Ahkam-ul-Quran - Al-Israa : 36
وَ لَا تَقْفُ مَا لَیْسَ لَكَ بِهٖ عِلْمٌ١ؕ اِنَّ السَّمْعَ وَ الْبَصَرَ وَ الْفُؤَادَ كُلُّ اُولٰٓئِكَ كَانَ عَنْهُ مَسْئُوْلًا
وَلَا تَقْفُ : اور پیچھے نہ پڑ تو مَا لَيْسَ : جس کا نہیں لَكَ : تیرے لیے۔ تجھے بِهٖ : اس کا عِلْمٌ : علم اِنَّ : بیشک السَّمْعَ : کان وَالْبَصَرَ : اور آنکھ وَالْفُؤَادَ : اور دل كُلُّ : ہر ایک اُولٰٓئِكَ : یہ كَانَ : ہے عَنْهُ : اس سے مَسْئُوْلًا : پرسش کیا جانے والا
اور (اے بندے) جس چیز کا تجھے علم نہیں اس کے پیچھے نہ پڑ۔ کہ کان اور آنکھ اور دل ان سب (جوارح) سے ضرور باز پرس ہوگی۔
لاتقف کی تشریح قول باری ہے (لا تقف مالیس لک بہ علم۔ کسی ایسی چیز کے پیچھے نہ لگو جس کا تمہیں علم نہ ہو) کسی نشان کا پیچھا کرنا ” القفوا “ کہلاتا ہے۔ جبکہ اس کا کوئی علم نہ ہو اور نہ ہی اس بارے میں کوئی بصیرت کہ یہ نشان کہاں جا کر اختتام پذیر ہوگا۔ اسی سے قافۃ کا لفظ بنا ہے جس کے معنی قیاذ شناس کے ہیں۔ یہ قائف کی جمع ہے۔ عرب کے اندر ایسے لوگ بھی تھے جو قدموں کے نشانات کا کھوج لگاتے تھے۔ (ہمارے ہاں عرف عام میں انہیں کھوجی کہا جاتا ہے) اور ایسے بھی تھے جو نسب کے سلسلہ میں قیاذ شناسی کا کام کرت ی تھے یعنی ایک شخص کے جسمانی اعضاء دیکھ کر بتا دیتے تھے کہ اس کا تعلق فلاں نسب سے ہے۔ تاہم عربوں کے نزدیک یہ اسم اس خبر کے لئے وضع کیا گیا تھا جو کوئی شخص یونہی آ کر سنا دے اور اس کی کوئی حقیقت نہ ہو۔ جب کوئی شخص باطل یعنی غلط بات کہتا تو اس موقعہ پر یہ فقرہ استعمال ہوتا۔ ” تقوف الرجل “ جریر کا شعر ہے۔ وطال حذاری خیفۃ البین والنوی واحد وثۃ من کاشح متقوف علیحدگی اور جدائی نیز ایک کینہ ور دروغ گو دشمن کی افواہوں سے ڈرتے ہوئے میں نے طویل عرصے تک محتاط رویہ اختیار کئے رکھا۔ اہل لغت کا کہنا ہے کہ جریر نے متقوف سے غلط باتیں کہنے والا مراد لیا ہے۔ ایک اور شاعر کا قول ہے : ومثل الدمی شم العرانین ساکن بھن الحیاء لایشعن التقافیا وہ ستواں ناک والی پتلیوں کی طرح خاموش ہیں۔ ان کے اندر حیا داری موجود ہے کہ ایک دوسرے پر کیچڑ نہیں اچھالتی ہیں۔ یہاں تفافی تفاذف یعنی ایک دوسرے پر کیچڑ اچھالنے کے معنوں میں ہے۔ اس اسم کو تقاذف کے معنوں میں اس لئے استعمال کیا گیا کہ اس میں اکثر باتیں بےحقیقت اور غلط ہوتی ہیں۔ اسی بنا پر اللہ تعالیٰ نے قاذف یعنی زنا کی تہمت لگانے والے کو گواہ پیش نہ کرنے کی صورت میں کاذب قرار دیا ہے چناچہ ارشاد ہے (لوہ اذ سمعتموہ ظن المومنون والمومنات بانفسھم خیراً و قالوا ھذا افک مبین۔ جب تم لوگوں نے یہ افواہیں سنی تھی تو کیوں نہ مسلمان مردوں اور مسلمان عورتوں نے اپنوں کے حق میں نیک گمان کیا اور یہ کیوں نہ کہہ دیا کہ یہ تو صریح جھوٹ ہے۔ قتادہ نے قول باری صولا تقف مالیس لک بہ علم) کی تفسیر کرتے ہوئے کہا۔” جو بات تم نے نہ سنی ہو اس کے بارے میں یہ نہ کہو کہ میں نے سنی ہے۔ جو چیز تم نے نہ دیکھی ہو اس کے متعلق یہ نہ کہو کہ میں نے دیکھی ہے اور جس چیز کا تمہیں علم نہ ہو اس کے متعلق یہ نہ کہو کہ مجھے علم ہے۔ “ یہ چیز اس بات کی مقتضی ہے کہ اللہ کے احکام کے متعلق اپنے گمان اور خیال سے علم کے بغیر کوئی بات کہنے کی ممانعت ہے نیز یہ کہ لوگوں کے متعلق کسی ایسی سنی سنائی بات کو زبان پر لانا ممنوع ہے جس کی صحت کا علم نہ ہو۔ نیز اس پر بھی دلالت ہو رہی ہے کہ اگر کوئی شخص علم کے بغیر کسی بات کی خبر دے گا وہ گنہگار قرار پائے گا۔ خواہ اس کی سنائی ہوئی بات سچی ہو یا جھوٹی اس لئے کہ اس نے علم کے بغیر یہ بات کہی ہے جب کہ اللہ تعالیٰ نے اس سے روکا ہے۔ قول باری ہے (ان السمع والبصر والفوادکل اولئک کان عنہ مسئولاً یقینا آنکھ کان اور دل سب ہی کی باز پرس ہونی ہے) اس میں یہ بتایا گیا ہے کہ ہماری آنکھ، کان اور دل پر اللہ کا حق ہے اور انسان کو اپنے ان تمام اعمال کی جوابدہی کرنی ہوگی جو اس نے ان اعضاء کے ذریعے سر انجام دیئے ہوں گے۔ اسے یہ حساب دینا ہوگا کہ اس نے کون کون سی غلط باتیں سنی تھیں، کہاں کہاں غلط نظر ڈالی تھی اور کیسی کیسی غلط اور قبیح باتیں سوچی تھیں۔ بعض لوگ قول باری (ولا تقف مالیس لک بہ علم) سے شریعت کی فروعی مسائل میں قیاس کی نفی پر استدلال کرتے ہیں نیز خبرواحد کا ابطال کرتے ہیں۔ ان کی دلیل یہ ہے کہ قیاس اور خبر واحد دونوں ہمیں کسی مسئلے کے متعلق علم کی منزل تک پہنچاتے ہیں اس لئے جو شخص ان دونوں باتوں کی بنیاد پر کوئی مسئلہ بیان کرے گا وہ علم کے بغیر بات کرنے والا گردانا جائے گا۔ ابوبکر جصاص کہتے ہیں کہ جس شخص نے یہ کہا ہے اس نے غلط کہا ہے۔ اس لئے جس مسئلے کے بیان کے لئے شرعی دلالت قائم ہوجائے اس کے قائل کے بارے میں یہ نہیں کہا جاسکتا کہ اس نے علم کے بغیر بات کی ہے۔ قیاس اور خیر واحد کے سلسلے میں ایسے دلائل قائم ہوچکے ہیں جو ان کی صحت کے موجب ہیں۔ اگرچہ ہمیں دی گئی خبر کی سچائی کا علم نہیں ہوتا لیکن خبر کی سچائی کا علم نہ ہونا اس خبر کو قبول کرنے اور اس پر عمل پیرا ہونے کی راہ میں حائل نہیں ہوتا جس طرح اگر دو گواہوں کی ظاہری حالت ان کی عدالت یعنی سچائی، نیک روی وغیرہ پر والی ہو تو ان کی گواہی قبول کرلینا واجب ہوتا ہے اگرچہ ہمیں ان کی دی ہوئی گواہی کی سچائی کے بارے میں یقینی علم نہیں ہوتا۔ اسی طرح تمام اہل علم کے نزدیک معاملات سے متعلق دی گئی خبریں قابل قبول ہوتی ہیں اگرچہ ان خبروں کی صحت کا ہمیں یقینی علم نہیں ہوتا۔ قول باری (ولا تقف مالیس لک بہ علم) اخبار آحاد کو رد کرنے کا موجب نہیں ہے جس طرح یہ گواہیوں کو رد کردینا واجب نہیں کتا۔ جہاں تک قیاس شرعی کا تعلق ہے تو جو قیاس اجتہاد کے دائرے کے اندر کیا جاتا ہے اور جس قول میں اجتہاد کی گنجائش ہوتی ہے اس قیاس کے نتیجے میں ایسے قول کے قائل کے متعلق یہ نہیں کہا جاسکتا ک ہ اس نے علم کے بغیر یہ بات کہی ہے بلکہ اس کا یہ قول علم پر بمین ہوتا ہے اس لئے کہ جس بات پر وہ اپنے اجتہاد کے نتیجے میں پہنچا ہے وہی اس کے لئے اللہ کا حکم قرار پاتا ہے۔ علم حقیقی اور علم ظاہری میں فرق ایک اور جہت سے اس پر نظر ڈالیے، علم کی دو قسمیں ہیں۔ علم حقیقی اور علم ظاہر۔ ہم جس علم کے مکلف ہیں وہ علم ظاہر ہے۔ آپ دیکھ سکتے ہیں کہ ارشاد باری ہے ۔ (فان علمتموھن مومنات فلا ترجعوھن الی الکفار۔ اگر تمہیں ان عورتوں کے مومن ہونے کا علم ہوجائے تو انہیں کافروں کی طرف واپس نہ بھیجو) اس علم سے علم ظاہر مراد ہے اس لئے کہ ان کے دلوں میں پوشیدہ باتوں کی معرفت کا کوئی ذریعہ نہیں۔ حضرت یوسف (علیہ السلام) کے بھائیوں نے جو کہا تھا قرآن میں اسے ان الفاظ میں بیان کیا گیا ہے۔ (وما شھد نا الا بما علمنا وما کنا للغیب حافظین ہم نے اسے چوری کرتے ہوئے نہیں دیکھا جو کچھ ہمیں معلوم ہوا ہے بس وہی ہم بیان کر رہے ہیں اور غیب کی نگہبانی تو ہم نہ کرسکتے تھے) یوسف (علیہ السلام) کے بھائیوں نے یہ بتایا کہ انہوں نے جو کچھ بیان کیا ہے وہ علم ظاہر کی بنیاد پر بیان کیا ہے۔
Top