Al-Qurtubi - An-Noor : 28
فَاِنْ لَّمْ تَجِدُوْا فِیْهَاۤ اَحَدًا فَلَا تَدْخُلُوْهَا حَتّٰى یُؤْذَنَ لَكُمْ١ۚ وَ اِنْ قِیْلَ لَكُمُ ارْجِعُوْا فَارْجِعُوْا هُوَ اَزْكٰى لَكُمْ١ؕ وَ اللّٰهُ بِمَا تَعْمَلُوْنَ عَلِیْمٌ
فَاِنْ : پھر اگر لَّمْ تَجِدُوْا : تم نہ پاؤ فِيْهَآ : اس میں اَحَدًا : کسی کو فَلَا تَدْخُلُوْهَا : تو تم نہ داخل ہو اس میں حَتّٰى : یہانتک کہ يُؤْذَنَ : اجازت دی جائے لَكُم : تمہیں وَاِنْ : اور اگر قِيْلَ لَكُمُ : تمہیں کہا جائے ارْجِعُوْا : تم لوٹ جاؤ فَارْجِعُوْا : تو تم لوٹ جایا کرو هُوَ : یہی اَزْكٰى : زیادہ پاکیزہ لَكُمْ : تمہارے لیے وَاللّٰهُ : اور اللہ بِمَا : وہ جو تَعْمَلُوْنَ : تم کرتے ہو عَلِيْمٌ : جاننے والا
اگر تم گھر میں کسی کو موجود نہ پاؤ تو جب تک تم کو اجازت نہ دی جائے اس میں مت داخل ہو اور اگر یہ کہا جائے کہ (اس وقت) لوٹ جاؤ تو لوٹ جایا کرو یہ تمہارے لئے پاکیزگی کی بات ہے اور جو کام تم کرتے ہو خدا سب جانتا ہے
آیت نمبر 28 اس میں چار مسائل ہیں۔ مسئلہ نمبر 1 ۔ اللہ تعالیٰ کا ارشاد ہے : فان لم تجدو فھیا احدا۔ فیھا میں ضمیر کا مرجع دوسروں کے گھر ہیں۔ صبری نے مجادہ سے حکایت کیا ہے انہوں نے کہا : فان لم تجدو فیھا احدا کا معنی یہ ہے کہ تمہارا ان کے گھروں میں سامان نہ ہو۔ طبری نے اس تاویل کو ضعیف قرار دیا ہے۔ اسی طرح یہ انتہائی ضعف میں ہے گوایا مجاہد کا خیال ہے کہ وہ گھر جن میں کوئی رہنے والا نہیں تو ان میں بغیر اجازت کے داخل ہو سکتا ہے۔ جب داخل ہونے والے اس میں سامان ہو۔ انہوں نے المتاع کے لفظ سے متاع البیت مراد لیا ہے۔ جو کالین اور کپڑے وغیرہ ہیں یہ سب ضعیف ہے۔ صحیح یہ ہے کہ یہ آیت ما قبل آیت سے اور احادیث سے منسلک ہے۔ تقدیریوں ہے : یا یھا الذین آمنوا لا تد خلوا بیوتا غیر بیوتکم حی تستانسو او تسلموا فان اذن لکم فادخلو والا فارجعوا۔ یعنی اے ایمان والو ! اپنے گھروں کے علاوہ گھروں میں داخل نہ ہو حتی کہ تم اجازت طلب کرلو اور اسلام کرلو اگر تمہیں اجازت دی جائے تو داخل ہو جائو ورنہ واپس چلے جائو جیسا کہ حضرت سعد کے ساتھ نبی پاک ﷺ نے کیا تھا اور حضرت ابو موسیٰ نے حضرت عمر ؓ کے ساتھ کیا تھا۔ اگر تم ان میں کسی کو نہ بتائو جو تمہیں اجازت دے تو تم ان میں داخل نہ ہو حتی کہ تم اجازت پالو۔ طبری نے قتادہ سے سند کے ساتھ روایت کیا فرمایا ایک مہاجہر نے کہا : میں ساری عمر اس آیت پر عمل تلاش کرتا رہا میں نے نہیں پایا کہ میں کسی دوست سے اجازت طلب کروں اور وہ مجھے کہے : لوٹ جائو پھر میں لوٹ جائوں جبکہ میں خوش ہوں کیونکہ اللہ تعالیٰ نے فرمایا ھوا ازکی لکم۔ مسئلہ نمبر 2 ۔ خواہ دروازہ بند ہو یا کھلا ہو کیونکہ شرع نے و خول کی تحریم کے ساتھ اس کو بند کردیا ہے حتی کہ اس کے مالک کی اجازت اسے کھول دے بلکہ اس پروا جب ہے کہ دروازے پر آئے اور اجازت کا اس طریقہ پر ارادہ کرے جس سے گھر پر مطلع نہ ہو نہ آنے میں نہ لوٹنے میں گھر پر آگاہی ہو۔ ہمارے علماء نے حضرت عمر بن خطابؓ سے روایت کیا ہے کہ انہوں نے فرمایا : جس نے اپنی آنکھوں کو گھر کے صحن سے برا اس نے فسق کا ارتکاب کیا۔ صحیح نے حضرت سہل بن سعد سے روایت کیا ہے کہ ایک شخص نے نبی پاک ﷺ کے دروازے کی دراز سے جھانکا جبکہ نبی پاک ﷺ کے ہاتھ میں کنگھی تھی جس کے ساتھ آپ سر کو کنگھی کر رہے تھے نبی پاک ﷺ نے اسے فرمایا : ” اگر میں جانتا کہ تو دیکھ رہا ہے تو میں تیری آنکھوں میں اس کے ساتھ مارتا : اللہ تعالیٰ نے دیکھنے کی وجہ سے اذان کو مقرر کیا ہے “ (1) حضرت انس ؓ سے روایت ہے کہ نبی پاک ﷺ نے فرمایا : ” جو تجھ پر بغیر اجازت کے جھانکے پر تو کنکری کے ساتھ اس کو مارے اور اس کی آنکھ پھوڑ دے ت تجھ پر کوئی گرفت نہیں ہوگی۔ مسئلہ نمبر 3 ۔ جب یہ ثابت ہوگیا کہ گھر میں داخل ہونے کے لیے اجازت شرط ہے تو یہ چھوٹے اور بڑے کی طرف سے ہوگا۔ حضرت انس بن مالک بلوغت سے پہلے نبی پاک ﷺ سے اجازت طلب کرتے تھے، اسی طرح صحابہ کرام اپنے بچوں اور لڑکوں کے ساتھ کرتے تھے اس کا مزید بیان سورت کے آخر میں آئے گا۔ انشاء اللہ مسئلہ نمبر 4 ۔ اللہ تعالیٰ کا ارشاد ہے : واللہ بما تعملون علیم۔ گھروں کی جاسوسی کرنے والوں کے لیے اور گناہوں اور غیر حلال چیزوں کو دیکھنے کے لیے غفلت کی حالت میں و خول کے طرلب کرنے والوں کے لیے وعید ہے اور ان لوگوں کے لیے وعید ہے جو ممنوع چیز پر واقع ہوتے ہیں۔
Top