Home
Quran
Recite by Surah
Recite by Ruku
Translation
Maududi - Urdu
Jalandhary - Urdu
Junagarhi - Urdu
Taqi Usmani - Urdu
Saheeh Int - English
Maududi - English
Tafseer
Tafseer Ibn-e-Kaseer
Tafheem-ul-Quran
Maarif-ul-Quran
Tafseer-e-Usmani
Aasan Quran
Ahsan-ul-Bayan
Tibyan-ul-Quran
Tafseer-Ibne-Abbas
Tadabbur-e-Quran
Show All Tafaseer
Word by Word
Nazar Ahmed - Surah
Nazar Ahmed - Ayah
Farhat Hashmi - Surah
Farhat Hashmi - Ayah
Word by Word English
Hadith
Sahih Bukhari
Sahih Muslim
Sunan Abu Dawood
Sunan An-Nasai
Sunan At-Tirmadhi
Sunan Ibne-Majah
Mishkaat Shareef
Mauwatta Imam Malik
Musnad Imam Ahmad
Maarif-ul-Hadith
Riyad us Saaliheen
Android Apps
IslamOne
QuranOne
Tafseer Ibne-Kaseer
Maariful Quran
Tafheem-ul-Quran
Quran Urdu Translations
Quran Word by Word
Sahih Bukhari
Sahih Muslim
Mishkaat Shareef
More Apps...
More
Seerat-un-Nabi ﷺ
Fiqhi Masail
Masnoon Azkaar
Change Font Size
About Us
View Ayah In
Navigate
Surah
1 Al-Faatiha
2 Al-Baqara
3 Aal-i-Imraan
4 An-Nisaa
5 Al-Maaida
6 Al-An'aam
7 Al-A'raaf
8 Al-Anfaal
9 At-Tawba
10 Yunus
11 Hud
12 Yusuf
13 Ar-Ra'd
14 Ibrahim
15 Al-Hijr
16 An-Nahl
17 Al-Israa
18 Al-Kahf
19 Maryam
20 Taa-Haa
21 Al-Anbiyaa
22 Al-Hajj
23 Al-Muminoon
24 An-Noor
25 Al-Furqaan
26 Ash-Shu'araa
27 An-Naml
28 Al-Qasas
29 Al-Ankaboot
30 Ar-Room
31 Luqman
32 As-Sajda
33 Al-Ahzaab
34 Saba
35 Faatir
36 Yaseen
37 As-Saaffaat
38 Saad
39 Az-Zumar
40 Al-Ghaafir
41 Fussilat
42 Ash-Shura
43 Az-Zukhruf
44 Ad-Dukhaan
45 Al-Jaathiya
46 Al-Ahqaf
47 Muhammad
48 Al-Fath
49 Al-Hujuraat
50 Qaaf
51 Adh-Dhaariyat
52 At-Tur
53 An-Najm
54 Al-Qamar
55 Ar-Rahmaan
56 Al-Waaqia
57 Al-Hadid
58 Al-Mujaadila
59 Al-Hashr
60 Al-Mumtahana
61 As-Saff
62 Al-Jumu'a
63 Al-Munaafiqoon
64 At-Taghaabun
65 At-Talaaq
66 At-Tahrim
67 Al-Mulk
68 Al-Qalam
69 Al-Haaqqa
70 Al-Ma'aarij
71 Nooh
72 Al-Jinn
73 Al-Muzzammil
74 Al-Muddaththir
75 Al-Qiyaama
76 Al-Insaan
77 Al-Mursalaat
78 An-Naba
79 An-Naazi'aat
80 Abasa
81 At-Takwir
82 Al-Infitaar
83 Al-Mutaffifin
84 Al-Inshiqaaq
85 Al-Burooj
86 At-Taariq
87 Al-A'laa
88 Al-Ghaashiya
89 Al-Fajr
90 Al-Balad
91 Ash-Shams
92 Al-Lail
93 Ad-Dhuhaa
94 Ash-Sharh
95 At-Tin
96 Al-Alaq
97 Al-Qadr
98 Al-Bayyina
99 Az-Zalzala
100 Al-Aadiyaat
101 Al-Qaari'a
102 At-Takaathur
103 Al-Asr
104 Al-Humaza
105 Al-Fil
106 Quraish
107 Al-Maa'un
108 Al-Kawthar
109 Al-Kaafiroon
110 An-Nasr
111 Al-Masad
112 Al-Ikhlaas
113 Al-Falaq
114 An-Naas
Ayah
1
2
3
4
5
6
7
8
9
10
11
