Tafseer-e-Usmani - Aal-i-Imraan : 123
وَ لَقَدْ نَصَرَكُمُ اللّٰهُ بِبَدْرٍ وَّ اَنْتُمْ اَذِلَّةٌ١ۚ فَاتَّقُوا اللّٰهَ لَعَلَّكُمْ تَشْكُرُوْنَ
وَلَقَدْ : اور البتہ نَصَرَكُمُ : مدد کرچکا تمہاری اللّٰهُ : اللہ بِبَدْرٍ : بدر میں وَّاَنْتُمْ : جب کہ تم اَذِلَّةٌ : کمزور فَاتَّقُوا : تو ڈروا اللّٰهَ : اللہ لَعَلَّكُمْ : تاکہ تم تَشْكُرُوْنَ : شکر گزار ہو
اور تمہاری مدد کرچکا ہے اللہ بدر کی لڑائی میں اور تم کمزور تھے سو ڈرتے رہو اللہ سے تاکہ تم احسان مانو2
2 اس آیت میں جنگ احد کا واقعہ یاد دلایا ہے۔ صورت یہ ہوئی تھی کہ رمضان المبارک 2 ھجری میں بدر کے مقام پر قریشی فوج اور مسلمان مجاہدین میں مڈ بھیڑ ہوگئی۔ جس میں کفار مکہ کے ستّر نامور اشخاص مارے گئے اور اسی قدر گرفتار ہوئے۔ اس تباہ کن اور ذلت آمیز شکست سے قریش کا شعلہ انتقام بھڑک اٹھا، جو سردار مارے گئے تھے انکے اقارب نے تمام عرب کو غیرت دلائی اور اہل مکہ سے اپیل کی کہ تجارتی قافلہ جو مال شام سے لایا ہے (کہ وہ ہی باعث جنگ بدر کا ہوا تھا) سب اسی مہم کی نذر کردیں تاکہ ہم محمد ﷺ اور ان کے ساتھیوں سے اپنے مقتولین کا بدلہ لے سکیں سب نے منظور کیا اور 3 ھجری میں قریش کے ساتھ بہت سے دوسرے قبائل بھی مدینہ پر چڑھائی کرنے کی غرض سے نکل پڑے حتیٰ کہ عورتیں بھی ساتھ آئیں تاکہ موقع پیش آنے پر مردوں کو غیرت دلا کر پسپائی سے روک سکیں۔ جس وقت یہ تین ہزار کا لشکر اسلحہ وغیرہ سے پوری طرح آراستہ ہو کر مدینہ سے تین چار میل ادھر جبل احد کے قریب خیمہ زن ہوا۔ تو نبی کریم ﷺ نے مسلمانوں سے مشورہ لیا۔ آپ ﷺ کی رائے مبارک یہ تھی کہ مدینہ کے اندر رہ کر دشمن کا مقابلہ بہت آسانی اور کامیابی کے ساتھ کیا جاسکتا ہے، اس کی تائید آپ کے ایک خواب سے ہوئی تھی، یہ پہلا موقع تھا کہ رئیس المنافقین عبد اللہ بن ابی سے بھی رائے لی گئی جو حضور ﷺ کی رائے سے موافق تھی۔ مگر بعض پر جوش مسلمان جنہیں بدر کی شرکت نصیب نہ ہوئی تھی اور شوق شہادت بیچین کر رہا تھا، مصِر ہوئے کہ ہم کو باہر نکل کر مقابلہ کرنا چاہیے، تاکہ دشمن ہماری بزدلی اور کمزوری کا گمان نہ کرے، کثرت رائے اسی طرف ہوگئی۔ اسی حیص و بیص میں آپ ﷺ مکان کے اندر تشریف لے گئے اور زرہ پہن کر باہر آئے اس وقت بعض لوگوں کو خیال ہوا کہ ہم نے آپ ﷺ کی رائے کے خلاف مدینہ سے باہر لڑائی کرنے پر مجبور کیا۔ انہوں نے عرض کیا کہ یا رسول اللہ ! اگر آپ ﷺ کا منشا نہ ہو تو یہیں تشریف رکھئے۔ فرمایا ایک پیغمبر کو سزاوار نہیں کہ جب وہ زرہ پہن لے اور ہتھیار لگا لے پھر بدون قتال کئے بدن سے اتارے۔ جب آپ ﷺ مدینہ سے باہر تشریف لے گئے تقریبا ایک ہزار آدمی آپ کے ساتھ تھے مگر عبد اللہ بن ابی تقریبا تین سو آدمیوں کو (جن میں بعض مسلمان بھی تھے) ساتھ لے کر راستہ سے یہ کہتا ہوا واپس ہوگیا کہ جب میرا مشورہ نہ مانا اور دوسروں کی رائے پر عمل کیا تو ہم کو لڑنے کی ضرورت نہیں، کیوں خواہ مخواہ اپنے کو ہلاکت میں ڈالیں۔ بعض بزرگوں نے سمجھایا بھی مگر کچھ اثر نہیں ہوا، آخر آپ کل سات سو سپاہیوں کی جمعیت لیکر میدان جنگ میں پہنچ گئے۔ آپ ﷺ نے بنفس نفیس فوجی قاعدہ سے صفیں ترتیب دیں۔ ہر ایک دستہ کو اسکے مناسب ٹھکانہ پر بٹھلایا۔ اور فرمایا جب تک میں حکم نہ دوں کوئی قتال نہ کرے۔ اسی اثناء میں عبد اللہ بن ابی کی علیٰحدگی سے دو قبیلے بنو حارثہ اور بنو سلمہ کے دلوں میں کچھ کمزوری پیدا ہوئی۔ مسلمانوں کی قلیل جمعیت پر نظر کر کے دل چھوڑنے لگے اور خیال آیا کہ میدان سے سرک جائیں مگر حق تعالیٰ نے ان کی مدد اور دستگیری فرمائی، دلوں کو مضبوط کردیا اور سمجھا دیا کہ مسلمانوں کا بھروسہ تنہا خدائے واحد کی اعانت و نصرت پر ہونا چاہیے تعداد اور سامان وغیرہ کوئی چیز نہیں جب وہ مظفر و منصور کرنا چاہے تو سب سامان رکھے رہ جاتے ہیں اور غیبی تائید سے فتح مبین حاصل ہوجاتی ہے جیسے معرکہ بدر میں ہوا۔ پس مسلمانوں کو صرف اللہ سے ڈرنا چاہیے تاکہ اس کی طرف سے مزید انعام و احسان ہو اور مزید شکر گذاری کا موقع ملے۔ (غزوہ بدر کی پوری تفصیل سورة الانفال میں آئے گی۔ وہاں کے فوائد ملاحظہ کئے جائیں) (تنبیہ) ۔ دو فرقوں سے مراد وہی بنو سلمہ و بنو حارثہ ہیں۔ گو اس آیت میں ان پر چشمک کی گئی، لیکن ان میں کے بعض بزرگ فرمایا کرتے تھے کہ اس آیت کا نازل نہ ہونا ہم کو پسند نہ تھا کیونکہ " وَاللّٰہُ وَلِیُّھُمَا " کی بشارت عتاب سے بڑھ کر ہے۔
Top