Tafseer-e-Usmani - At-Tawba : 40
اِلَّا تَنْصُرُوْهُ فَقَدْ نَصَرَهُ اللّٰهُ اِذْ اَخْرَجَهُ الَّذِیْنَ كَفَرُوْا ثَانِیَ اثْنَیْنِ اِذْ هُمَا فِی الْغَارِ اِذْ یَقُوْلُ لِصَاحِبِهٖ لَا تَحْزَنْ اِنَّ اللّٰهَ مَعَنَا١ۚ فَاَنْزَلَ اللّٰهُ سَكِیْنَتَهٗ عَلَیْهِ وَ اَیَّدَهٗ بِجُنُوْدٍ لَّمْ تَرَوْهَا وَ جَعَلَ كَلِمَةَ الَّذِیْنَ كَفَرُوا السُّفْلٰى١ؕ وَ كَلِمَةُ اللّٰهِ هِیَ الْعُلْیَا١ؕ وَ اللّٰهُ عَزِیْزٌ حَكِیْمٌ
اِلَّا تَنْصُرُوْهُ : اگر تم مدد نہ کرو گے اس کی فَقَدْ نَصَرَهُ : تو البتہ اس کی مدد کی ہے اللّٰهُ : اللہ اِذْ : جب اَخْرَجَهُ : اس کو نکالا الَّذِيْنَ : وہ لوگ كَفَرُوْا : جو کافر ہوئے (کافر) ثَانِيَ : دوسرا اثْنَيْنِ : دو میں اِذْ هُمَا : جب وہ دونوں فِي : میں الْغَارِ : غار اِذْ : جب يَقُوْلُ : وہ کہتے تھے لِصَاحِبِهٖ : اپنے س ا تھی سے لَا تَحْزَنْ : گھبراؤ نہیں اِنَُّ : یقیناً اللّٰهَ : اللہ مَعَنَا : ہمارے ساتھ فَاَنْزَلَ : تو نازل کی اللّٰهُ : اللہ سَكِيْنَتَهٗ : اپنی تسکین عَلَيْهِ : اس پر وَاَيَّدَهٗ : اس کی مدد کی بِجُنُوْدٍ : ایسے لشکروں سے لَّمْ تَرَوْهَا : جو تم نے نہیں دیکھے وَجَعَلَ : اور کردی كَلِمَةَ : بات الَّذِيْنَ : وہ لوگ جو كَفَرُوا : انہوں نے کفر کیا (کافر) السُّفْلٰى : پست (نیچی) وَكَلِمَةُ اللّٰهِ : اللہ کا کلمہ (بول) ھِىَ : وہ الْعُلْيَا : بالا وَاللّٰهُ : اور اللہ عَزِيْزٌ : غالب حَكِيْمٌ : حکمت والا
اگر تم نہ مدد کرو گے رسول کی تو اس کی مدد کی ہے اللہ نے جس وقت اس کو نکالا تھا کافروں نے کہ وہ دوسرا تھا دو میں کا جب وہ دونوں تھے غار میں جب وہ کہہ رہا تھا اپنے رفیق سے تو غم نہ کھا بیشک اللہ ہمارے ساتھ ہے پھر اللہ نے اتاری اپنی طرف سے اس پر تسکین اور اس کی مدد کو وہ فوجیں بھیجیں کہ تم نے نہیں دیکھیں اور نیچے ڈالی بات کافروں کی اور اللہ کی بات ہمیشہ اوپر ہے اور اللہ زبردست ہے حکمت والاف 1
1 یعنی بالفرض اگر تم نبی کریم ﷺ کی مدد نہ کرو گے نہ سہی۔ ان کا منصورو کامیاب ہونا کچھ تم پر موقوف نہیں، ایک وقت پہلے ایسا آچکا ہے جب ایک یار غار کے سوا کوئی آپ کے ساتھ نہ تھا۔ معدودے چند مسلمان مکہ والوں کے مظالم سے تنگ آکر ہجرت کر گئے تھے اور آپ ﷺ کو بھی ہجرت کا حکم ہوا مشرکین کا آخری مشورہ یہ قرار پایا تھا کہ ہر قبیلہ کا ایک ایک نوجوان منتخب ہو اور وہ سب مل کر بیک وقت آپ ﷺ پر تلواروں کی ضرب لگائیں تاکہ خون بہا دینا پڑے تو سب قبائل پر تقسیم ہوجائے اور بنی ہاشم کی یہ ہمت نہ ہو کہ خون کے انتقام میں سارے عرب سے لڑائی مول لیں۔ جس شب میں اس ناپاک کاروائی کو عملی جامہ پہنچانے کی تجویز تھی، حضور ﷺ نے اپنے بستر پر حضرت علی کو لٹایا، تاکہ لوگوں کی امانتیں احتیاط سے آپ ﷺ کے بعد مالکوں کے حوالہ کردیں اور حضرت علی کی تسلی فرمائی کہ تمہارا بال بیکا نہ ہوگا پھر خود بہ نفس نفیس ظالموں کے ہجوم میں سے " شاہت الوجوہ " فرماتے ہوئے اور ان آنکھوں میں خاک جھونکتے ہوئے صاف نکل آئے۔ حضرت ابوبکر صدیق کو ساتھ لیا اور مکہ سے چند میل ہٹ کر غار ثور میں قیام فرمایا۔ یہ غار پہاڑ کی بلندی پر ایک بھاری مجوف چٹان ہے۔ جس میں داخل ہونے کا صرف ایک راستہ تھا وہ بھی ایسا تنگ کہ انسان کھڑے ہو کر یا بیٹھ کر اس میں گھس نہیں سکتا۔ صرف لیٹ کر داخل ہونا ممکن تھا۔ اول حضرت ابوبکر نے اندر جا کر اسے صاف کیا۔ سب سوراخ کپڑے سے بند کیے۔ کہ کوئی کیڑا کانٹا گزند نہ پہنچا سکے۔ ایک سوراخ باقی تھا، اس میں اپنا پاؤں اڑا دیا۔ سب انتظام کر کے حضور ﷺ سے اندر تشریف لانے کو کہا۔ آپ ﷺ صدیق کے زانو پر سر مبارک رکھ کر استراحت فرما رہے تھے کہ سانپ نے ابوبکر کا پاؤں ڈس لیا۔ پاؤں کو حرکت نہ دیتے تھے مبادا حضور ﷺ کی استراحت میں خلل پڑے۔ جب آپ ﷺ کی آنکھ کھلی اور قصہ معلوم ہوا تو آپ ﷺ نے لعاب مبارک صدیق کے پاؤں کو لگا دیا جس سے فوراً شفا ہوگئی، ادھر کفار " قائف " کو ہمراہ لے کر جو نشان ہائے قدم کی شناخت میں ماہر تھا۔ حضور ﷺ کی تلاش میں نکلے۔ اس نے غار ثور تک نشان قدم کی شناخت کی، مگر خدا کی قدرت کہ غار کے دروازہ پر مکڑی نے جالا تن لیا اور جنگلی کبوتر نے انڈے دے دیئے۔ یہ دیکھ کر سب نے قائف کو جھٹلایا اور کہنے لگے کہ یہ مکڑی کا جالا تو محمد ﷺ کی ولادت سے بھی پہلے کا معلوم ہوتا ہے۔ اگر اندر کوئی داخل ہوتا تو یہ جالا اور انڈے کیسے صحیح وسالم رہ سکتے تھے۔ ابوبکر صدیق کو اندر سے کفار کے پاؤں نظر پڑے تھے۔ انہیں فکر تھی کہ جان سے زیادہ محبوب جس کے لیے سب کچھ فدا کرچکے ہیں دشمنوں کو نظر نہ پڑجائیں۔ گھبرا کر کہنے لگے یا رسول اللہ ! اگر ان لوگوں نے ذرا جھک کر اپنے قدموں کی طرف نظر کی تو ہم کو دیکھ پائیں گے، حضور ﷺ نے فرمایا کہ ابوبکر تیرا کیا خیال ہے ان دو کی نسبت جن کا تیسرا اللہ ہے، یعنی جب اللہ ہمارے ساتھ ہے تو پھر کس کا ڈر ہے۔ اس وقت حق تعالیٰ نے ایک خاص قسم کی کیفیت سکون و اطمینان حضور ﷺ کے قلب مبارک پر اور آپ ﷺ کی برکت سے ابوبکر کے قلب مقدس پر نازل فرمائی اور فرشتوں کی فوج سے حفاظت و تائید کی۔ یہ اسی تائید غیبی کا کرشمہ تھا کہ مکڑی کا جالا جسے " اوہن البیوت " بتلایا ہے، بڑے بڑے مضبوط و مستحکم قلعوں سے بڑھ کر ذریعہ تحفظ بن گیا۔ اسی طرح خدا نے کافروں کی بات نیچی کی اور ان کی تدابیر خاک میں ملا دیں۔ آپ ﷺ تین روز غار میں قیام فرما کر بعافیت تمام مدینہ پہنچ گئے۔ بیشک انجام کار خدا ہی کا بول بالا رہتا ہے۔ وہ ہر چیز پر غالب ہے اور اس کا کوئی کام حکمت سے خالی نہیں (تنبیہ) بعض نے وَاَیَّدَہ، بِجُنُودٍ لَّمْ تَرَوْہَا سے بدر وحنین وغیرہ میں جو نزول ملائکہ ہوا وہ مراد لیا ہے مگر ظاہر سیاق سے وہ ہی ہے جو ہم نے بیان کیا۔ واللہ اعلم۔
Top