بِسْمِ اللّٰهِ الرَّحْمٰنِ الرَّحِيْمِ
Ahkam-ul-Quran - Al-Anfaal : 1
یَسْئَلُوْنَكَ عَنِ الْاَنْفَالِ١ؕ قُلِ الْاَنْفَالُ لِلّٰهِ وَ الرَّسُوْلِ١ۚ فَاتَّقُوا اللّٰهَ وَ اَصْلِحُوْا ذَاتَ بَیْنِكُمْ١۪ وَ اَطِیْعُوا اللّٰهَ وَ رَسُوْلَهٗۤ اِنْ كُنْتُمْ مُّؤْمِنِیْنَ
يَسْئَلُوْنَكَ : آپ سے پوچھتے ہیں عَنِ : سے الْاَنْفَالِ : غنیمت قُلِ : کہ دیں الْاَنْفَالُ : غنیمت لِلّٰهِ : اللہ کیلئے وَالرَّسُوْلِ : اور رسول فَاتَّقُوا : پس ڈرو اللّٰهَ : اللہ وَاَصْلِحُوْا : اور درست کرو ذَاتَ : اپنے تئیں بَيْنِكُمْ : آپس میں وَاَطِيْعُوا : اور اطاعت کرو اللّٰهَ : اللہ وَرَسُوْلَهٗٓ : اور اس کا رسول اِنْ : اگر كُنْتُمْ : تم ہو مُّؤْمِنِيْنَ : مومن (جمع)
(اے محمد ﷺ ! مجاہد لوگ) تم سے غنیمت کے مال کے بارے میں دریافت کرتے ہیں (کہ کیا حکم ہے) کہہ دو کہ غنیمت خدا اور اس کے رسول کا مال ہے۔ تو خدا سے ڈرو اور آپس میں صلح رکھو۔ اور اگر ایمان رکھتے ہو تو خدا اور اس کے رسول کے حکم پر چلو۔
سورة الانفال مال غنیمت اور اس کے احکام ابوبکر حبصاص کہتے ہیں کہ حضرت ابن عباس ؓ مجاہد، ضحاک ، قتادہ، عکرمہ اور عطاء کا قول ہے کہ انفال غنائم کو کہتے ہیں۔ عطاء نے حضرت ابن عباس ؓ سے ایک اور روایت کی ہے کہ انفال ان تمام چیزوں کا نام ہے جو مشرکین سے قتال کے بغیر مسلمانوں کے ہاتھ لگیں خواہ وہ کوئی سواری ہو غلام یا مال ومتاع۔ اسی لئے حضور ﷺ کو یہ اختیار تھا کہ آپ ان چیزوں کو جہاں چاہیں کھپا دیں۔ مجاہد سے ایک روایت ہے کہ انفال خمس یعنی مال غنیمت کے پانچویں حصے کو کہتے ہیں جو ان لوگوں کا حق ہوتا ہے جنہیں اللہ تعالیٰ نے ان کا حق دار ٹھہرایا ہے جن کا قول ہے کہ انفال کا تعلق ان فوجی دستوں سے تھا جو اصل فوج کے آگے آگے ہوتے تھے۔ لغت میں نفل اس چیز کو کہتے ہیں جو اصل حق سے زائد ہوتی ہے۔ اسی سے نافلہ کا لفظ بنا ہے جو تطوع کے معنوں میں استعمال ہوتا ہے ہمارے نزدیک نفل مال غنیمت محفوظ کرلینے سے پہلے دیا جاتا ہے لیکن اس کے بعد یہ صرف پانچویں حصے سے دیا جاسکتا ہے۔ وہ اس طرح کہ سپہ سالار یا امام کسی سر یہ یعنی فوجی دستے سے کہہ دے کر خمس نکالنے کے بعد تمہارے لئے چوتھائی حصہ ہوگا۔ یاخمس نکالنے سے پہلے پورے مال غنیمت میں سے چوتھائی حصہ ہوگا یا یوں اعلان کر دے کہ جس شخص کو جو چیز ہاتھ لگے وہ اس کی ہوگی، یہ بات قتال پر ابھارنے اور دشمن کے خلاف بھڑکانے کی خاطر کہی جائے۔ یا یوں کہے کہ جس شخص نے کسی دشمن کو قتل کردیا اسے اس کا سارا سامان یعنی سلب مل جائے گا لیکن جب مال غنیمت محفوظ کرلیا جائے تو پھر امام کے لئے لشکر کے حصے میں سے کسی کو بطور نفل کچھ دینا جائز نہیں ہوگا۔ تاہم اس کے لئے پانچویں حصے میں سے کسی کو بطور نفل کچھ دے دینا بھی جائز ہوگا۔ اس آیت کے نزول کے سبب کے متعلق اختلاف رائے ہے۔ حضرت سعد ؓ سے مروی ہے کہ انہوں نے فرمایا : جنگ بدر میں ایک تلوار میرے ہاتھ لگی میں اسے لے کر حضور ﷺ کے پاس آگیا اور عرض کیا کہ یہ تلوار مجھے بطور نفل دے دیجئے “۔ آپ ﷺ نے یہ سن کر فرمایا کہ اسے تم نے جہاں سے اٹھایا ہے وہیں لے جا کر رکھ دو “۔ اس پر یہ آیت نازل ہوئی یسئلونک عن الانفال۔ تم سے انفال کے متعلق پوچھتے ہیں۔ پھر حضور ﷺ نے مجھے بلا کر فرمایا کہ جائو اور جا کر اپنی تلوار لے لو “۔ معاویہ بن صالح نے علی بن ابی طلحہ سے اور انہوں نے حضرت ابن عباس ؓ سے قول باری یسئلونک عن الانفال کی تفسیر میں روایت کی ہے کہ انہوں نے فرمایا :” انفال ان غنائم کا نام تھا جو صرف حضور ﷺ کے لئے مخصوص ہوتے تھے اور ان میں کسی اور کا کوئی حصہ نہیں ہوتا تھا۔ پھر اللہ تعالیٰ نے یہ آیت نازل فرمائی واعلموا انما غنمتم من شئی فان اللہ خمسہ وللرسول اور تمہیں معلوم ہو کہ جو کچھ مال غنیمات تم نے حاصل کیا ہے ان کا پانچواں حصہ اللہ اور اس کے رسول ﷺ ……کا ہے) تا آخر آیت۔ ابن جریج نے کہا ہے کہ مجھے سلیمان نے مجاہد سے یہ بات بتائی ہے۔ حضرت عبادہ بن الصامت ؓ اور حضرت ابن عباس ؓ اور دیگر حضرات کا قول ہے کہ حضور ﷺ نے معرکہ بدر کے دن مختلف انفال تقسیم کئے آپ ﷺ نے فرمایا جس شخص کو کوئی چیز ہاتھ لگی ہو وہ اس کی ہے “۔ اس پر صحابہ کرام کے درمیان اختلاف پیدا ہوگیا، کچھ لوگ تو اس بارے میں ہماری رائے رکھتے تھے جبکہ کچھ دوسرے حضرات یہ کہتے تھے کہ ہم نے حضور ﷺ کی حفاظت کی اور آپ ﷺ کے گرد اپنی جانوں کا حلقہ باندھ دیا جب ہمارے اختلافات بڑھ گئے اور ہمارے اخلاق بگڑ گئے تو اللہ تعالیٰ نے وہ سارا مال ہمارے ہاتھوں سے چھین کر اپنے رسول ﷺ کے حوالے کردیا جسے آپ ﷺ نے خمس نکالنے کے بعد تمام لوگوں میں تقسیم کردیا۔ اس میں تقویٰ اور حضور ﷺ کی اطاعت اور آپس کے تعلقات کو درست کرنے کی بات تھی) اس لئے کہ اللہ تعالیٰ نے فرمایا یسئلونک عن الانفال قل لانفال للہ وللرسول) حضرت عبادہ بن الصامت فرماتے ہیں کہ حضور ﷺ نے فرمایا تھا لیروقوی المسلمین علی ضعیفھم۔ مسلمانوں میں سے جو قوی اور طاقت ور ہیں وہ کمزوروں پر اس مال کو لوٹا دیں) اعمش نے ابوصالح سے اور انہوں نے حضرت ابوہریرہ ؓ سے روایت کی ہے کہ حضور ﷺ نے فرمایا تھا تم سے پہلے سیاہ سر رکھنے والی کسی قوم کے لئے مال غنیمت حلال نہیں تھا۔ آسمان سے ایک آگ اترتی اور مال غنیمت کو جلا دیتی “۔ حضرت ابوہریرہ ؓ فرماتے ہیں کہ معرکہ بدر کے دن لوگوں نے مال غنیمت کے لئے بڑی جلد بازی کا مظاہرہ کیا اس پر اللہ تعالیٰ نے یہ آیت نازل فرمائی لولاکتاب من اللہ سبق لمستکم فیما اخذتم عذاب عظیم فکلوا مما غنمتم حلالاً طیباً اگر اللہ کا نوشتہ پہلے نہ لکھا جا چکا ہوتا تو جو کچھ تم لوگوں نے کیا ہے اس کی پاداش میں تم کو بڑی سزا دی جاتی۔ پس جو کچھ تم نے حاصل کیا ہے اسے کھائو کہ وہ حلال اور پاک ہے) ۔ حضرت عبادہ ؓ اور حضرت ابن عباس ؓ کی روایت میں یہ ذک رہے کہ حضور ﷺ نے معرکہ بدر کے دن جنگ شروع ہونے سے قبل اعلان فرمایا تھا ” جو چیز کسی کے ہاتھ آئے وہ اس کی ہوگی “۔ نیز ” جو شخص کسی کو قتل کر دے گا اس کا سامان اسے مل جائے گا “۔ اور قول کے مطابق یہ بات غلط ہے بلکہ حضور ﷺ نے معرکہ حنین کے روز یہ اعلان فرمایا تھا من قتل قتیلا فلہ سلبہ جو شخص کسی کو قتل کرے گا اس کا سامان اسے مل جائے گا) درج بالا بات کے غلط ہونے کی وجہ یہ ہے کہ حضور ﷺ سے یہ مروی ہے کہ آپ نے فرمایا تھا لم تحل الغنائم لقوم سودالروس غیرکم۔ تمہارے سوا سیاہ سر رکھنے والی کسی قول کے لئے مال غنیمت حلال نہیں تھا) نیز یہ کہ قول باری یسئلونک عن الانفال) کا نزول میدان بدر میں مال غنیمت سمیٹ لینے کے بعد ہوا تھا۔ اس سے ہمیں یہ بات معلوم ہوئی کہ جن حضرات نے یہ نقل کیا ہے کہ حضور ﷺ نے جنگ شروع ہونے سے پہلے جو چیز جس کے ہاتھ لگی تھی وہ اسے بطور نفل دے دی تھی ان کی یہ روایت غلط ہے کیونکہ مال غنیمت کی اباحت جنگ کے بعد ہوئی تھی۔ اس بات کے غلط ہونے پر یہ امر بھی دلالت کرتا ہے کہ حضور ﷺ نے فرمایا تھا من اخذشیئاً فھولہ) نیز فرمایا تھا من قتل قتیلاً فلہ کذا) پھر آپ ﷺ نے مال غنیمت لوگوں کے درمیان مساوی طور پر تقسیم کردیا۔ اس روایت کے غلط ہونے کا یہیں سے پتہ چلتا ہے کیونکہ حضور ﷺ کی ذات سے وعدہ خلافی کا تصور بھی نہیں کیا جاسکتا ہے اور نہ ہی یہ سوچا جاسکتا ہے کہ آپ ایک شخص کے لئے کوئی چیز مخصوص کردیں اور پھر اس سے وہ چیز لے کر کسی اور کو دے دیں اس بارے میں درست بات یہ ہے کہ جنگ شروع ہونے سے پہلے حضور ﷺ کی طرف سے مال غنیمت کے متعلق کوئی اعلان نہیں ہوا تھا۔ پھر جب مسلمان جنگ سے فارغ ہوگئے اور مال غنیمت کی تقسیم کے سلسلے میں تنازعہ اٹھ کھڑا ہوا تو اللہ تعالیٰ نے یہ آیت نازل فرمائی یسئلونک عن الانفال) اللہ تعالیٰ نے مال غنیمت کا معاملہ حضور ﷺ کے سپرد کردیا کہ اس میں جس کو جتنا چاہیں دے دیں آپ ﷺ نے سارا مال لوگوں کے درمیان مساوی طور پر تقسیم کردیا۔ پھر یہ حکم اس قول باری کے ذریعہ منسوخ کردیا گیا (واعلموا انما غنمتم من شئی) تا آخر آیت جیسا کہ حضرت ابن عباس ؓ اور مجاہد سے مروی ہے کہ آپ نے پانچواں حصہ اپنے اہل کو اور ان مسلمانوں کو دے دیا جن کا آیت میں ذکر ہے اور باقی چار حصے جنگ میں شریک ہونے والوں کے درمیان تقسیم کردیئے حضور ﷺ نے سوار اور پیدل سپاہی کے حصول کی بھی وضاحت فرما دی تھی۔ مال غنیمت اکٹھا کرلینے سے پہلے کسی کو بطور نفل کچھ دے دینے کا حکم باقی رہ گیا۔ مثلاً امام یا سالار لشکر یہ اعلان کر دے “۔ جو شخص کسی دشمن کو قتل کر دے گا اس کا سامان اسے مل جائے گا “ یا ” جو چیز کسی کے ہاتھ آجائے گی وہ اس کی ہوگی “۔ اسی طرح خمس میں سے کسی کو بطور نفل کچھ دے دینے کا حکم بھی باقی رہ گیا، اسی طرح قتال کے بغیر مشرکین کا کوئی گرا پڑا مال بھی اسی حکم کے تحت رہا۔ یہ تمام مال نفل کے ذیل میں آتا تھا اور حضور ﷺ کو یہ اختیار تھا کہ اس میں سے جس کو جتنا چاہیں دے دیں۔ اس نفل کا حکم منسوخ ہوگیا تھا جو مال غنیمت اکٹھا ہوجانے کے بعد خمس کے ماسوا باقی ماندہ چار حصوں میں سے کسی کو دے دیا جاتا۔ غزوہ بدر میں ہاتھ آنے والے مال غنیمت کی تقسیم حضور ﷺ نے اپنی صوابدید کے مطابق کی تھی اور وہ تقسیم اس طرح نہیں تھی جس طرح اب غنائم کی تقسیم ہوتی ہے اس پر یہ بات دلالت کرتی ہے کہ حضور ﷺ نے بدر کے موقع پر سارا مال غنیمت جنگ کے شرکاء میں مساوی طور پر تقسیم کردیا تھا اور اس میں سے خمس بھی علیحدہ نہیں کیا تھا۔ اس موقع پر جو تقسیم ہوئی وہ اگر اس تقسیم کے مطابق ہوتی جس پر تقسیم غنائم کے حکم کو استقرار ہوگیا تھا تو پھر آپ خمس ضرور نکالتے اور سوار سپاہی کو پیدل سپاہی سے زیادہ حصہ دیتے۔ اس موقع پر پورے لشکر میں صرف دو گھوڑے تھے۔ ایک حضور ﷺ کا اور دوسرا حضرت مقداد ؓ بن الاسود کا۔ جب آپ ﷺ نے غنائم بدر کو تمام شرکاء کے درمیان مساوی طور پر تقسیم کردیا تو ہمیں اس سے یہ بات معلوم ہوگئی کہ قول باری قل الانفال للہ والرسول) تقسیم غنائم کا معاملہ حضور ﷺ کو تفویض کرنے کا مقتضی ہے تاکہ اپنی صوابدید کے مطابق جس کو جتنا چاہیں دے دیں پھر مال غنیمت محفوظ کرلینے کے بعد کسی کو بطور نفل کچھ دینے کا حکم منسوخ ہوگیا لیکن مال غنیمت کو محفوظ کرلینے سے قبل لشکر اسلامی کو قتال پر ابھارنے اور انہیں دشمنوں کے خلاف پر انگیختہ کرنے کی خاطر کسی کو بطور نفل کچھ دے دینے کا حکم باقی رہ گیا۔ اسی طرح اس مال کو بطور نفل دینے کا حکم بھی باقی رہ گیا جو قتال کے بغیر مسلمانوں کے ہاتھ آجائے نیز اس مال کا بھی جس کی تقسیم نہ ہوسکتی ہو اور اس کے ساتھ خمس میں سے کسی کو کچھ دے دینے کا حکم بھی۔ یوم بدر کے موقع پر حضور ﷺ نے یہ اعلان نہیں کیا تھا کہ من اصاب شیئاً فھولہ جو شے کسی کے ہاتھ آجائے وہ اس کی ہوگی) یا یہ کہ آپ ﷺ نے یہ فرمایا تھا کہ من قتل قتیلاً فلہ سلبہ۔ جو شخص دشمن کے کسی آدمی کو قتل کر دے گا اسے مقتول کا سامان مل جائے گا۔ جس روایت میں یہ ذکر ہے کہ آپ ﷺ نے یوم بدر کے موقع پر یہ دونوں اعلانات کئے تھے اس کے غلط ہونے پر یہ روایت دلالت کرتی ہے جو ہمیں محمد بن بکر نے سنائی۔ انہیں ابودائود نے انہیں ہناد بن السری نے ابوبکر سے انہوں نے عاصم سے انہوں نے مصعب بن سعد سے انہوں نے اپنے والد سے وہ فرماتے ہیں کہ میں معرکہ بدر کے موقع پر ایک تلوار لے کر حضور ﷺ کی خدمت میں آیا اور عرض کیا :” اللہ کے رسول، آج اللہ تعالیٰ نے دشمنوں کے خلاف میرے دل میں لگی ہوئی آگ کو ٹھنڈا کردیا ہے اس لئے یہ تلوار مجھے بطور ہبہ عطا کر دیجئے۔ یہ سن کر آپ ﷺ نے فرمایا :” یہ تلوار نہ میری ہے اور نہ تمہاری “۔ جب آپ ﷺ نے یہ فرمایا تو میں یہ سوچتے ہوئے واپس چلا گیا کہ آج یہ تلوار اس شخص کو مل جائے گی جس کی کارکردگی مجھ سے کم تر ہوگی۔ میں ابھی اسی سوچ میں تھا کہ اتنے میں حضور ﷺ کا قاصد مجھے بلانے آگیا میں نے سوچا کہ جو گفتگو میں نے آپ سے کی تھی اس کے متعلق شاید میرے بارے میں خدا کی طرسے کوئی حکم نازل ہوا ہے چناچہ میں حاضر ہوگیا مجھے دیکھتے ہی آپ ﷺ نے فرمایا :” تم نے مجھ سے یہ تلوار مانگی تھی اس وقت تک یہ تلوار نہ میر ی تھی نہ تمہاری، اب اللہ تعالیٰ نے اسے میری ملکیت میں دے دیا ہے اس لئے میں اسے تمہیں دیتا ہوں “۔ پھر آپ نے یہ آیت تلاوت فرمائی۔ یسئلونک عن الانفال قل الانفال للہ والرسول) حضور ﷺ نے یہ بات بتادی کہ سورة انفال کے نزول سے پہلے وہ تلوار نہ تو آپ کی ملکیت تھی نہ حضرت سعد ؓ کی۔ پھر جب اللہ تعالیٰ نے یہ معاملہ آپ ﷺ کے ہاتھ میں دے دیا تو آپ ﷺ نے اس کی ملکیت کے لئے حضرت سعد کو ترجیح دی۔ اس پوری روایت میں اس روایت کے فساد کی دلیل موجود ہے جس میں یہ ذکر ہے کہ حضور ﷺ نے جنگ شروع ہونے سے پہلے لوگوں کو بطور نفل کچھ دینے کا اعلان ان الفاظ میں فرمایا تھا کہ من اخذشیئاً فھولہ)
Top