Aasan Quran - An-Naml : 50
تَبٰرَكَ الَّذِیْ نَزَّلَ الْفُرْقَانَ عَلٰى عَبْدِهٖ لِیَكُوْنَ لِلْعٰلَمِیْنَ نَذِیْرَاۙ
تَبٰرَكَ : بڑی برکت والا الَّذِيْ : وہ جو۔ جس نَزَّلَ الْفُرْقَانَ : نازل کیا فرق کرنیوالی کتاب (قرآن) عَلٰي عَبْدِهٖ : اپنے بندہ پر لِيَكُوْنَ : تاکہ وہ ہو لِلْعٰلَمِيْنَ : سارے جہانوں کے لیے نَذِيْرَۨا : ڈرانے والا
کیا ہی پاک اور برکتوں کا سرچشمہ ہے وہ ذات جس نے اپنے بندے پر { الفرقان } نازل کیا تاکہ وہ دنیا جہان والوں کے لیے ڈرانے والا ہو ؟
نہایت برکت والی ہے وہ ذات جس نے اپنے بندے پر ” الفرقان “ نازل فرمایا : 1۔ (تبارک) کی اصل ب ر ک ہے اور یہ لفظ قرآن کریم میں نور بار راستعمال ہوا ہے ۔ الاعراف 54 میں اور المومنون کی آیت 14 میں پیچھے گزر چکا ہے زیر نظر سورة الفرقان میں تین بار آیا ہے آیت اول ‘ آیت 10 اور آیت 61 میں اور سورة غافر کی آیت 64 ‘ سورة الزخرف کی آیت 85 ‘ سورة الرحمن کی آیت 78 اور سورة الملک کی آیت 1 میں آگے آئے گا ۔ ” تبارک “ باب تفاعل کا ماضی ہے لیکن اس کی صرف گردان نہیں آتی اور کہا گیا ہے کہ اس کا استعمال صرف اللہ تعالیٰ کے لئے مخصوص ہے یہ لفظ برکت سے بنایا گیا ہے اور برکت کے معنی کثرت غیر کے کئے گئے ہیں اس لفظ کے مختلف تراجم کئے گئے ہیں ” وہ ہرچیز سے بڑھ چڑھ کر ہے “ ” وہ اپنی صفات اور افعال میں سب سے اعلی وبالا ہے “ ” وہ عظمت والا ہے ۔ “ (الفرقان) قرآن کریم کے ناموں میں سے ایک نام ہے اور اسی طرح توراۃ کے ناموں میں سے بھی ایک نام ہے یوم بدر کو بھی ” الفرقان “ کہا گیا ہے اور یہ لفظ قرآن کریم میں 6 بار استعمال ہوا ۔ اس جگہ قرآن کی بجائے فرقان کا لفظ اختیار کرنے میں اشارہ کیا گیا ہے کہ وہ حق و باطل میں عملی طور پر فرق کر دکھائے گا اور یہ بھی کہا جاسکتا ہے کہ قرآن کریم حق و باطل کے لئے بطور کسوٹی ہے جس سے حق و باطل کی پہچان کی جاسکتی ہے اور یہ بھی کہ وہ الگ الگ اجزا سے مل کر ایک کتاب کی شکل میں موجود ہے اور یہ بھی کہ وہ الگ الگ اوقات میں آنے والے اجزا پر مشتمل ہے کیونکہ قرآن کریم نجا نجا ہی نازل ہوا ہے ۔ ” علی عبدہ “ سے مراد نبی اعظم وآخر ﷺ ہی مراد ہیں اور ” عبدہ “ کا لفظ قرآن کریم میں سات بار استعمال ہوا ہے جس میں سے چھ بار محمد رسول اللہ ﷺ ہی کے لئے بولا گیا ہے اور ایک بار سیدنا زکریا (علیہ السلام) کے لئے استعمال ہوا ہے ، کسی کی تحقیر کے لئے عام طور پر یہ کہا جاتا ہے کہ ” بھلا وہ بھی کوئی انسان ہے “ یا یہ کہ ” بھلا وہ بھی کوئی بندہ ہے “ اس کا مطلب یہ نہیں کہ ایسا کہنے والے جس کے متعلق ایسا کہتے ہیں وہ انسان یا بندہ نہیں ہوتا بلکہ ان کی مراد تحقیر ہوتی ہے بعینہ نبی اعظم وآخر ﷺ کی تحقیر کرنے والے آپ ﷺ کے متعلق کہا کرتے تھے ‘ کیوں ؟ اس لئے بڑے لوگ جن کے پاس مل و دولت کی کثرت ہوتی ہے ، بڑا خاندان ہوتا ہے ‘ بڑے زمیندار ہوتے ہیں ان کو لوگ باپ دادا والے کہتے ہیں حالانکہ باپ دادا کے بغیر تو کوئی بھی نہیں ہوتا اصل بات وہی ہے کہ نامور لوگ دوسروں کو حقیر ثابت کرنے کے لئے اس طرح کی باتیں کرتے ہیں اور یہی صورت حال اس وقت بھی تھی کہ طائف اور مکہ کے و ڈیرے آپ کو حقیر خیال کرتے تھے اس لئے اللہ تعالیٰ نے آپ ﷺ کو خاص اپنا بندہ قرار دے کر مخاطب کیا اور پھر ان سب پر ثابت کردیا کہ اس دنیا میں دراصل بڑا وہی ہے جو اللہ کا بندہ ہو اور انسان تو پہلے ہی اشرف المخلوقات ہے کہ اس کے مقابلہ میں کسی دوسری مخلوق کو پیش ہی نہیں کیا جاسکتا اور پھر انسانوں میں سے جس کو اللہ تعالیٰ اپنے لئے خاص کرلے اس کی بزرگی کا کون مقابلہ کرسکتا ہے اس لئے آپ ﷺ کو ” عبدہ “ کہہ کر اللہ تعالیٰ نے سارے متکبرین کے منہ پر چانٹا رسید کردیا ہے جو اپنے تکبر کے باعث محمد رسول اللہ ﷺ کو ایک حقیر انسان کہتے تھے بلاشبہ اس سے بڑا کوئی اور اعزاز نہیں ہو سکتا لیکن افسوس کہ اس حقیقت کو بعض مسلمانوں نے بھی نہیں سمجھا اور وہ آج تک نبی اعظم وآخر ﷺ کو ایک انسان یا ایک بشر تسلیم کرنے میں تحقیر سمجھتے ہیں حالانکہ اس سے بڑا کوئی اعزاہو ہی نہیں سکتا کہ آپ ﷺ سارے انسانوں میں سے ایک بہتر انسان ہیں کہ آپ ﷺ سے بہتر کوئی انسان ہو ہی نہیں سکتا بلاشبہ بندوں میں سے اللہ تعالیٰ کے خاص بندے ہیں اور اللہ تعالیٰ نے ” فرقان “ کی نعمت عطا فرما کر آپ ﷺ کو کسی چیز کا محتاج نہیں رہنے دیا ، اس کی وضاحت مزید بھی اس سورت میں کی گئی ہے جو آگے آئے گی ۔ ” للعلمین نذیرا “ ” تاکہ وہ دنیا جہاں والوں کے لئے ڈرانے والا ہو “ اس سے مراد ” الفرقان “ بھی ہو سکتا ہے اور ” عبدہ “ وہ بندہ خاص یعنی محمد رسول اللہ ﷺ بھی مراد ہو سکتے ہیں کیونکہ اس کا اطلاق دونوں پر ہو سکتا ہے اور فی نفسہ دونوں ایک ہی چیز ہیں کیونکہ آپ ﷺ بھی بلاشبہ کتاب اللہ اور ” الفرقان “ ہی ہیں کیونکہ ” الفرقان “ کا نزول آپ ﷺ ہی کے قلب پر ہوا ہے اور آپ ﷺ ہی کی زبان کی حرکت سے ظاہر ہوا ہے جس طرح ” الفرقان “ اللہ کا کلام ہے اسی طرح آپ ﷺ اللہ کے خاص بندہ اور رسول ہیں اور جس طرح ” الفرقان “ پوری دنیا والوں کے لئے ہے آپ ﷺ بھی پوری دنیا کے لوگوں کے لئے اللہ تعالیٰ کے رسول ہیں ‘ جس طرح اللہ کا کلام ” الفرقان “ کے بعد نہیں ہو سکتا اسی طرح کوئی نیا یا پرانا اللہ کا رسول بھی محمد رسول اللہ ﷺ کے بعد نہیں ہوسکتا اور نبوت و رسالت ایسی چیز نہیں جو ایک بار عطا کرنے کے بعد سلب بھی کی جاسکتی ہو کیونکہ اس سے براہ راست اللہ رب ذوالجلال والاکرام میں نقص ثابت ہوتا ہے حالانکہ اللہ رب العزت ہر نقص سے پاک ہے ، دوسری جگہ اللہ تعالیٰ نے خود نبی اعظم وآخر ﷺ کی زبان اقدس سے اعلان کرا دیا ہے چناچہ ارشاد الہی ہے کہ (آیت) ” قل یایھا الناس انی رسول اللہ الیکم جمیعا “۔ (الاعراف 7 : 158) اے پیغمبر اسلام ! ﷺ آپ ﷺ کہہ دیں کہ اے انسانو ! میں تم سب کی طرف اللہ کا رسول ہوں ‘ اور ایک جگہ ارشاد فرمایا (آیت) ” وما ارسلنک الا رحمۃ للعلمین “۔ (الانبیاء 21 : 107) ” اور ہم نے آپ ﷺ کو اے پیغمبر اسلام ! ﷺ تمام دنیا والوں کے لئے رحمت بنا کر بھیجا ہیں “ ایک جگہ ارشاد فرمایا (آیت) ” وما ارسلنک الا کافۃ للناس بشیرا ونذیرا “۔ (سبا 34 : 28) ” ہم نے آپ ﷺ کو سارے ہی انسانوں کے لئے بشارت دینے والا اور خبردار کرنے والا بنا کر بھیجا ہے “ اور ایک جگہ ارشاد فرمایا (آیت) ” واوحی الی ھذا القران لانذرکم بہ ومن بلغ “۔ (الانعام 6 : 19) ” میری طرف یہ قرآن کریم بھیجا گیا ہے تاکہ اس کے ذریعہ سے میں تم لوگوں کو خبردار کروں اور جس جس کو بھی یہ پہنچے ۔
Top