Aasan Quran - Aal-i-Imraan : 61
فَمَنْ حَآجَّكَ فِیْهِ مِنْۢ بَعْدِ مَا جَآءَكَ مِنَ الْعِلْمِ فَقُلْ تَعَالَوْا نَدْعُ اَبْنَآءَنَا وَ اَبْنَآءَكُمْ وَ نِسَآءَنَا وَ نِسَآءَكُمْ وَ اَنْفُسَنَا وَ اَنْفُسَكُمْ١۫ ثُمَّ نَبْتَهِلْ فَنَجْعَلْ لَّعْنَتَ اللّٰهِ عَلَى الْكٰذِبِیْنَ
فَمَنْ : سو جو حَآجَّكَ : آپ سے جھگڑے فِيْهِ : اس میں مِنْ بَعْدِ : بعد مَا : جب جَآءَكَ : آگیا مِنَ : سے الْعِلْمِ : علم فَقُلْ : تو کہ دیں تَعَالَوْا : تم آؤ نَدْعُ : ہم بلائیں اَبْنَآءَنَا : اپنے بیٹے وَاَبْنَآءَكُمْ : اور تمہارے بیٹے وَنِسَآءَنَا : اور اپنی عورتیں وَنِسَآءَكُمْ : اور تمہاری عورتیں وَاَنْفُسَنَا : اور ہم خود وَاَنْفُسَكُمْ : اور تم خود ثُمَّ : پھر نَبْتَهِلْ : ہم التجا کریں فَنَجْعَلْ : پھر کریں (ڈالیں) لَّعْنَتَ : لعنت اللّٰهِ : اللہ عَلَي : پر الْكٰذِبِيْنَ : جھوٹے
تمہارے پاس (حضرت عیسیٰ ؑ کے واقعے کا) جو صحیح علم آگیا ہے اس کے بعد بھی جو لوگ اس معاملے میں تم سے بحث کریں تو ان سے کہہ دو کہ :“ آؤ ہم اپنے بیٹوں کو بلائیں اور تم اپنے بیٹوں کو، اور ہم اپنی عورتوں کو اور تم اپنی عورتوں کو، اور ہم اپنے لوگوں کو اور تم اپنے لوگوں کو، پھر ہم سب ملکر اللہ کے سامنے گڑ گڑائیں، اور جو جھوٹے ہوں ان پر اللہ کی لعنت بھیجیں۔ (25)
25: اس عمل کو مباہلہ کہا جاتا ہے، جب بحث کا کوئی فریق دلائل کو تسلیم کرنے کے بجائے ہٹ دھرمی پر تل جائے تو آخری راستہ یہ ہے کہ اسے مباہلہ کی دعوت دی جائے جس میں دونوں فریق اللہ تعالیٰ سے یہ دعا کریں کہ ہم میں سے جھوٹا یا باطل پر ہو وہ ہلاک ہوجائے، جیسا کہ اس سورت کے شروع میں بیان ہوا ہے، شہر نجران کے عیسائیوں کا ایک وفد آنحضرت ﷺ کی خدمت میں آیا تھا اس نے آپ سے حضرت عیسیٰ ؑ کی خدائی پر بحث کی، جس کا اطمینان بخش جواب قرآن کریم کی طرف سے پچھلی آیتوں میں دے دیا گیا، جب وہ کھلے دلائل کے باوجود اپنی گمراہی پر اصرار کرتے رہے تو اس آیت نے آنحضرت ﷺ کو حکم دیا کہ وہ انہیں مباہلے کی دعوت دیں ؛ چنانچہ آپ ﷺ نے ان کو یہ دعوت دی اور خود اس کے لئے تیار ہو کر اپنے اہل بیت کو بھی جمع فرمالیا لیکن عیسائیوں کا وفد مباہلے سے فرار اختیار کرگیا۔
Top