Tafseer-e-Usmani - Az-Zukhruf : 35
وَ زُخْرُفًا١ؕ وَ اِنْ كُلُّ ذٰلِكَ لَمَّا مَتَاعُ الْحَیٰوةِ الدُّنْیَا١ؕ وَ الْاٰخِرَةُ عِنْدَ رَبِّكَ لِلْمُتَّقِیْنَ۠   ۧ
وَزُخْرُفًا : اور سونے کے وَاِنْ كُلُّ : اور بیشک سب ذٰلِكَ : سامان ہے لَمَّا : اگرچہ مَتَاعُ : سامان ہے الْحَيٰوةِ الدُّنْيَا : دنیا کی زندگی کا وَالْاٰخِرَةُ : اور آخرت عِنْدَ رَبِّكَ : تیرے رب کے ہاں لِلْمُتَّقِيْنَ : متقی لوگوں کے لیے ہے
اور سونے کے9 اور یہ سب کچھ نہیں ہے مگر برتنا دنیا کی زندگانی کا اور آخرت تیرے رب کے یہاں انہی کے لیے ہے جو ڈرتے ہیں1
9  یعنی اللہ کے ہاں دنیاوی مال و دولت کی کوئی قدر نہیں نہ اس کا دیا جانا کچھ قرب و وجاہت عند اللہ کی دلیل ہے۔ یہ تو ایسی بےقدر اور حقیر چیز ہے کہ اگر ایک خاص مصلحت مانع نہ ہوتی تو اللہ تعالیٰ کافروں کے مکانوں کی چھتیں، زینے، دروازے، چوکھٹ، قفل اور تخت چوکیاں سب چاندی اور سونے کی بنا دیتا۔ مگر اس صورت میں لوگ یہ دیکھ کر کافروں ہی کو ایسا سامان ملتا ہے۔ عموماً کفر کا راستہ اختیار کرلیتے (الا ماشآء اللہ) اور یہ چیز مصلحت خداوندی کے خلاف ہوتی۔ اس لیے ایسا نہیں کیا گیا۔ حدیث میں ہے کہ اگر اللہ کے نزدیک دنیا کی قدر ایک مچھر کے بازو کے برابر ہوتی تو کافر کو ایک گھونٹ پانی کا نہ دیتا۔ بھلا جو چیز خدا کے نزدیک اس قدر حقیر ہو اسے سیادت و وجاہت عند اللہ اور نبوت و رسالت کا معیار قرار دینا کہاں تک صحیح ہوگا۔ حضرت شاہ صاحب لکھتے ہیں " یعنی کافر کو اللہ نے پیدا کیا، تو اس کو آرام دے، آخرت میں تو دائمی عذاب ہے۔ کہیں تو آرام ملتا۔ مگر ایسا ہو تو سب وہ ہی کفر کا راستہ پکڑ لیں۔ "1  یعنی دنیا کی بہار میں تو سب شریک ہیں مگر آخرت مع اپنی ابدی نعماء و آلاء کے متقین کے لیے مخصوص ہے۔
Top