Baseerat-e-Quran - Aal-i-Imraan : 61
فَمَنْ حَآجَّكَ فِیْهِ مِنْۢ بَعْدِ مَا جَآءَكَ مِنَ الْعِلْمِ فَقُلْ تَعَالَوْا نَدْعُ اَبْنَآءَنَا وَ اَبْنَآءَكُمْ وَ نِسَآءَنَا وَ نِسَآءَكُمْ وَ اَنْفُسَنَا وَ اَنْفُسَكُمْ١۫ ثُمَّ نَبْتَهِلْ فَنَجْعَلْ لَّعْنَتَ اللّٰهِ عَلَى الْكٰذِبِیْنَ
فَمَنْ : سو جو حَآجَّكَ : آپ سے جھگڑے فِيْهِ : اس میں مِنْ بَعْدِ : بعد مَا : جب جَآءَكَ : آگیا مِنَ : سے الْعِلْمِ : علم فَقُلْ : تو کہ دیں تَعَالَوْا : تم آؤ نَدْعُ : ہم بلائیں اَبْنَآءَنَا : اپنے بیٹے وَاَبْنَآءَكُمْ : اور تمہارے بیٹے وَنِسَآءَنَا : اور اپنی عورتیں وَنِسَآءَكُمْ : اور تمہاری عورتیں وَاَنْفُسَنَا : اور ہم خود وَاَنْفُسَكُمْ : اور تم خود ثُمَّ : پھر نَبْتَهِلْ : ہم التجا کریں فَنَجْعَلْ : پھر کریں (ڈالیں) لَّعْنَتَ : لعنت اللّٰهِ : اللہ عَلَي : پر الْكٰذِبِيْنَ : جھوٹے
(اے محمد ﷺ اس علم کے آجانے کے بعد بھی جو کوئی جھگڑا کرتا ہے ۔ آپ اس سے کہہ دیجئے کہ آؤ تم اور ہم خود بھی آجائیں اور اپنی بیوی کو بھی لے آئیں۔ اور پھر ہم قسم کھائیں اور جھوٹوں پر اللہ کی لعنت بھیجیں ۔
لغات القرآن آیت نمبر 61 تا 63 حاجک (آپ سے جھگڑتا ہے) تعالوا (آجاؤ) ندع (ہم بلاتے ہیں) ابناءنا (اپنے بیٹوں کو) نساءنا (اپنی عورتوں کو) انفسنا (ہماری اپنی ذاتیں) نبتھل (ہم قسم کھاتے ہیں) نجعل (ہم ڈالیں گے) الکٰذبین (جھوٹ بولنے والے) قصص (قصے، واقعات) الحق (بالکل درست، ٹھیک) المفسدین (فساد کرنے والے) تشریح : آیت نمبر 61 تا 63 سورة آل عمران کی آیات 61 تا 63 میں نبی کریم ﷺ سے خطاب کرتے ہوئے فرمایا جارہا ہے کہ یہ جتنے حقائق بیان کئے گئے ہیں اگرچہ نخران کے عیسائیوں کا وفد ماننے کے لئے تیار نہیں ہے تو آپ ان کو ” مباھلہ “ کی دعوت دیجئے یعنی اے نبی آپ اور یہ عیسائی خود اپنی جانوں کو اور اپنے بال بچوں کو لے ایک میدان میں آجائیں اور خوب گڑگڑا کر اللہ سے دعا کریں اور قسم کھائیں کہ ہم میں سے جو بھی جھوٹا ہو اس پر اللہ کی لعنت اور عذاب نازل ہوجائے۔ اس آیت کے نازل ہونے کے بعد آنحضرت ﷺ نے نخران کے عیسائیوں کو ” مباھلہ “ کی دعوت دے دی۔ یہ بات ان عیسائیوں کے نزدیک قطعاً غیر متوقع تھی۔ وہ یہ سن کر حیران رہ گئے چونکہ دل میں چور تھا اس لئے کہنے لگے اے محمد ﷺ آپ ہمیں مشورہ کرنے کی مہلت دیجئے۔ ہم آپس میں مشورہ کرکے کل صبح جواب دے دیں گے۔ جب وہ مشورہ کے لئے جمع ہوئے تو کسی نے بھی “ مباھلہ “ کے چیلنج کو قبول کرنے کے حق میں رائے نہیں دی۔ اور طے پایا کہ حضور اکرم ﷺ سے صلح کرلی جائے اور جزیہ دینا قبول کرلیا جائے۔ چناچہ بقول علامہ ابن کثیر اسی پر سب کا اتفاق ہوگیا اور نبی کریم ﷺ نے ان پر جزیہ مقرر کرکے صلح کرلی۔ اس آیت سے آنحضرت ﷺ کی حقانیت اور اسلام کی سچائی ثابت ہوگئی ورنہ اگر نخران کے نصاریٰ ذرا بھی اپنے اندر سچائی کی رمق پاتے تو اس چیلنج کو قبول کرلیتے۔
Top