Al-Qurtubi - An-Naml : 51
فَانْظُرْ كَیْفَ كَانَ عَاقِبَةُ مَكْرِهِمْ١ۙ اَنَّا دَمَّرْنٰهُمْ وَ قَوْمَهُمْ اَجْمَعِیْنَ
فَانْظُرْ : پس دیکھو كَيْفَ : کیسا كَانَ : ہوا عَاقِبَةُ : انجام مَكْرِهِمْ : ان کا مکر اَنَّا : کہ ہم دَمَّرْنٰهُمْ : ہم نے تباہ کردیا انہیں وَقَوْمَهُمْ : اور ان کی قوم اَجْمَعِيْنَ : سب کو
تو دیکھ لو کہ ان کی چال کا انجام کیسا ہوا ؟ ہم نے ان کو ان کی قوم سب کو ہلاک کر ڈالا
فانظر کیف کان عاقبۃ مکرھم انا درمرنھم وقومھھناجمعین چیخ کے ساتھ ان سب کو ہلاک کردیا۔ ایک قول یہ کیا گیا : تمام کی ہلاکت حضرت جبریل امین کی چیخ سے ہوئی۔ ظاہر بات یہ ہے کہ سب کی ہلاکت ایک عذاب سے ہوئی پھر باقی چیخ یا دمدم سے ہلاک ہوئے۔ اعمشق، حضرت حسن بصری، ابن ابی اسحاق، عاصم، حمزہ اور کسائی اما پڑھا کرتا تھے۔ ابن انباری نے کہا، اس مذہب کی بنا پر عاقبہ مکرھم پر واقف اچھا نہیں کیونکہ انادمر نھم، انکی خبر ہی یہ بھی جائز ہے کہ تو اسے محل رفع میں رکھے یہ عاقبہ کی اتباع میں ہو۔ یہ بھی جائز ہے کہ تو اسے محل نصب میں رکھے، یہ فراء کا قول ہے کسائی کے قوال کے مطباق یہ محل جر میں ہوگا مرادو گا بانا دھرنا ھم ولا نا دھرنا ہم اسے نصب دنیا اس کے اعتبار سے بھی جائز ہے کے تو اس کیف کے محل کے اعتبار سے نصب دے اس استعبار سے مکرھم پر عطف کرنا صحیح نہ ہوگا ابن کثیر، نافع اور ابو عمرو نے ان سے انادھمرناھم ہجمزہ کے کسرہ کے ساتھ پڑھا ہے۔ یہ جملہ مستانفہ ہے۔ اس مذہب کی بنا پر مکرھم پر واقفاچھا نہیں۔ نحاس نے کہا : یہ جائز ہے کہ تو عاقبہ کو نصب دے کہ کان کی خبر ہے اور انا یہ محل رفع میں ہوا اس اعتبار سے یہ کان کا اسم ہو یہ بھی جائز ہے۔ کہ یہ محل رفع میں ہو مبتداء مضمر ہو مقصد عاقبہ کی وضاحت ہو۔ تقدیر کلام ہی ہوگی ھی اناد مرناھم۔ ابوحاتم نے کہا : حضرت ابی کی قرأت میں انا دمرناھم ہے یہ فتحہ کی تصدیق ہے۔ فتلک بیوتھم خاویۃ بما ظلموا خاویۃ میں عام قرأت نصب کے ساتھ ہے یہ حال ہے فراء اور نحاس کا نقطہ نظر ہے۔ وہ اپنے اہل سے خالی ہے، برباد ہے وہاں کوئی رہائش رکھنے والا نہیں۔ کسائی اور ابو عبیدہ نے کہا : خاویۃ منصوب ہے ماقبل سے اسے قطع کیا گیا ہے معنی ہوگا فتلک بیوتم الخاویۃ جب اس سے الف لام کو الگ کیا گیا تو حال ہونے کی وجہ سیم نصوب ہوگیا۔ جس طرح اللہ تعالیٰ کا فرمان ہے : ولہ ما فی السموت والارض (النحل : 52) عیسیٰ بن عمر، نصر بن عاصم اور حجدری نے اسے رفع کے ساتھ پڑھا ہے اس بنا پر کہ یہ تلک کی خبر ہے۔ بیوتھم یہ تللکا بدل ہے۔ یہ بھی جائز ہے کہ بیوتھم عطف بیان ہو خاویۃ یہ تلک کی خبر ہو خاویۃ کا رفع اس بنا پر بھی ہو سکتا ہے کہ یہ مبتدا محذوف کی خبر ہو، یعنی ھی خاویۃ یا یہ بیوتھم سے بدل ہو کر کیونکر نکرہ کو معرفہ سے بدلا گیا ہے۔ ان فی ذلک لایۃ لقوم یعلمون۔ وانجینا الذین امنوا جو حضرت صالح علیہ اسلام پر ایمان لائے وکانوا یتقون وہ اللہ تعالیٰ سے ڈرتے اور اس کے عذاب سے خوف کھاتے۔ ایک قول یہ کیا گیا ہے : حضرت صالح (علیہ السلام) پر چار ہزار افراد ایمان لائے۔ باقیک و مقاتل کے قول کے مطابق چنے کے دانے کے برابر پھنسین کلی وہ پہلے روز سرخ تھی پھر اگلے روز وہ زرد ہوگی پھر تیسرے روز وہ سیاہ ہوگئی اونٹنی کی کونچیں بدھ کو کاٹی گئیں اور ان کی ہلاکت اتوار کو ہوئی۔ مقاتل نے کہا : وہ پھوڑے خاص زرد رنگ کے ہوگئے۔ حضرت جبریل امین (علیہ السلام) نے ان کے درمیان چیخ ماری تو وہ سب ٹھنڈے ہوگئے۔ یہ چاشت کا وقت تھا۔ حضرت صالح علیہ اسلام اور جو لوگ ان پر ایمان لائے تھے وہ حضرموت کی طرف نکلے جو حضرموت پہنچے تو حضرت صالح (علیہ السلام) کا وصال ہوگیا تو اس کا نام حضرموت ہوگیا۔ ضحاک نے کہا، پھر چار ہزار افراد نے شہر بسایا جسے حاضورا کہا اجتا : جس کی وضاحت اصحاب رس میں گزر چکی ہے۔
Top