Tafseer-e-Mazhari - An-Noor : 28
فَاِنْ لَّمْ تَجِدُوْا فِیْهَاۤ اَحَدًا فَلَا تَدْخُلُوْهَا حَتّٰى یُؤْذَنَ لَكُمْ١ۚ وَ اِنْ قِیْلَ لَكُمُ ارْجِعُوْا فَارْجِعُوْا هُوَ اَزْكٰى لَكُمْ١ؕ وَ اللّٰهُ بِمَا تَعْمَلُوْنَ عَلِیْمٌ
فَاِنْ : پھر اگر لَّمْ تَجِدُوْا : تم نہ پاؤ فِيْهَآ : اس میں اَحَدًا : کسی کو فَلَا تَدْخُلُوْهَا : تو تم نہ داخل ہو اس میں حَتّٰى : یہانتک کہ يُؤْذَنَ : اجازت دی جائے لَكُم : تمہیں وَاِنْ : اور اگر قِيْلَ لَكُمُ : تمہیں کہا جائے ارْجِعُوْا : تم لوٹ جاؤ فَارْجِعُوْا : تو تم لوٹ جایا کرو هُوَ : یہی اَزْكٰى : زیادہ پاکیزہ لَكُمْ : تمہارے لیے وَاللّٰهُ : اور اللہ بِمَا : وہ جو تَعْمَلُوْنَ : تم کرتے ہو عَلِيْمٌ : جاننے والا
اگر تم گھر میں کسی کو موجود نہ پاؤ تو جب تک تم کو اجازت نہ دی جائے اس میں مت داخل ہو۔ اور اگر یہ کہا جائے کہ (اس وقت) لوٹ جاؤ تو لوٹ جایا کرو۔ یہ تمہارے لئے بڑی پاکیزگی کی بات ہے۔ اور جو کام تم کرتے ہو خدا سب جانتا ہے
فان لم تجدوا فیہا احدا فلا تدخلوہا حتی یوذن لکم اگر تم مکانوں کے اندر کسی کو نہ پاؤ (کہ تم کو اجازت دے) تو جب تک اجازت نہ ملے اندر نہ جاؤ۔ یعنی جب تک گھر والا آکر تم کو اجازت نہ دے دے اندر نہ جاؤ۔ بات یہ ہے کہ بغیر اجازت اندر داخل ہوجانے کی ممانعت کی وجہ صرف یہی نہیں ہے کہ بغیر اجازت داخلے سے ننگار کھلا آدمی سامنے آجاتا ہے اور بےپردگی ہوجاتی ہے ‘ بلکہ ایک وجہ ممانعت کی یہ بھی ہے کہ اس سے بعض ان باتوں یا چیزوں کا اظہار ہوجاتا ہے جن کو آدمی لوگوں سے چھپانا چاہتا ہے پھر ممانعت کی ایک وجہ یہ بھی ہے کہ دوسرے کی چیز میں اس کی اجازت کے بغیر تصرف کرنا یوں بھی ممنوع ہے ہاں اس مکان میں بدون اجازت داخلہ کی ممانعت نہیں جس میں اچانک داخلہ کی کوئی معقول وجہ ہو مثلاً مکان میں آگ لگ گئی ہو یا ڈھے رہا ہو۔ یا اس میں کوئی ممنوع فعل ہو رہا ہو (مثلاً چوری ہو رہی ہو یا قتل ہو رہا ہو یا شراب فروخت ہو رہی ہو) ۔ وان قیل لکم ارجعوا فارجعوا ہو ازکی لکم اور اگر تم سے کہہ دیا جائے لوٹ جاؤ تو لوٹ آؤ (داخل ہونے پر اصرار نہ کرو) یہ ہی تمہارے لئے بہت پاکیزہ (عمل) ہے۔ یعنی دروازے پر کھڑا رہنے اور داخلے کے لئے اصرار کرنے سے بصورت انکار واپس چلا آنا تمہارے لئے پاکیزہ فعل ہے اڑنا اور داخلے کیلئے اصرار کرنا بری بات ہے اس میں شرف نفس کا ضیاع ہے۔ تین مرتبہ اجازت طلب کرنے کے بعد بھی اگر گھر والا اجازت نہ دے (اندر سے اجازت نہ ملے خاموشی رہے) تو اس کا حکم بھی انکار اور رجوع کی طرح ہے یعنی لوٹ آنا چاہئے۔ حضرت ابو سعید خدری ؓ : کا بیان ہے میرے پاس ابو موسیٰ اشعری آئے اور کہا ‘ مجھے حضرت عمر ؓ نے آدمی بھیج کر بلوایا (آدمی کہہ کر واپس چلا گیا) حسب الطلب میں حضرت عمر ؓ کے دروازے پر پہنچا اور تین بار (باہر سے) سلام کیا لیکن (اندر سے) حضرت عمر ؓ نے سلام کا جواب نہیں دیا۔ میں لوٹ آیا۔ (اب جو ملاقات ہوئی تو حضرت عمر ؓ نے مجھ سے جواب طلب کیا کہ تم کیوں نہیں آئے۔ میں نے جواب دیا ‘ میں تو آیا تھا اور تین مرتبہ سلام کرنے کے بعد بھی جب سلام کا جواب آپ کی طرف سے نہیں ملا تو لوٹ گیا۔ کیونکہ رسول اللہ ﷺ نے مجھ سے ارشاد فرمایا تھا ‘ اگر تم میں سے کوئی تین مرتبہ (داخلہ کی) اجازت طلب کرے اور اس کو اجازت نہ ملے تو اس کو لوٹ جانا چاہئے۔ حضرت عمر ؓ نے فرمایا اس ارشاد پر شہادت پیش کرو۔ (اگر آپ لوگوں میں سے کوئی اس فرمان کا شاہد ہو تو میرے ساتھ چل کر شہادت دے دے) ۔ حضرت ابو سعید ؓ نے فرمایا میں اٹھ کھڑا ہوا ‘ اور ان کے ساتھ جا کر حضرت عمر ؓ کے سامنے شہادت دے دی۔ متفق علیہ۔ حضرت ابو ایوب ؓ انصاری کی مرفوع روایت ہے کہ تسلیم (جس کا حکم آیت میں دیا گیا ہے) یہ ہے کہ تین مرتبہ کہے السلام علیکم ‘ کیا میں اندر آسکتا ہوں۔ اگر اجازت مل جائے تو اندر چلا جائے ورنہ لوٹ جائے۔ رواہ ابن ماجہ۔ بغوی نے لکھا ہے حدیث مذکور کو بشر بن سعید نے حضرت ابو سعید خدری کی روایت سے بھی بیان کیا ہے اس روایت کے بموجب حدیث کے یہ الفاظ ہیں اگر تم میں سے کوئی تین بار اجازت (داخلہ) طلب کرے اور اس کو اجازت نہ ملے تو لوٹ جائے۔ حسن نے کہا ‘ پہلی مرتبہ (اجازت طلبی اور سلام) اطلاع آمد ہے اور دوسری مرتبہ سلام و اجازت طلبی) ایک قسم کا مشورہ اور طلب امر ہے اور تیسری مرتبہ (الفاظ مذکور کہنا) واپسی کے لئے اجازت کی طلب ہے۔ حضرت انس راوی ہیں کہ (ایک مرتبہ) رسول اللہ ﷺ حضرت سعد بن عبادہ کے پاس (ملاقات کے لئے) تشریف لے گئے اور (باہر سے) داخلے کی اجازت طلب کی اور فرمایا السلام علیکم و رحمۃ اللہ ‘ حضرت سعد نے چپکے سے جواب دے دیا وعلیکم السلام ورحمۃ اللہ ‘ لیکن رسول اللہ ﷺ نے نہیں سنا ‘ یہاں تک کہ آپ ﷺ نے تین بار سلام علیک کی اور سعد نے ایسی آواز سے جواب دیا کہ حضور ﷺ نہ سن سکے۔ بالآخر آپ ﷺ لوٹ آئے۔ اب سعد پیچھے دوڑے اور عرض کیا یا رسول اللہ ﷺ ! میرے ماں باپ حضور ﷺ پر نثار آپ نے جتنی بار سلام علیک کی میں نے اپنے کانوں سے اس کو سنا اور جواب بھی برابر دیا ‘ لیکن اپنا جواب آپ کو نہیں سنایا (اتنی پست آواز سے جواب دیا کہ آپ نہ سن سکیں (مجھے دل سے خواہش تھی کہ آپ کی طرف سے سلامتی اور برکت زیادہ سے زیادہ مجھے مل جائے۔ (آپ برابر مجھے برکت و سلامتی کی دعا دیتے رہیں) اس کے بعد سب لوگ سعد کے گھر اندر داخل ہوئے۔ سعد نے کشمش پیش کی ‘ حضور ﷺ نے نوش فرمائی اور کھانے سے فارغ ہو کر فرمایا ‘ تمہارا کھانا نیک لوگوں نے کھایا اور ملائکہ نے تمہارے لئے نزول رحمت کی دعا کی اور روزہ داروں نے تمہارے پاس روزہ کھولا۔ رواہ البغوی فی شرح السنۃ۔ مسئلہ اگر کوئی کسی کے دروازے پر جائے اور اجازت داخلہ طلب نہ کرے بلکہ صاحب خانہ کے باہر نکلنے کے انتظار میں دروازے پر بیٹھ جائے تو جائز ہے۔ حضرت ابن عباس ؓ ایک انصاری کے دروازے پر طلب حدیث کیلئے جاتے اور انصاری کے برآمد ہونے کے انتظار میں بیٹھ جاتے۔ داخل ہونے کی اجازت طلب نہ کرتے۔ انصاری فرماتے ‘ اے رسول اللہ ﷺ کے چچا کے بیٹے آپ نے مجھے اطلاع دے دی ہوتی۔ حضرت ابن عباس ؓ فرماتے ہم کو اسی طرح طلب علم کا حکم دیا گیا ہے۔ میں کہتا ہوں ‘ اللہ نے فرمایا ہے وَلَوْ اَنَّہُمْ صَبَرُوْا حَتّٰی تَخْرُجَ اِلَیْہِمْ لَکَانَ خَیْرًا لَّہُمْیہ آیت بھی مضمون مذکور پر دلالت کر رہی ہے۔ مسئلہ اگر کوئی کسی کے دروازے پر جائے اور اجازت طلب کرے اور دروازے پر پردہ نہ ہو تو دروازہ کے سامنے منہ کر کے نہ کھڑا ہو اور نہ دروازے کی جھریوں سے اندر جھانکے۔ حضرت عبداللہ بن بسر کی روایت ہے کہ رسول اللہ ﷺ جب کسی کے دروازے پر جاتے تو دروازے کے بالکل سامنے منہ کر کے نہیں کھڑے ہوتے بلکہ دائیں یا بائیں بازو کے پاس کھڑے ہو کر فرماتے السلام علیکم ‘ السلام علیکم۔ اس کی وجہ یہ تھی کہ اس زمانے میں گھروں (کے دروازوں) پر پردے نہیں ہوتے تھے۔ رواہ ابو داؤد۔ حضرت سہل بن سعد ساعدی راوی ہیں کہ ایک بار ایک شخص نے حجرے کے پردے سے رسول اللہ ﷺ : کو اندر جھانک کر دیکھا ‘ اس وقت رسول اللہ ﷺ کے ہاتھ میں کوئی نوک دار لوہے کی چیز تھی۔ حضور ﷺ نے فرمایا اگر مجھے معلوم ہوجاتا کہ وہ مجھے دیکھ رہا ہے تو میں اس کی آنکھ میں اس کو چبھو دیتا۔ طلب اجازت کا حکم تو فقط نہ دیکھنے کے لئے ہی دیا گیا ہے (جب دیکھ لیا تو طلب اجازت بیکار ہے) رواہ البغوی۔ حضرت ابوہریرہ ؓ راوی ہیں کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا اگر کوئی شخص تمہاری اجازت کے بغیر تم کو جھانک کر دیکھے اور تم کوئی کنکری اس کے پھینک مارو اور کنکری سے اس کی آنکھ پھوٹ جائے تو تمہارا کوئی جرم نہیں۔ رواہ احمد والشیخان فی الصحیحین۔ واللہ بما تعملون علیم۔ اور اللہ تمہارے اعمال سے بخوبی واقف ہے ‘ وہ جانتا ہے کہ جو تم کو حکم دیئے جاتے ہیں ان کی کس قدر تعمیل کرتے ہو اور کتنی تعمیل نہیں کرتے۔ ابن ابی حاتم نے مقاتل بن حبان کا بیان نقل کیا ہے کہ جب گھروں میں داخل ہونے کے لئے اجازت طلب کرنے کا حکم نازل ہوا تو حضرت ابوبکر ؓ نے فرمایا یا رسول اللہ ﷺ : قریش کے تاجر جو مکہ مدینہ اور شام کے درمیان آتے جاتے ہیں ان کا کیا ہوگا ‘ سر راہ ان کے (قیام اور اترنے کے) مکان مقرر ہوتے ہیں جن کے اندر کوئی رہتا نہیں ہے (صرف راستہ میں کسی جگہ ٹھہرنے کے لئے قریش کے تاجر بنا کر چھوڑ دیتے ہیں) وہاں کس سے اجازت داخلہ مانگیں گے اور کس کو سلام کریں گے ‘ اس پر آیت ذیل نازل ہوئی۔
Top