Tafseer-e-Usmani - Al-A'raaf : 131
فَاِذَا جَآءَتْهُمُ الْحَسَنَةُ قَالُوْا لَنَا هٰذِهٖ١ۚ وَ اِنْ تُصِبْهُمْ سَیِّئَةٌ یَّطَّیَّرُوْا بِمُوْسٰى وَ مَنْ مَّعَهٗ١ؕ اَلَاۤ اِنَّمَا طٰٓئِرُهُمْ عِنْدَ اللّٰهِ وَ لٰكِنَّ اَكْثَرَهُمْ لَا یَعْلَمُوْنَ
فَاِذَا : پھر جب جَآءَتْهُمُ : آئی ان کے پاس الْحَسَنَةُ : بھلائی قَالُوْا : وہ کہنے لگے لَنَا : ہمارے لیے هٰذِهٖ : یہ وَاِنْ : اور اگر تُصِبْهُمْ : پہنچتی سَيِّئَةٌ : کوئی برائی يَّطَّيَّرُوْا : بدشگونی لیتے بِمُوْسٰي : موسیٰ سے وَمَنْ مَّعَهٗ : اور جو ان کے ساتھ (ساتھی) اَلَآ : یاد رکھو اِنَّمَا : اس کے سوا نہیں طٰٓئِرُهُمْ : ان کی بدنصیبی عِنْدَ : پاس اللّٰهِ : اللہ وَلٰكِنَّ : اور لیکن اَكْثَرَهُمْ : ان کے اکثر لَا يَعْلَمُوْنَ : نہیں جانتے
پھر جب پہنچی ان کو بھلائی کہنے لگے یہ ہے ہمارے لائق اور اگر پہنچی برائی تو نحوست بتلاتے موسیٰ کی اور اس کے ساتھ والوں کی سن لو ان کی شومی تو اللہ کے پاس ہے پر اکثر لوگ نہیں جانتے1
1 گزشتہ آیت میں فرمایا تھا " قریب ہے کہ خدا تمہارے دشمن کو ہلاک کر دے۔ " یہاں سے اسی ہلاک موعود کے بعض مبادی کی تفصیل شروع کی گئی ہے۔ یعنی اسی سنت اللہ کے موافق جس کا بیان اسی پارہ کے شروع میں آیت ( وَمَآ اَرْسَلْنَا فِيْ قَرْيَةٍ مِّنْ نَّبِيٍّ اِلَّآ اَخَذْنَآ اَهْلَهَا بالْبَاْسَاۗءِ وَالضَّرَّاۗءِ لَعَلَّهُمْ يَضَّرَّعُوْنَ ) 7 ۔ الاعراف :94) کے تحت میں گزر چکا، خدا تعالیٰ نے فرعونیوں کو ابتدائی تنبیہ کے طور پر قحط، خشک سالی وغیرہ معمولی تکالیف اور سختیوں میں مبتلا کیا تاکہ وہ خواب غفلت سے چونکیں اور موسیٰ (علیہ السلام) کی پیغمبرانہ نصیحتوں کو قبول کرلیں۔ مگر وہ ایسے کا ہے کو تھے، انہوں نے ان تنبیہات کی کچھ پروا نہ کی بلکہ پہلے سے زیادہ ڈھیٹ اور گستاخ ہوگئے۔ چناچہ (ثُمَّ بَدَّلْنَا مَكَان السَّيِّئَةِ الْحَسَنَةَ ) 7 ۔ الاعراف :95) کے قاعدہ سے جب قحط وغیرہ دور ہو کر ارزانی اور خوشحالی حاصل ہوتی تو کہنے لگتے کہ دیکھو ہماری خوش طالعی اوراقبال مندی کے لائق تو یہ حالات ہیں پھر اگر درمیان میں کبھی کسی ناخوشگوار اور بری حالت سے دوچار ہونا پڑجاتا تو کہتے کہ یہ سب (معاذ اللہ) موسیٰ اور اس کے رفقاء کی شومیٔ تقید اور نحوست ہے۔ حق تعالیٰ نے اسی کا جواب دیا اَلَآ اِنَّمَا طَآئِرُھمْ عِنْدَاللّٰہِ الخ یعنی اپنی بدبختی اور نحوست کو مقبول بندوں کی طرف کیوں نسبت کرتے ہو۔ تمہاری اس نحوست کا واقعی سبب تو خدا کے علم میں ہے۔ اور وہ تمہارا ظلم وعدوان اور بغاوت و شرارت ہے۔ اسی سبب کی بناء پر خدا کے یہاں سے کچھ حصہ نحوست کا وقتی سزا اور تنبیہ کے طور پر تم کو پہنچ رہا ہے۔ باقی رہی تمہارے ظلم و کفر کی اصلی شومیٔ و نحوست یعنی پوری پوری سزا تو وہ ابھی اللہ کے پاس محفوظ ہے جو دنیا میں یا آخرت میں اپنے وقت پر تم کو پہنچ کر رہے گی۔ جس کی ابھی اکثر لوگوں کو خبر نہیں۔
Top