12
13
14
15
16
17
18
19
20
21
22
23
24
25
26
27
28
29
30
31
32
33
34
35
36
37
38
39
40
41
42
43
44
45
46
47
48
49
50
51
52
53
54
55
56
57
58
59
60
61
62
63
64
65
66
67
68
69
70
71
72
73
74
75
76
77
78
79
80
81
82
83
84
85
86
87
88
89
90
91
92
93
94
95
96
97
98
99
100
101
102
103
104
105
106
107
108
109
110
111
112
113
114
115
116
117
118
119
120
121
122
123
124
125
126
127
128
129
Get Android App
Tafaseer Collection
تفسیر ابنِ کثیر
اردو ترجمہ: مولانا محمد جوناگڑہی
تفہیم القرآن
سید ابو الاعلیٰ مودودی
معارف القرآن
مفتی محمد شفیع
تدبرِ قرآن
مولانا امین احسن اصلاحی
احسن البیان
مولانا صلاح الدین یوسف
آسان قرآن
مفتی محمد تقی عثمانی
فی ظلال القرآن
سید قطب
تفسیرِ عثمانی
مولانا شبیر احمد عثمانی
تفسیر بیان القرآن
ڈاکٹر اسرار احمد
تیسیر القرآن
مولانا عبد الرحمٰن کیلانی
تفسیرِ ماجدی
مولانا عبد الماجد دریابادی
تفسیرِ جلالین
امام جلال الدین السیوطی
تفسیرِ مظہری
قاضی ثنا اللہ پانی پتی
تفسیر ابن عباس
اردو ترجمہ: حافظ محمد سعید احمد عاطف
تفسیر القرآن الکریم
مولانا عبد السلام بھٹوی
تفسیر تبیان القرآن
مولانا غلام رسول سعیدی
تفسیر القرطبی
ابو عبدالله القرطبي
تفسیر درِ منثور
امام جلال الدین السیوطی
تفسیر مطالعہ قرآن
پروفیسر حافظ احمد یار
تفسیر انوار البیان
مولانا عاشق الٰہی مدنی
معارف القرآن
مولانا محمد ادریس کاندھلوی
جواھر القرآن
مولانا غلام اللہ خان
معالم العرفان
مولانا عبدالحمید سواتی
مفردات القرآن
اردو ترجمہ: مولانا عبدہ فیروزپوری
تفسیرِ حقانی
مولانا محمد عبدالحق حقانی
روح القرآن
ڈاکٹر محمد اسلم صدیقی
فہم القرآن
میاں محمد جمیل
مدارک التنزیل
اردو ترجمہ: فتح محمد جالندھری
تفسیرِ بغوی
حسین بن مسعود البغوی
احسن التفاسیر
حافظ محمد سید احمد حسن
تفسیرِ سعدی
عبدالرحمٰن ابن ناصر السعدی
احکام القرآن
امام ابوبکر الجصاص
تفسیرِ مدنی
مولانا اسحاق مدنی
مفہوم القرآن
محترمہ رفعت اعجاز
اسرار التنزیل
مولانا محمد اکرم اعوان
اشرف الحواشی
شیخ محمد عبدالفلاح
انوار البیان
محمد علی پی سی ایس
بصیرتِ قرآن
مولانا محمد آصف قاسمی
مظہر القرآن
شاہ محمد مظہر اللہ دہلوی
تفسیر الکتاب
ڈاکٹر محمد عثمان
سراج البیان
علامہ محمد حنیف ندوی
کشف الرحمٰن
مولانا احمد سعید دہلوی
بیان القرآن
مولانا اشرف علی تھانوی
عروۃ الوثقٰی
علامہ عبدالکریم اسری
معارف القرآن انگلش
مفتی محمد شفیع
تفہیم القرآن انگلش
سید ابو الاعلیٰ مودودی
Ahkam-ul-Quran - At-Tawba : 35
یَّوْمَ یُحْمٰى عَلَیْهَا فِیْ نَارِ جَهَنَّمَ فَتُكْوٰى بِهَا جِبَاهُهُمْ وَ جُنُوْبُهُمْ وَ ظُهُوْرُهُمْ١ؕ هٰذَا مَا كَنَزْتُمْ لِاَنْفُسِكُمْ فَذُوْقُوْا مَا كُنْتُمْ تَكْنِزُوْنَ
يَّوْمَ
: جس دن
يُحْمٰي
: تپایا جائے گا
عَلَيْهَا
: اس پر
فِيْ
: میں
نَارِ جَهَنَّمَ
: جہنم کی آگ
