت سے پہلے ولی تو ہوتے ہیں۔
Top