Tafseer-e-Usmani - Al-Ahzaab : 9
یٰۤاَیُّهَا الَّذِیْنَ اٰمَنُوا اذْكُرُوْا نِعْمَةَ اللّٰهِ عَلَیْكُمْ اِذْ جَآءَتْكُمْ جُنُوْدٌ فَاَرْسَلْنَا عَلَیْهِمْ رِیْحًا وَّ جُنُوْدًا لَّمْ تَرَوْهَا١ؕ وَ كَانَ اللّٰهُ بِمَا تَعْمَلُوْنَ بَصِیْرًاۚ
يٰٓاَيُّهَا : اے الَّذِيْنَ اٰمَنُوا : ایمان والو اذْكُرُوْا : یاد کرو نِعْمَةَ اللّٰهِ : اللہ کی نعمت عَلَيْكُمْ : اپنے اوپر اِذْ جَآءَتْكُمْ : جب تم پر (چڑھ) آئے جُنُوْدٌ : لشکر (جمع) فَاَرْسَلْنَا : ہم نے بھیجی عَلَيْهِمْ : ان پر رِيْحًا : آندھی وَّجُنُوْدًا : اور لشکر لَّمْ تَرَوْهَا ۭ : تم نے انہیں نہ دیکھا وَكَانَ : اور ہے اللّٰهُ : اللہ بِمَا : اسے جو تَعْمَلُوْنَ : تم کرتے ہو بَصِيْرًا : دیکھنے والا
اے ایمان والو یاد کرو احسان اللہ کا اپنے اوپر جب چڑھ آئیں تم پر فوجیں پھر ہم نے بھیج دی ان پر ہوا اور وہ فوجیں جو تم نے نہیں دیکھیں3 اور ہے اللہ جو کچھ کرتے ہو دیکھنے والاف 4
3 یعنی فرشتوں کی فوجیں جو کفار کے دلوں میں رعب ڈال رہی تھیں۔ 4 ہجرت کے چوتھے پانچویں سال یہود بنی نضیر جو مدینہ سے نکالے گئے تھے (اس کا ذکر سورة " حشر " میں آئے گا) ہر قوم میں پھرے۔ اور ابھار اکسا کر قریش مکہ، بنی فزارہ اور غطفان وغیرہ قبائل عرب کی متحدہ طاقت کو مدینہ پر چڑھا لانے میں کامیاب ہوگئے۔ تقریباً بارہ ہزار کا لشکر جرار پورے سازو سامان سے آراستہ اور طاقت کے نشہ میں چور تھا، یہود " بنی قریظہ " جن کا ایک مضبوط قلعہ مدینہ کی شرقی جانب تھا پہلے سے مسلمانوں کے ساتھ معاہدہ کئے ہوئے تھے۔ نضیری یہود کی ترغیب و ترہیب سے آخرکار وہ بھی معاہدات کو بالائے طاق رکھ کر حملہ آوروں کی مدد کے لئے کھڑے ہوگئے۔ مسلمانوں کی جمعیت کل تین ہزار تھی۔ جن میں ایک بڑی تعداد ان دغاباز منافقوں کی تھی جو سختی کا وقت آنے پر جھوٹے حیلے بہانے کر کے میدان جنگ سے کھسکنے لگے۔ نبی کریم ﷺ نے صحابہ سے مشورہ فرمایا۔ آخر حضرت سلمان فارسی کے مشورہ سے شہر کے گرد جدھر سے حملہ کا اندیشہ تھا خندق کھودی گئی۔ سخت جاڑے کا موسم تھا غلہ کی گرانی تھی بھوک کی وجہ سے صحابہ ؓ اور خود سرور عالم ﷺ کے پیٹ پر پتھر بندھے ہوئے تھے۔ مگر عشق الٰہی کے نشہ میں سرشار سپاہی اور ان کے سالار اعظم اس سنگلاخ زمین کی کھدائی میں حیرت انگیز قوت اور ہمت مردانہ کے ساتھ مشغول تھے۔ مجاہدین پتھریلی زمین پر کدال مارتے، اور کہتے " نحن الذین با یعوا محمدا علی الجھاد ما بقینا ابدا۔ " ادھر سرکار محمدی سے جواب ملتا۔ " اللھم لا عیش الاعیش الاخیرۃ فاغفر للانصار والمھاجرۃ " خندق تیار ہوگئی تو اسلامی لشکر نے دشمن کے مقابل مورچے جما دیے۔ تقریباً بیس پچیس روز تک دونوں فوجیں آمنے سامنے پڑی رہیں۔ درمیان میں خندق حائل تھی۔ باوجود کثرت تعداد کے کفار سے بن نہ پڑا کہ شہر پر عام حملہ کردیتے۔ البتہ دور سے تیر اندازی ہوتی رہی اور گاہ بگاہ فریقین کے خاص خاص افراد میدان مبارزت میں بھی دو دو ہاتھ دکھانے لگتے تھے۔ مشرکین اور یہود بنی قریظہ کے درمیان مسلمانوں کی جمعیت محصورین کی حیثیت رکتی تھی تاہم انہوں نے سب عورتوں بچوں کو شہر کی مضبوط و محفوظ حویلیوں میں پہنچا کر خود بڑی پا مردی اور استقامت کے ساتھ شہر کی حفاظت و مدافعت کا فرض انجام دیا۔ آخرکار نعیم ابن مسعود الاشجعی کی ایک عاقلانہ اور لطیف تدبیر سے مشرکین اور یہود بنی قریظہ میں پھوٹ پڑگئی، ادھر کفار کے دلوں کو اللہ تعالیٰ کا غیر مرئی لشکر مرعوب کر رہا تھا۔ اسی اثناء میں اللہ تعالیٰ نے ایک رات سخت خوفناک جھکڑ ہوا کا چلا دیا۔ پروا ہوا سے ریت اور سنگریزے اڑ کر کفار کے منہ پر لگتے تھے۔ ان کے چولھے بجھ گئے، دیگچے زمین پر جا پڑے، کھانے پکانے کی کوئی صورت نہ تھی۔ ہوا کے زور سے خیمے اکھڑ گئے گھوڑے چھوٹ کر بھاگ گئے لشکر پریشان ہوگیا، سردی اور اندھیری ناقابل برداشت بن گئی۔ آخر ابو سفیان نے جن کے ہاتھ میں تمام لشکروں کی اعلیٰ کمان تھی طبل رحیل بجا دیا۔ ناچار سب اٹھ کر بےنیل و مرام واپس چل دیے۔ (وَكَفَى اللّٰهُ الْمُؤْمِنِيْنَ الْقِتَالَ ۭ وَكَان اللّٰهُ قَوِيًّا عَزِيْزًا) 33 ۔ الاحزاب :25) یہ جنگ " احزاب " کہلاتی ہے اور اسے " جنگ خندق " بھی کہتے ہیں۔ سخت جاڑے کے موسم اور فاقہ کشی کی حالت میں خندق کھودنا اور اتنے دشمنوں کے بیچ میں گھر کر لڑائی لڑنا یہ وہ حالات تھے جن میں منافق دل کی باتیں بولنے لگے اور مومن ثابت قدم رہے۔ اسی جنگ میں حضور ﷺ نے فرمایا کہ اب آئندہ ہم کفار پر چڑھائی کریں گے وہ ہم پر چڑھ کر نہ آسکیں گے۔ چناچہ یہی ہوا۔
Top