Ahkam-ul-Quran - Yaseen : 78
وَ ضَرَبَ لَنَا مَثَلًا وَّ نَسِیَ خَلْقَهٗ١ؕ قَالَ مَنْ یُّحْیِ الْعِظَامَ وَ هِیَ رَمِیْمٌ
وَضَرَبَ : اور اس نے بیان کی لَنَا : ہمارے لیے مَثَلًا : ایک مثال وَّنَسِيَ : اور بھول گیا خَلْقَهٗ ۭ : اپنی پیدائش قَالَ : کہنے لگا مَنْ يُّحْيِ : کون پیدا کرے گا الْعِظَامَ : ہڈیاں وَهِىَ : اور جبکہ وہ رَمِيْمٌ : گل گئیں
اور ہمارے بارے میں مثالیں بیان کرنے لگا اور اپنی پیدائش کو بھول گیا کہنے لگا کہ (جب) ہڈیا بوسیدہ ہوجائیں گی تو ان کو کون زندہ کرے گا ؟
کسی چیز کو پہلی بار پیدا کرنا مشکل، دوبارہ آسان ہوتا ہے قول باری ہے (قال من یحی العظام وھی رمیم کہنے لگا ہڈیاں جب بوسیدہ ہوجائیں تو انہیں کون زندہ کرے گا ؟ ) پھر ارشاد ہوا (قل یحیھا الذی انشاھا اول مرہ۔ آپ کہہ دیجئے انہیں وہی زندہ کرے گا جس نے انہیں اول بار پیدا کیا تھا) اس میں اس بات کی واضح ترین دلیل موجود ہے کہ جو ذات ابتداء کرنے پر قادر ہے وہ اعادے پر زیادہ قادر ہوتی ہے۔ کیونکہ ظاہری طور پر کسی چیز کا اعادہ کرنا اس کی ابتدا کرنے سے زیادہ سہل ہوتا ہے۔ اس لئے جو ذات شروع میں کسی چیز کو پیدا کرنے کی قدرت رکھتی ہے وہ اس صورت میں اس چیز کو دوبارہ پیدا کرنے پر زیادہ قادر ہوتی ہے جس میں اس چیز کی بقا ممکن ہوتی ہے محال نہیں ہوتی۔ اس میں یہ دلالت بھی موجود ہے کہ قیاس اور اعتبار کو تسلیم کرنا واجب ہے اس لئے کہ اللہ تعالیٰ نے منکرین پر نشاۃ ثانیہ کو نشاۃ اولیٰ پر قیاس کرنا لازم کردیا ہے۔ بعض حضرات نے قول باری (قال من حیی العظام وھی رمیم) سے یہ استدلال کیا ہے کہ ہڈیوں میں زندگی ہوتی ہے۔ انہوں نے اصل جسم کی موت کی بنا پر ہڈیوں پر موت کا حکم لگایا ہے اور انہیں مروہ قرار دیا ہے، لیکن یہ کوئی پائدار بات نہیں ہے ۔ کیونکہ اللہ تعالیٰ نے مجازاً ہڈی کو زندہ کا نام دیا ہے۔ اس لئے کہ ہڈی بھی ایک عضو ہے جسے زندہ کیا جائے گا۔ جس طرح یہ قول باری ہے ( یحی الارض بعد موتھا۔ اللہ تعالیٰ زمین کو اس کی موت کے بعد زندہ کرتا ہے) حالانکہ یہ بات واضح ہے کہ زمین میں کوئی زندگی نہیں ہوتی۔
Top