Baseerat-e-Quran - Al-Israa : 36
وَ لَا تَقْفُ مَا لَیْسَ لَكَ بِهٖ عِلْمٌ١ؕ اِنَّ السَّمْعَ وَ الْبَصَرَ وَ الْفُؤَادَ كُلُّ اُولٰٓئِكَ كَانَ عَنْهُ مَسْئُوْلًا
وَلَا تَقْفُ : اور پیچھے نہ پڑ تو مَا لَيْسَ : جس کا نہیں لَكَ : تیرے لیے۔ تجھے بِهٖ : اس کا عِلْمٌ : علم اِنَّ : بیشک السَّمْعَ : کان وَالْبَصَرَ : اور آنکھ وَالْفُؤَادَ : اور دل كُلُّ : ہر ایک اُولٰٓئِكَ : یہ كَانَ : ہے عَنْهُ : اس سے مَسْئُوْلًا : پرسش کیا جانے والا
اور اس کے پیچھے نہ پڑو جس کا تمہیں علم (معلومات) نہ ہو۔ بیشک کان، آنکھ اور دل ان میں سے ہر ایک سے (قیامت کے دن) سوال کیا جائے گا۔
لغات القرآن آیت نمبر 36 تا 39 لاتقف پیچھے نہ پڑو۔ لیس نہیں ہے۔ الفواد دل۔ لاتمش نہ چل۔ مرح اکڑنا، اترانا۔ لن تخرق تو ہرگز نہ پھاڑ دے گا۔ لن تبلغ تو ہرگز نہ پہنچے گا۔ الجبال پہاڑ، (پہاڑوں) ۔ طول بلندی، لمبائی۔ مکروہ ناپسندیدہ۔ تلقی ڈالا جائے گا۔ مدحور ہر رحمت سے محروم کیا ہوا۔ تشریح : آیت نمبر 36 تا 39 سورۃ الاسراء کے تیسرے اور چوتھے رکوع کی پندرہ آیات میں بہت سے نیک کام کرنے اور بہت سی برائیوں سے بچنے کے احکامات ارشاد فرمائے جا رہے ہیں۔ اسی سلسلہ میں چند اور بنیادی خرابیوں کی طرف متوجہ فرمایا جا رہا ہے کہ ہر مومن کی بدگمانی بدظنی، غرور وتکبر اور بےجا ضد سے بچنے کی ضرورت ہے۔ کیونکہ یہ باتیں اللہ کو سخت ناپسند ہیں۔ اللہ تعالیٰ نے انسان کو ایک ذمہ دار مخلوق بنایا ہے۔ اس کی زبان سے نکلے ہوئے ہر لفظ اور جملے کو بہت ذمہ دارانہ ہونا چاہئے محض سنی سنائی باتوں پر ایک تصور گھڑل ینا اور اسی کو حقیقت سمجھ کر اس پر عمل کرنا مناسب نہیں ہے۔ ہر بات جو وہ کان سے سنتا، آنکھوں سے دیکھتا اور دل سے سوچتا ہے اس کی ہر بنیاد پر غور کر کے فیصلہ کرنا چاہئے کیونکہ ہو سکتا ہے وہ جس بات کو سوچ رہا ہے وہ سرے سے لغط اور بےبنیاد ہو اور وہ بدظنی کر کے کسی بڑے گناہ میں مبتلا ہوجائے کیونکہ بعض گمان گناہ ہوتے ہیں۔ فرمایا کہ ہر شخص کو یہ بات ذہن نشین کرلینا چاہئے کہ کل قیامت کے دن اس کے کانوں سے سنے گئے آنکھوں سے دیکھے گئے اور دلوں سے سوچے گئے ہر خیال کا اللہ کا جواب دینا ہے۔ فرمایا گیا کہ اے مومنو ! تمہیں جس بات کی تحقیق نہ ہو اس کے پیچھے نہ پڑو کیونکہ آنکھ، کال اور دل ہر ایک سے سوال کیا جائے گا۔ دوسری بات یہ ارشاد فرمائی گئی کہ اللہ کو عاجزی اور انکساری بہت پسند ہے جب کہ تکبر اور غرور کو وہ سخت ناپسند فرماتا ہے۔ زمین پر اکڑ کر چلنا کس طرح منساب نہیں ہے۔ اللہ کے بندے تو جب زمین پر چلتے ہیں اس میں ایک وقار، سنجیدگی اور متانت ہوتی ہے وہ اس طرح نہیں چلتے کہ جیسے وہ زمین کو پھاڑ ڈالیں گے اور گردنیں اکڑا کر پہاڑوں سے اونچے ہوجائیں گے بلکہ عاجزی، انکساری اور تواضح ان کا مزاج ہوتا ہے۔ حضرت عبداللہ ابن عباس نے فرمایا ہے کہ اللہ تعالیٰ نے توریت کی ساری اخلاقی تعلیمات کو سورة الاسراء کی پندرہ آیات میں ارشاد فرمایا ہے جس کا خلاصہ یہ ہے کہ ہر مومن پر لازمی ہے کہ وہ مندرجہ ذیل برائیوں سے بچتے ہوئے نیکیوں اور بھلائیک و قائم کرے کیونکہ یہ تمام برائیاں جن کو بیان کیا گیا ہے تمہارے رب کے نزدیک سخت ناپسندیدہ ہیں۔ بیان کئے گئے تمام اخلاقی اصولوں کا خلاصہ یہ ہے کہ (1) اللہ کے سوا کسی کی عبادت و بندگی نہ کرو۔ (2) ماں باپ کی اطاعت و فرماں برداری کرو۔ (3) رشتہ داروں مسکینوں اور مسافروں کے حقوق ادا کرو۔ (4) اگر کسی ضرورت مند کو فی الحال دینے کے لئے کچھ نہ ہو تو اس سے ترشیا ور سختی کے بجائے نرمی سے کہہ دو ۔ (5) مال کے خرچ کرنے میں نہ تو کنجوسی کرو اور نہ اس قدر فراخ دل بن جاؤ کہ خود ہی دوسروں کیم حتاج بن کر رہ جاؤ، اعتدال کا راستہ سب سے اچھا راستہ ہے۔ (6) اپنی اولاد کو غربت و افلاس اور ناداری کے خوف سے قتل نہ کرو۔ (7) زنا اور بد کاری کے ہر راستہ سے بچو کیونکہ یہ بدترین راستوں کی طرف لے جاتا ہے۔ (8) بےحیائی کے کاموں سے دور رہو۔ (9) ناحق دوسروں کا خون نہ بہاؤ۔ (10) یتیم بچوں کے مال کی حفاظت کرو اور اس میں بےجا تصرف نہ کرو۔ (11) عہد و پیمان کو پورا کرو۔ (12) ماپ تول میں کمی نہ کرو۔ (13) سنی سنائی بےتحقیق باتوں کے پیچھے نہ لگو۔ (14) زمین پر اکڑ کر نہ چلو کیونکہ نہ تو تم زمین کو پھاڑ سکتے ہو اور نہ پہاڑوں سے اونچے ہو سکتے ہو یعنی عاجزی و انکساری اختیار کرو۔ فرمایا کہ اے نبی ﷺ ! یہ جتنی باتیں ہم نے وحی کی ہیں ان کی بنیاد حکمت و دانئای ہے تاکہ ان پر عمل کیا جائے اور زندگی کا صحیح راستہ تلاش کر کے اس پر چلا جائے۔ انسان کی سب سے بڑی عقل مندی اور سمجھ داری یہ ہے کہ وہ صرف اللہ کو ماننے والا، شرک سے دور اور اسی کی عبادت و بندگی کرنے والا ہو جس نے اس کو پیدا کیا ہے کیونکہ اگر کفر و شرک کا راستہ اختیار کیا جائے گا تو وہ بدعملی اس کو جہنم کے اس گڑھے میں لے جا کر پھینک دے گی جہاں اللہ اور اس کے فرشتوں کی صرف لعنت ہوگی اور وہ آخرت میں سوائے ذلت و رسوائی کے دھکوں کے اوپر کچھ بھی حاصل نہ کرسکے گا۔
Top