Tafseer-e-Usmani - Al-Hashr : 7
مَاۤ اَفَآءَ اللّٰهُ عَلٰى رَسُوْلِهٖ مِنْ اَهْلِ الْقُرٰى فَلِلّٰهِ وَ لِلرَّسُوْلِ وَ لِذِی الْقُرْبٰى وَ الْیَتٰمٰى وَ الْمَسٰكِیْنِ وَ ابْنِ السَّبِیْلِ١ۙ كَیْ لَا یَكُوْنَ دُوْلَةًۢ بَیْنَ الْاَغْنِیَآءِ مِنْكُمْ١ؕ وَ مَاۤ اٰتٰىكُمُ الرَّسُوْلُ فَخُذُوْهُ١ۗ وَ مَا نَهٰىكُمْ عَنْهُ فَانْتَهُوْا١ۚ وَ اتَّقُوا اللّٰهَ١ؕ اِنَّ اللّٰهَ شَدِیْدُ الْعِقَابِۘ
مَآ اَفَآءَ اللّٰهُ : جو دلوادے اللہ عَلٰي رَسُوْلِهٖ : اپنے رسول کو مِنْ : سے اَهْلِ الْقُرٰى : بستی والوں فَلِلّٰهِ : تو اللہ کے لئے وَ للرَّسُوْلِ : اور رسول کے لئے وَ لِذِي الْقُرْبٰى : اور قرابت داروں کیلئے وَالْيَتٰمٰى : اور یتیموں وَالْمَسٰكِيْنِ : اور مسکینوں وَابْنِ السَّبِيْلِ ۙ : اور مسافروں كَيْ لَا يَكُوْنَ : تاکہ نہ رہے دُوْلَةًۢ : ہاتھوں ہاتھ لینا (گردش) بَيْنَ : درمیان الْاَغْنِيَآءِ : مال داروں مِنْكُمْ ۭ : تم میں سے تمہارے وَمَآ اٰتٰىكُمُ : اور جو تمہیں عطا فرمائے الرَّسُوْلُ : رسول فَخُذُوْهُ ۤ : تو وہ لے لو وَمَا نَهٰىكُمْ : اور جس سے تمہیں منع کرے عَنْهُ فَانْتَهُوْا ۚ : اس سے تم باز رہو وَاتَّقُوا اللّٰهَ ۭ : اور تم ڈرو اللہ سے اِنَّ اللّٰهَ : بیشک اللہ شَدِيْدُ : سخت الْعِقَابِ : سزادینے والا
جو مال لوٹایا اللہ نے اپنے رسول پر بستیوں والوں سے سو اللہ کے واسطے اور رسول کے9 اور قرابت والے کو10 اور یتیموں کے اور محتاجوں کے اور مسافر کے تاکہ نہ آئے لینے دینے میں دولت مندوں کے تم میں سے11 اور جو دے تم کو رسول سو لے لو اور جس سے منع کرے سو چھوڑ دو12 اور ڈرتے رہو اللہ سے بیشک اللہ کا عذاب سخت ہے1
9  پہلی آیت میں صرف اموال " بنی نضیر " کا ذکر تھا۔ اب اموال " فئے " کے متعلق عام ضابطہ بتلاتے ہیں۔ یعنی " فئے " پر قبضہ رسول کا اور رسول کے بعد امام کا اسی پر یہ خرچ پڑتے ہیں۔ باقی اللہ کا ذکر تبرکاً ہوا۔ وہ تو سب ہی کا مالک ہے۔ وہاں کعبہ کا خرچ اور مسجدوں کا بھی جو اللہ کے نامزد ہیں ممکن ہے اس میں درج ہو۔ 10 یعنی حضرت کے قرابت والوں کے۔ چناچہ حضور ﷺ اپنے زمانہ میں اس مال میں سے ان کو بھی دیتے تھے۔ اور ان میں فقیر کی بھی قید نہیں تھی۔ اپنے چچا حضرت عباس ؓ کو جو دولت مند تھے آپ ﷺ نے حصہ عطا فرمایا۔ اب آپ ﷺ کے بعد حنفیہ کہتے ہیں کہ حضور ﷺ کے قرابتدار جو صاحب حاجت ہوں امام کو چاہیے کہ انہیں دوسرے محتاجوں سے مقدم رکھے۔ 11 یعنی یہ مصارف اس لیے بتلائے کہ ہمیشہ یتیموں، محتاجوں، بیکسوں اور عام مسلمانوں کی خبر گیری ہوتی رہے اور عام اسلامی ضروریات سرا نجام پاسکیں۔ یہ اموال محض دولت مندوں کے الٹ پھیر میں پڑ کر ان کی مخصوص جاگیر بن کر نہ رہ جائیں جن سے سرمایہ دار مزے لوٹیں اور غریب فاقوں پر مریں۔ 12  یعنی مال و جائداد وغیرہ جس طرح پیغمبر اللہ کے حکم سے تقسیم کرے اسے بخوشی ورغبت قبول کرو، جو ملے لے لو، جس سے روکا جائے رک جاؤ اور اسی طرح اس کے تمام احکام اور اوامرو نواہی کی پابندی رکھو۔ 1 یعنی رسول ﷺ کی نافرمانی اللہ کی نافرمانی ہے۔ ڈرتے رہو کہیں رسول ﷺ کی نافرمانی کی صورت میں اللہ تعالیٰ کوئی سخت عذاب مسلط نہ کر دے۔
Top