Tafseer-e-Usmani - Aal-i-Imraan : 34
ذُرِّیَّةًۢ بَعْضُهَا مِنْۢ بَعْضٍ١ؕ وَ اللّٰهُ سَمِیْعٌ عَلِیْمٌۚ
ذُرِّيَّةً : اولاد بَعْضُهَا : وہ ایک مِنْ : سے بَعْضٍ : دوسرے وَاللّٰهُ : اور اللہ سَمِيْعٌ : سننے والا عَلِيْمٌ : جاننے والا
جو اولاد تھے ایک دوسرے کی8 اور اللہ سننے والا جاننے والا ہے9
8  خدا کی مخلوقات میں زمین آسمان، چاند، سُورج، ستارے، فرشتے، جِن، شجر، حجر سب ہی شامل تھے۔ مگر اس نے اپنے علم محیط اور حکمت بالغہ سے ملکات روحانیہ اور کمالات جسمانیہ کا جو مجموعہ ابو البشر آدم (علیہ السلام) میں ودیعت کیا وہ مخلوقات میں سے کسی کو نہ دیا۔ بلکہ آدم کو مسجود ملائکہ بنا کر ظاہر فرما دیا کہ آدم کا اعزازو اکرام اسکی بارگاہ میں ہر مخلوق سے زیادہ ہے۔ آدم کا یہ انتخابی اور اصطفائی فضل و شرف جسے ہم " نبوت " سے تعبیر کرتے ہیں کچھ ان کی شخصیت پر محدود و مقصود نہ تھا، بلکہ منتقل ہو کر ان کی اولاد میں نوح (علیہ السلام) کو ملا، پھر منتقل ہوتا ہوا نوح (علیہ السلام) کی اولاد حضرت ابراہیم (علیہ السلام) تک پہنچا۔ یہاں سے ایک نئی صورت پیدا ہوگئی۔ آدم و نوح کے بعد جتنے انسان دنیا میں آباد رہے تھے وہ سب ان دونوں کی نسل سے تھے۔ کوئی خاندان ان دونوں کی ذرّیت سے باہر نہ تھا۔ برخلاف اس کے ابراہیم (علیہ السلام) کے بعد ان کی نسل کے علاوہ دنیا میں دوسرے بہت خاندان موجود رہے لیکن جس خدا نے اپنی بیشمار مخلوقات میں سے منصب نبوت کے لئے آدم کا انتخاب کیا تھا اسی کے علم محیط اور اختیار کامل نے آئندہ کے لئے ہزاروں گھرانوں میں سے اس منصب جلیل کے واسطے ابراہیم (علیہ السلام) کے گھرانے کو مخصوص فرما دیا۔ جس قدر انبیاء و رسل ابراہیم (علیہ السلام) کے بعد آئے ان ہی کے دو صاحبزادوں اسحاق و اسماعیل کی نسل سے آئے۔ چونکہ عموما نسب کا سلسلہ باپ کی طرف سے چلتا ہے اور حضرت مسیح (علیہ السلام) بن باپ کے پیدا ہوئے تھے اس لحاظ سے وہم ہوسکتا تھا کہ ان کو نسل ابراہیمی سے مستثنیٰ کرنا پڑے گا۔ اس لئے حق تعالیٰ نے " آل عمران " اور ذریۃ بعضھا من بعض فرما کر متنبہ کردیا کہ حضرت مسیح جب صرف ماں سے پیدا ہوئے تو ان کا سلسلہ نسب بھی ماں ہی کی طرف سے لیا جائے گا نہ کہ معاذ اللہ خدا کی طرف سے۔ اور ظاہر ہے کہ ان کی والدہ مریم صدیقہ کے باپ عمران کا سلسلہ آخر حضرت ابراہیم (علیہ السلام) پر منتہی ہوتا ہے تو آل عمران، آل ابراہیم کی ایک شاخ ہوئی اور کوئی پیغمبر خاندان ابراہیمی سے باہر نہ ہوا۔ 6 سب کی دعاؤں اور باتوں کو سنتا اور سب کے ظاہری و باطنی احوال و استعداد کو جانتا ہے۔ لہذا یہ وہم نہ کرنا چاہیے کہ یوں ہی کیف ما اتفق انتخاب کرلیا ہوگا وہاں کا ہر کام پورے علم و حکمت پر مبنی ہے۔
Top