Ahkam-ul-Quran - At-Tawba : 35
یَّوْمَ یُحْمٰى عَلَیْهَا فِیْ نَارِ جَهَنَّمَ فَتُكْوٰى بِهَا جِبَاهُهُمْ وَ جُنُوْبُهُمْ وَ ظُهُوْرُهُمْ١ؕ هٰذَا مَا كَنَزْتُمْ لِاَنْفُسِكُمْ فَذُوْقُوْا مَا كُنْتُمْ تَكْنِزُوْنَ
يَّوْمَ : جس دن يُحْمٰي : تپایا جائے گا عَلَيْهَا : اس پر فِيْ : میں نَارِ جَهَنَّمَ : جہنم کی آگ فَتُكْوٰي بِهَا : پھر داغا جائے گا اس سے جِبَاهُهُمْ : ان کی پیشانی (جمع) وَجُنُوْبُهُمْ : اور ان کے پہلو (جمع) وَظُهُوْرُهُمْ : اور ان کی پیٹھ (جمع) هٰذَا : یہ ہے مَا : جو كَنَزْتُمْ : تم نے جمع کرکے رکھا لِاَنْفُسِكُمْ : اپنے لیے فَذُوْقُوْا : پس مزہ چکھو مَا : جو كُنْتُمْ تَكْنِزُوْنَ : تم جمع کرکے رکھتے تھے
جس دن وہ مال دوزخ کی آگ میں (خوب) گرم کیا جائے گا پھر اس سے ان (بخیلوں) کی بیشانیاں اور پہلو اور پیٹھیں داغی جائیں گی (اور کہا جائے گا کہ) یہ وہی ہے جو تم نے اپنے لئے جمع کیا تھا سو جو تم جمع کرتے تھے (اب) اس کا مزہ چکھو۔
مہینوں کی تعداد اور ترتیب، روز اول سے مقرر ہے قول باری ہے (ان عدۃ الشھود عند اللہ اثنا عشر شھراً فی کتٰب اللہ یوم خلق السموت والارض منھا اربعۃ حرم۔ حقیقت یہ ہے کہ مہینوں کی تعداد جب سے اللہ نے آسمان و زمین کو پیدا کیا ہے اللہ کے نوشتے میں بارہ ہی ہے اور ان میں سے چار مہینے حرام ہیں) اللہ تعالیٰ نے دیگر مواقع پر فرمایا (الحج اشھر معلومات حج کے معلوم مہینے ہیں/ نیز فرمایا (یسئلونک عن الاھلۃ قلھی مواقیت للناس والحج۔ آپ سے چاند کے گھٹنے بڑھنے کے بارے میں پوچھتے ہیں آپ کہہ دیجئے یہ لوگوں کے لئے تاریخوں کی تعیین کی اور حج کی علامتیں ہیں) اور مہینوں کے ساتھ لوگوں کے بہت سے دینی اور دنیوی مصالح کو معلق کردیا پھر اس آیت میں ان مہینوں کی تعداد واضح طور پر بیان کردی اور یہ بتادیا کہ یہ بارہ مہینے ایک ہی ڈگر پر آتے جاتے ہیں۔ ان میں سے آگے آن والا مہینہ پیچھے نہیں جاتا اور پیچھے آنے والا آگے نہیں آتا۔ قول باری (ان عدۃ الشھور عنداللہ) کے اندر دومعنوں کا احتمال ہے۔ ایک تو یہ کہ اللہ تعالیٰ نے ان مہینوں کو وضع کیا اور انہیں ان کے ناموں سے اسی ترتیب کے ساتھ موسوم کردیا جو ترتیب اس نے آسمان و زمین کی پیدائش کے دن دی تھی اور پھر اسے اپنے انبیاء پر اپنی بھیجی ہوئی کتابوں کے ذریعے نازل کردیا تھا۔ قول باری (ان عدۃ الشھور عند اللہ) کے یہی معنی ہیں۔ ان مہینوں کی ترتیب کا حکم علی حالہ باقی ہے۔ مشرکین اپنے طور پر ان مہینوں کے ناموں میں تبدیلی کرلیتے تھے اور ان کے ناموں میں تقدیم و تاخیر کرکے مہینوں کو آگے پیچھے کردیتے تھے لیکن مشرکین کے اس عمل سے مہینوں کی ترتیب کی صورت ختم نہیں ہوئی اور یہ ترتیب بحالہ باقی رہی۔ اللہ تعالیٰ نے ہمارے سامنے یہ سب باتیں اس لئے بیان کردیں کہ ہم مہینوں کے بارے میں اللہ کے حکم کی اتباع کریں اور ان کے متعلق زمانہ جاہلیت کے طرز عمل کو ٹھکرادیں جس کے تحت مشرکین مہینوں کے ناموں میں تقدیم و تاخیر کرلیتے تھے اور پھر ان تبدیل شدہ ناموں کے ساتھ احکام کو معلق کردیتے تھے۔ اسی بنا پر حضور ﷺ نے حجۃ الوداع کے موقع پر حضرت ابن عمر ؓ اور حضرت ابوبکر ؓ کی روایت کے مطابق منیٰ میں عقبہ کے مقام پر خطبہ دیتے ہوئے فرمایا تھا (ایھا الناس ان الزمان قد استداد۔ زمانہ اپنی اصلی حالت کی طرف پلٹ آیا ہے) حضرت ابن عمر ؓ کی روایت کے مطابق آپ نے فرمایا (فھو کئیتہ یوم خلق السموات والارض۔ اب وہ اپنی اس حالت پر ہے جس پر وہ زمین و آسمان کی پیدائش کے دن تھا) اور حضرت ابوبکر ؓ کی روایت کے مطابق آپ نے فرمایا (قد استداد کھیئۃ یوم خلق السماوات والارض وان عدۃ الشھور عند اللہ اثنا عشر شھرا منھا اربعۃ حرم ثلاث متوالیات ذوالقعدہ وذو الحجۃ والمحرم ورجب مضر الذی بین جمادی و شعبان وان انسی و زیادۃ فی الکفر۔ زمانہ اپنی اس حالت کی طرف پلٹ آیا ہے جس پر وہ آسمانوں اور زمین کی پیدائش کے دن تھا، اللہ کے نزدیک یعنی اس کے نوشتہ میں مہینوں کی تعداد بارہ ہے جن میں چار حرام مہینے ہیں۔ تین پے در پے آتے ہیں یعنی ذیقعدہ ، ذی الحجہ اور محرم، اور قبیلہ سفر کا رجب جو جمادی الآخر اور شعبان کے درمیان ہے۔ نیز نسی تو کفر میں ایک مزید کا فرانہ حرکت ہے) حضرت ابن عمر ؓ فرماتے ہیں کہ حضور ﷺ نے یہ اس لئے فرمایا کہ زمانہ جاہلیت میں مشرکین صفر کے مہینے کو ایک سال حرام قرار دیتے اور ایک سال حلال۔ اسی طرح محرم کو ایک سال حرام قرار دیتے ایک سال حلال، نسی (اس کی وضاحت آگے آرہی ہے) کا یہ چکر شیطانی عمل تھا۔ حضور ﷺ نے بتادیا کہ زمانہ یعنی مہینوں کا زمانہ اپنی اس حالت پر لوٹ آیا ہے جس پر وہ آسمان و زمین کی پیدائش کے دن تھا، اور یہ کہ ہر مہینہ اپنے اس مقام پر واپس آگیا ہے جس پر اللہ نے اپنی ترتیب اور اپنے نظام کے لحاظ سے اسے رکھا تھا۔ مجھ سے ایک شخص نے جس کا تعلق ایک نجومی کے خاندان سے تھا، یہ ذکر کیا کہ اس کے دادا نے میرے خیال میں یہ محمد بن موسیٰ منجم تھا جس کی طرف اس خاندان والے اپنی نسبت بیان کرتے ہیں۔ قمری مہینوں کا اس دن سے حساب لگایا تھا جس دن اللہ تعالیٰ نے آسمان و زمین کی تخلیق کی تھی، اس نے یہ دریافت کیا کہ قمری مہینے سورج اور چاند دونوں کے حساب سے اس وقت کی طرف پلٹ آئے تھے جس کا ذکر حضور ﷺ نے ان الفاظ میں کیا تھا کہ یوم النحر یعنی دسویں ذی الحجہ کو وقت اپنی اصلی حالت کی طرف پلٹ آیا ہے۔ یہ حجۃ الوداع کا یوم النحر تھا۔ اس لئے کہ آپ نے یہ بات منیٰ میں عقبی کے مقام پر اپنے خطبے میں فرمائی تھی۔ مذکورہ بالا منجم نے آٹھ سال میں یہ حساب لگایا تھا۔ اس طرح اس سال کے ذی الحجہ کا دسواں روز یعنی یوم النحر ٹھیک اسی دن آیا تھا جس دن یہ مہینوں یعنی زمانہ کے آغاز کے وقت سے واقع ہوتا چلا آتا تھا۔ نیز سورج اور چاند بھی اس دن اسی مقام پر تھے جس کے بارے میں حضور ﷺ نے فرمایا تھا کہ زمانہ مشرکین کے نسی اور مہینوں کے ناموں کی تبدیلی کی وجہ سے اس مقام سے ہٹ گیا تھا اور پھر اس سال یوم النحر کو اپنے اصلی مقام پر واپس آگیا ہے۔ اسی بنا پر حضرت ابوبکر ؓ نے جس سال حج کیا تھا اس سال حج اس دن نہیں ہوا تھا جو حج کے لئے زمانے کی ابتدا سے مقرر کیا گیا تھا۔ حضور ﷺ نے رجب کا ذکر کرتے ہوئے قبیلہ مضر کی طرف اس کی نسبت کی اور فرمایا کہ یہ وہ رجب ہے جو جمادی الآخر اور شعبان کے درمیان آتا ہے اس سے رمضان کے مہینے کی نفی مراد تھی جسے قبیلہ ربیعہ رجب کا نام دیتے تھے۔ قول باری (ان عدۃ الشھور عند اللہ اثنا عشر شھراً فی کتاب اللہ) کی دوسری توجیہ یہ ہے کہ اللہ تعالیٰ نے زمانے کو بارہ حصوں میں تقسیم کرکے ان کے برجوں میں سے ہر ایک برج میں سورج گا نزول متعین کردیا۔ اس طرح سورج آسمان کو تین سو پینسٹھ دنوں اور ایک چوتھائی دن میں عبور کرتا ہے۔ اس طرح ہر برج کے حصے میں دنوں کے حساب سے تیس دن اور ایک دن کی کوئی کسر آتی ہے۔ اسی طرح اللہ تعالیٰ نے زمانے کو چاند کی گردش کے حساب سے تقسیم کردیا۔ چاند آسمان کو ساڑھے انتیس دن میں قطع کرتا ہے۔ اللہ تعالیٰ نے قمری سال کے تین سوچون ون اور ایک چوتھائی دن بنائے۔ اس طرح سورج کا ایک برج کو قطع کرنا چاند کا پورے آسمان کو قطع کرنے کے تقریباً برابر ہوگیا۔ قول باری (الشمس والقمر بحسبان) سورج اور چاند تک حساب کے پابند ہیں نیز فرمایا (وجعلنا اللیل والنھار آیتین فمعونا ایۃ اللیل وجعلنا ایۃ النھار مبصرۃ لتبتغوا فضلاً من ربکم ولتعلموا عدد السنین والحساب۔ دیکھو ہم نے رات اور دن کو دو نشانیاں بنایا ہے۔ رات کی نشانی کو ہم نے بےنور بنادیا اور دن کی نشانی کو روشن کردیا تاکہ تم اپنے رب کا فضل تلاش کرسکو اور ماہ و سال کا حساب رکھ سکو) سال کو بارہ برجوں میں سورج کے نزول کے حساب سے تقسیم کردیا گیا اور اس طرح سال کے بارہ مہینے بن گئے۔ مہینہ میں دنوں کی تعداد تاہم شمسی اور قمری سالوں میں اس کسر کی بنا پر اختلاف ہوگیا جو ان دونوں کے درمیان آتی تھی۔ یہ کسر تقریباً بارہ دنوں کی تھی۔ قمری مہینے تیس اور انتیس دنوں کے ہوگئے ان ہی دنوں کے ساتھ شرعی احکام کا تعلق ہوتا تھا اس آدھے دن کا کوئی حکم نہیں تھا جو انتیس دنوں سے زائد ہوتا تھا۔ یہ تھی وہ تقسیم جس کی رو سے اللہ تعالیٰ نے اس کائنات کی تخلیق کے دن سے سال کے بارہ حصے بنادیئے تھے۔ پھر اس ترتیب کو ان امتوں نے بدل ڈالا جو اپنے انبیاء کی شریعتوں سے بہت دور جاچکی تھیں۔ رومی جنتری کے بعض مہینے اٹھائیس دنوں کے ہوتے تھے اور بعض ساڑھے اٹھائیس دنوں کے اور بعض اکتیس دنوں کے۔ یہ بات اللہ تعالیٰ کے اس حکم کے خلاف تھی جس کے ذریعے مہینوں کا اعتبار ان احکام کے لحاظ سے کیا جاتا تھا جن کا ان مہینوں کے ساتھ تعلق ہوتا تھا۔ پھر ایرانی تقویم کو لے لیجئے۔ اس کے تمام مہینے تیس دنوں کے ہیں، صرف ایک مہینہ جو باد ماہ کہلاتا ہے پینتیس دنوں کا تھا۔ اس تقویم میں ہر ایک سو بیس برس کے بعد پورا ایک مہینہ بڑھا دیا جاتا تھا اور اس طرح وہ سال تیرہ مہینوں کا ہوتا تھا۔ اللہ تعالیٰ نے اس آیت کے ذریعے یہ بتادیا کہ سال کے مہینوں کی تعداد با رہے نہ اس سے کم نہ اس سے زیادہ۔ یہ قمری مہینے ہیں جن میں مہینہ یا تو انتیس دنوں کا ہوتا ہے یا تیس دنوں کا۔ اسی بنا پر حضور ﷺ نے فرمادیا (الشھر تسع وعشرون والشھر ثلاثون۔ مہینہ انتیس دنوں کا ہوتا ہے اور مہینہ تیس دنوں کا) نیز فرمایا (صوموا الرئویتہ وافطروالزویتہ فان غم علیکم فعدو ثلاثین چاند دیکھ کر روزہ رکھو اور چاند دیکھ کر روزہ ختم کرو اگر کسی وجہ سے تمہیں چاند نظر نہ آئے تو تیس دن گن لو) آپ نے مہینے کے دنوں کے حساب کو رئویت ہلال پر مبنی کردیا۔ اگر بادل یا تاریکی کی بنا پر روئیت ہلال نہ ہوسکے تو پھر میہنہ تیس دنوں کا ہوگا۔ اللہ تعالیٰ نے ہمیں یہ بات اپنے قول (ان عدۃ الشھور عند اللہ اثنا عشر شھراً فی کتاب اللہ یوم خلق السموت والارض) کے ذریعے بتادی یعنی سال کے مہینوں کی تعداد بارہ ہے۔ اس پر کوئی اضافہ نہیں ہوگا۔ اس کے ذریعے کبیسہ یعنی لیپ کے سال کا تصور باطل کردیا جو ایرانی تقویم کا حصہ تھا جس کے مطابق ہر ایک سو بیس سال کے بعد ایک ماہ کا اضافہ کرکے اسے تیرہ ماہ کا سال بنادیتے تھے۔ حضور ﷺ نے یہ فرمادیا کہ مہینوں کا اختتام رئویت ہلال کے ذریعے ہوگا اس لئے کبھی انتیس دنوں پر مہینے کا اختتام ہوجائے گا اور کبیھ تیس دنوں پر۔ اللہ تعالیٰ نے ہمیں زیر بحث آیت کے ذریعے یہ بتادیا کہ ابتدائے آفرینش سے سالوں اور مہینوں کو درج بالا وضع پر رکھا گیا تھا۔ اور حضور ﷺ نے یہ اطلاع دی کہ زمانہ اپنے اصل وضع پر لوٹ آیا ہے اور اس کے ذریعے اس تبدیلی کو باطل قرار دے دیا جو مشرکین نے مہینوں کی ترتیب اور ان کے نظام میں پیدا کردی تھی۔ اسی طرح سالوں اور مہینوں کے اندر پیدا کردہ اضافے کو بھی باطل قرار دیا۔ نیز یہ بتادیا کہ ماہ و سال کی گردش کا معاملہ اب اس وضع پر آکر ٹھہر گیا ہے جو اللہ تعالیٰ نے شروع ہی سے اس کے لئے مقرر کردیا تھا۔ اس لئے کہ اللہ تعالیٰ کے علم میں یہ بات تھی۔ عبادات اور شرائع کے لحاظ سے لوگوں کے مصالح کا تحفظ اسی صورت میں ہوسکتا تھا کہ ماہ و سال کی گردش اپنے اصل ڈگر پر جاری رہے۔ اس طرح روزے کبھی موسم بہار میں آتے، کبھی گرمیوں میں، کبھی خزاں میں اور سردیوں میں یہی صورت حج کی ہوتی۔ اللہ تعالیٰ اس کی مصلحت سے باخبر تھا۔ ایک روایت کے مطابق عیسائیوں کے روزے بھی اسی طرح سال کے مختلف موسموں میں آتے تھے۔ لیکن جب وہ یہ دیکھتے کہ فلاں سال روزے گرمیوں میں آئیں گے تو وہ انہیں موسم بہار کی طرف منتقل کرلینے پر ایکا کرلیتے اور عدد میں اضافہ کردیتے۔ اس طرح قمری مہینوں کے اعتبار کا انہیں جس طرح پابند بنایا گیا تھا اس پابندی کو وہ توڑ دیتے، قمری مہینوں کے لحاظ سے انہیں اس امر کا پابند کیا گیا تھا کہ سال کے جس موسم میں جو مہینے آجائیں وہ ان مہینوں کا اس حیثیت سے اعتبار کرلیں۔ یہ چیز اور اس طرح کے دوسرے امور ایسے تھے جن کی خلاف ورزی پر اللہ تعالیٰ نے ان کی مذمت کی اور یہ بتایا کہ انہوں نے اللہ کو چھوڑ کر اپنے احبار اور رہبان کو اپنا رب بنالیا ہے کہ وہ ان کے اوامر کی پیروی کرتے ہیں اور ان کے وجوب کا اعتقاد رکھتے ہیں اللہ کے اوامر کے وجوب کا اعتقاد نہیں رک تھے، اس طرح خود بھی گمراہ ہوگئے اور دوسروں کو بھی گمراہی میں مبتلا کرگئے۔ قول باری (منھا اربعۃ حرم) سے مراد وہ مہینے ہیں جو حضور ﷺ کے ارشاد کے مطابق یہ ہیں۔ ذیقعدہ، ذی الحجہ ، محرم اور رجب، عرب کے لوگ کہتے تھے۔ ” ثلاثۃ سردو واحد فرد “ (تین مہینے مسلسل ہیں اور ایک تنہا ہے) ۔ حرمت کے مہینوں کی علت اللہ تعالیٰ نے دو وجوہ کی بنا پر انہیں حرام مہینے قرار دیا ہے۔ ایک وجہ تو یہ ہے کہ ان مہینوں میں قتال کی حرمت تھی۔ زمانہ جاہلیت میں مشرکین بھی ان میں قتال کو حرام سمجھتے تھے۔ قول باری ہے (یسئلونک عن الشھرا الحرام قتال فیہ قل قتال فیہ کبیر۔ آپ ﷺ سے ماہ حرام میں قتال کے متعلق پوچھتے ہیں آپ کہہ دیجئے کہ اس میں قتال بہت بڑا گناہ ہے) دوسری وجہ یہ ہے کہ ان مہینوں میں اللہ تعالیٰ کے محارم (ایسی چیزیں جن کی پردہ دری جائز نہ ہو) کی بےحرمتی کا گناہ دوسرے مہینوں کی بہ نسبت بڑھ کر ہے۔ جس طرح ان مہینوں میں طاعات کا ثواب دوسرے مہینوں کے مقابلہ میں زیادہ ہے۔ اللہ تعالیٰ نے ان مہینوں کو یہ مرتبہ اس لئے عطا کیا کہ اس میں بندوں کی بھلائی اور ان کی مصلحت پوشیدہ ہے۔ وہ اس طرح کہ بندے جب ان مہینوں کی اللہ کے ہاں عظمت کے پیش نظر ظلم و ستم اور قتل و قتال سے باز رہیں گے اور اس کی بجائے اللہ کی طاعات یعنی عمرہ و حج، نماز و روزہ وغیرہ کی طرف سبقت کریں گے تو اس کے نتیجے میں انہیں دنیوی اور اخروی دونوں فوائد حاصل ہوں گے جس طرح بعض اوقات کو دوسرے اوقات کے مقابلہ میں فضیلت عطا کی گئی ہے مثلاً جمعہ کی نماز کو ایک خاص دن میں فرض کرکے اس دن کو دوسرے دنوں پر اور رمضان کے روزے ایک خاص مہینے میں فرض کرکے اس مہینے کو سال کے دوسرے مہینوں پر فضیلت عطا کردی گئی۔ اسی طرح بعض مقامات کو دوسرے مقامات کے مقابلہ میں زیادہ بابرکت اور افضل قرار دیا مثلاً بیت اللہ اور مسجد نبوی وغیرہ اور بتادیا گیا ان مقدس مقامات میں طاعت کا ثواب دوسرے اماکن کے مقابلہ میں زیادہ ہے وہاں ان مقامات کی بےحرمتی اور ان میں گناہ کے ارتکاب کا عذاب بھی دوسرے مقامات کے مقابلہ میں بڑھ کر ہے۔ اس طرح ان مہینوں اور ان مقامات میں ظلم و ستم اور گناہ سے اجتناب دوسرے مہینوں اور مقامات میں ان افعال سے اجتناب کا سبب اور داعی بن جائے گا اسی طرح ان مدقس مہینوں اور مقدس مقامات میں اللہ تعالیٰ کی فرمانبرداری بجالانے اور اس کے احکامات کی پابندی کرنے سے طبیعت کو ایسی مشق مہیا ہوجائے گی اور عادت بن جائے گی کہ دوسرے مقامات اور مہینوں میں ان کی پابندی کرنا انتہائی آسان ہوجائے گا نیز بندگی کی پابندی میں اللہ تعالیٰ کی طرف سے توفیق شامل حال ہوجاتی ہے جس طرح نافرمانیوں اور معاصی پر کمربستگی، نیزلگائو اور دل چسپی کی بنا پر بندہ توفیق ایزدی سے محروم ہوجاتا ہے۔ اس طرح بعض مہینوں اور بعض مقامات کو محترم و معظم قرار دینے میں بڑی بڑی مصلحتیں پوشیدہ ہیں۔ ان کے ذریعے بندوں کو نیکیوں کی ترغیب ہوتی ہے اور معاصی سے اجتناب کی دعوت ملتی ہے۔ اس میں ایک نفسیاتی پہلو یہ بھی ہے کہ دیکھا دیکھی اطاعت اور بندگی کا شوق پیدا ہوجاتا ہے اس لئے کہ اشیاء اپنی جیسی اشیاء کی طرف کھنچ جاتی اور اپنی اضداد سے دور ہوجاتی ہیں اس بنا پر نیکی اور طاعت کی کثرت لوگوں کو نیکی کی طرف اور بدی کی کثرت لوگوں کو بدی کی طرف بلانے کا باعث بنتی ہے۔
Top