Tafseer-e-Usmani - Al-Anfaal : 11
اِذْ یُغَشِّیْكُمُ النُّعَاسَ اَمَنَةً مِّنْهُ وَ یُنَزِّلُ عَلَیْكُمْ مِّنَ السَّمَآءِ مَآءً لِّیُطَهِّرَكُمْ بِهٖ وَ یُذْهِبَ عَنْكُمْ رِجْزَ الشَّیْطٰنِ وَ لِیَرْبِطَ عَلٰى قُلُوْبِكُمْ وَ یُثَبِّتَ بِهِ الْاَقْدَامَؕ
اِذْ : جب يُغَشِّيْكُمُ : تمہیں ڈھانپ لیا (طاری کردی) النُّعَاسَ : اونگھ اَمَنَةً : تسکین مِّنْهُ : اس سے وَيُنَزِّلُ : اور اتارا اس نے عَلَيْكُمْ : تم پر مِّنَ : سے السَّمَآءِ : آسمان مَآءً : پانی لِّيُطَهِّرَكُمْ : تاکہ پاک کردے تمہیں بِهٖ : اس سے وَيُذْهِبَ : اور دور کردے عَنْكُمْ : تم سے رِجْزَ : پلیدی (ناپاکی) الشَّيْطٰنِ : شیطان وَلِيَرْبِطَ : اور تاکہ باندھ دے (مضبوط کردے) عَلٰي : پر قُلُوْبِكُمْ : تمارے دل وَيُثَبِّتَ : اور جمادے بِهِ : اس سے الْاَقْدَامَ : قدم
جس وقت کہ ڈال دی اس نے تم پر اونگھ اپنی طرف سے تسکین کے واسطے اور اتارا تم پر آسمان سے پانی کہ اس سے تم کو پاک کر دے اور دور کردے تم سے شیطان کی نجات اور مضبوط کردے تمہارے دلوں کو اور جمادے اس سے تمہارے قدم2
2 " بدر کا معرکہ فی الحقیقت مسلمانوں کے لیے بہت ہی سخت آزمائش اور عظیم الشان امتحان کا موقع تھا۔ وہ تعداد میں تھوڑے تھے، بےسروسامان تھے، فوجی مقابلہ کے لیے تیار ہو کر نہ نکلے تھے، مقابلہ پر ان سے تگنی تعداد کا لشکر تھا۔ جو پورے سازو سامان سے کبرو غرور کے نشہ میں سرشار ہو کر نکلا تھا، مسلمانوں اور کافروں کی یہ پہلی ہی قابل ذکر ٹکر تھی، پھر صورت ایسی پیش آئی کہ کفار نے پہلے سے اچھی جگہ اور پانی وغیرہ پر قبضہ کرلیا مسلمان نشیب میں تھے، ریت بہت زیادہ تھی جس میں چلتے ہوئے پاؤں دھنستے تھے، گردو غبار نے الگ پریشان کر رکھا تھا۔ پانی نہ ملنے سے ایک طرف غسل و وضوء کی تکلیف، دوسری طرف تشنگی ستا رہی تھی۔ یہ چیزیں دیکھ کر مسلمان ڈرے کہ بظاہر آثار شکست کے ہیں۔ شیطان نے دلوں میں وسوسہ ڈالا کہ اگر واقعی تم خدا کے مقبول بندے ہوتے تو ضرور تائید ایزدی تمہاری طرف ہوتی اور ایسی پریشان کن اور یاس انگیز صورت حال پیش نہ آتی۔ اس وقت حق تعالیٰ نے قدرت کاملہ سے زور کا مینہ برسایا جس سے میدان کی ریت جم گئی، غسل و وضوء کرنے اور پینے کے لیے پانی کی افراط ہوگئی، گرد و غبار سے نجات ملی۔ کفار کا لشکر جس جگہ تھا وہاں کیچڑ اور پھسلن سے چلنا پھرنا دشوار ہوگیا۔ جب یہ ظاہری پریشانیاں دور ہوئیں تو حق تعالیٰ نے مسلمانوں پر ایک قسم کی غنودگی طاری کردی۔ آنکھ کھلی تو دلوں سے سارا خوف و ہراس جاتا رہا۔ بعض روایات میں ہے کہ حضور ﷺ اور ابوبکر صدیق رات بھر " عریش " میں مشغول دعا رہے۔ اخیر میں حضور ﷺ پر خفیف سی غنودگی طاری ہوئی، جب اس سے چونکے تو فرمایا خوش ہوجاؤ کہ جبرائیل تمہاری مدد کو آ رہے ہیں۔ عریش سے باہر تشریف لائے تو (سَيُهْزَمُ الْجَمْعُ وَيُوَلُّوْنَ الدُّبُرَ ) 54 ۔ القمر :45) زبان مبارک پر جاری تھا۔ بہرحال اس باران رحمت نے بدن کو احداث سے اور دلوں کو شیطان کے وساوس سے پاک کردیا۔ ادھر ریت کے جم جانے سے ظاہری طور پر قدم جم گئے اور اندر سے ڈر نکل کر دل مضبوط ہوگئے۔
Top