فَتُكْوٰي بِهَا
: پھر داغا جائے گا اس سے
جِبَاهُهُمْ
: ان کی پیشانی (جمع)
وَجُنُوْبُهُمْ
: اور ان کے پہلو (جمع)
وَظُهُوْرُهُمْ
: اور ان کی پیٹھ (جمع)
هٰذَا
: یہ ہے
مَا
: جو
كَنَزْتُمْ
: تم نے جمع کرکے رکھا
لِاَنْفُسِكُمْ
: اپنے لیے
فَذُوْقُوْا
: پس مزہ چکھو
مَا
: جو
كُنْتُمْ تَكْنِزُوْنَ
: تم جمع کرکے رکھتے تھے
جس دن وہ مال دوزخ کی آگ میں (خوب) گرم کیا جائے گا پھر اس سے ان (بخیلوں) کی بیشانیاں اور پہلو اور پیٹھیں داغی جائیں گی (اور کہا جائے گا کہ) یہ وہی ہے جو تم نے اپنے لئے جمع کیا تھا سو جو تم جمع کرتے تھے (اب) اس کا مزہ چکھو۔
مہینوں کی تعداد اور ترتیب، روز اول سے مقرر ہے قول باری ہے (ان عدۃ الشھود عند اللہ اثنا عشر شھراً فی کتٰب اللہ یوم خلق السموت والارض منھا اربعۃ حرم۔ حقیقت یہ ہے کہ مہینوں کی تعداد جب سے اللہ نے آسمان و زمین کو پیدا کیا ہے اللہ کے نوشتے میں بارہ ہی ہے اور ان میں سے چار مہینے حرام ہیں) اللہ تعالیٰ نے دیگر مواقع پر فرمایا (الحج اشھر معلومات حج کے معلوم مہینے ہیں/ نیز فرمایا (یسئلونک عن الاھلۃ قلھی مواقیت للناس والحج۔ آپ سے چاند کے گھٹنے بڑھنے کے بارے میں پوچھتے ہیں آپ کہہ دیجئے یہ لوگوں کے لئے تاریخوں کی تعیین کی اور حج کی علامتیں ہیں) اور مہینوں کے ساتھ لوگوں کے بہت سے دینی اور دنیوی مصالح کو معلق کردیا پھر اس آیت میں ان مہینوں کی تعداد واضح طور پر بیان کردی اور یہ بتادیا کہ یہ بارہ مہینے ایک ہی ڈگر پر آتے جاتے ہیں۔ ان میں سے آگے آن والا مہینہ پیچھے نہیں جاتا اور پیچھے آنے والا آگے نہیں آتا۔ قول باری (ان عدۃ الشھور عنداللہ) کے اندر دومعنوں کا احتمال ہے۔ ایک تو یہ کہ اللہ تعالیٰ نے ان مہینوں کو وضع کیا اور انہیں ان کے ناموں سے اسی ترتیب کے ساتھ موسوم کردیا جو ترتیب اس نے آسمان و زمین کی پیدائش کے دن دی تھی اور پھر اسے اپنے انبیاء پر اپنی بھیجی ہوئی کتابوں کے ذریعے نازل کردیا تھا۔ قول باری (ان عدۃ الشھور عند اللہ) کے یہی معنی ہیں۔ ان مہینوں کی ترتیب کا حکم علی حالہ باقی ہے۔ مشرکین اپنے طور پر ان مہینوں کے ناموں میں تبدیلی کرلیتے تھے اور ان کے ناموں میں تقدیم و تاخیر کرکے مہینوں کو آگے پیچھے کردیتے تھے لیکن مشرکین کے اس عمل سے مہینوں کی ترتیب کی صورت ختم نہیں ہوئی اور یہ ترتیب بحالہ باقی رہی۔ اللہ تعالیٰ نے ہمارے سامنے یہ سب باتیں اس لئے بیان کردیں کہ ہم مہینوں کے بارے میں اللہ کے حکم کی اتباع کریں اور ان کے متعلق زمانہ جاہلیت کے طرز عمل کو ٹھکرادیں جس کے تحت مشرکین مہینوں کے ناموں میں تقدیم و تاخیر کرلیتے تھے اور پھر ان تبدیل شدہ ناموں کے ساتھ احکام کو معلق کردیتے تھے۔ اسی بنا پر حضور ﷺ نے حجۃ الوداع کے موقع پر حضرت ابن عمر ؓ اور حضرت ابوبکر ؓ کی روایت کے مطابق منیٰ میں عقبہ کے مقام پر خطبہ دیتے ہوئے فرمایا تھا (ایھا الناس ان الزمان قد استداد۔ زمانہ اپنی اصلی حالت کی طرف پلٹ آیا ہے) حضرت ابن عمر ؓ کی روایت کے مطابق آپ نے فرمایا (فھو کئیتہ یوم خلق السموات والارض۔ اب وہ اپنی اس حالت پر ہے جس پر وہ زمین و آسمان کی پیدائش کے دن تھا) اور حضرت ابوبکر ؓ کی روایت کے مطابق آپ نے فرمایا (قد استداد کھیئۃ یوم خلق السماوات والارض وان عدۃ الشھور عند اللہ اثنا عشر شھرا منھا اربعۃ حرم ثلاث متوالیات ذوالقعدہ وذو الحجۃ والمحرم ورجب مضر الذی بین جمادی و شعبان وان انسی و زیادۃ فی الکفر۔ زمانہ اپنی اس حالت کی طرف پلٹ آیا ہے جس پر وہ آسمانوں اور زمین کی پیدائش کے دن تھا، اللہ کے نزدیک یعنی اس کے نوشتہ میں مہینوں کی تعداد بارہ ہے جن میں چار حرام مہینے ہیں۔ تین پے در پے آتے ہیں یعنی ذیقعدہ ، ذی الحجہ اور محرم، اور قبیلہ سفر کا رجب جو جمادی الآخر اور شعبان کے درمیان ہے۔ نیز نسی تو کفر میں ایک مزید کا فرانہ حرکت ہے) حضرت ابن عمر ؓ فرماتے ہیں کہ حضور ﷺ نے یہ اس لئے فرمایا کہ زمانہ جاہلیت میں مشرکین صفر کے مہینے کو ایک سال حرام قرار دیتے اور ایک سال حلال۔ اسی طرح محرم کو ایک سال حرام قرار دیتے ایک سال حلال، نسی (اس کی وضاحت آگے آرہی ہے) کا یہ چکر شیطانی عمل تھا۔ حضور ﷺ نے بتادیا کہ زمانہ یعنی مہینوں کا زمانہ اپنی اس حالت پر لوٹ آیا ہے جس پر وہ آسمان و زمین کی پیدائش کے دن تھا، اور یہ کہ ہر مہینہ اپنے اس مقام پر واپس آگیا ہے جس پر اللہ نے اپنی ترتیب اور اپنے نظام کے لحاظ سے اسے رکھا تھا۔ مجھ سے ایک شخص نے جس کا تعلق ایک نجومی کے خاندان سے تھا، یہ ذکر کیا کہ اس کے دادا نے میرے خیال میں یہ محمد بن موسیٰ منجم تھا جس کی طرف اس خاندان والے اپنی نسبت بیان کرتے ہیں۔ قمری مہینوں کا اس دن سے حساب لگایا تھا جس دن اللہ تعالیٰ نے آسمان و زمین کی تخلیق کی تھی، اس نے یہ دریافت کیا کہ قمری مہینے سورج اور چاند دونوں کے حساب سے اس وقت کی طرف پلٹ آئے تھے جس کا ذکر حضور ﷺ نے ان الفاظ میں کیا تھا کہ یوم النحر یعنی دسویں ذی الحجہ کو وقت اپنی اصلی حالت کی طرف پلٹ آیا ہے۔ یہ حجۃ الوداع کا یوم النحر تھا۔ اس لئے کہ آپ نے یہ بات منیٰ میں عقبی کے مقام پر اپنے خطبے میں فرمائی تھی۔ مذکورہ بالا منجم نے آٹھ سال میں یہ حساب لگایا تھا۔ اس طرح اس سال کے ذی الحجہ کا دسواں روز یعنی یوم النحر ٹھیک اسی دن آیا تھا جس دن یہ مہینوں یعنی زمانہ کے آغاز کے وقت سے واقع ہوتا چلا آتا تھا۔ نیز سورج اور چاند بھی اس دن اسی مقام پر تھے جس کے بارے میں حضور ﷺ نے فرمایا تھا کہ زمانہ مشرکین کے نسی اور مہینوں کے ناموں کی تبدیلی کی وجہ سے اس مقام سے ہٹ گیا تھا اور پھر اس سال یوم النحر کو اپنے اصلی مقام پر واپس آگیا ہے۔ اسی بنا پر حضرت ابوبکر ؓ نے جس سال حج کیا تھا اس سال حج اس دن نہیں ہوا تھا جو حج کے لئے زمانے کی ابتدا سے مقرر کیا گیا تھا۔ حضور ﷺ نے رجب کا ذکر کرتے ہوئے قبیلہ مضر کی طرف اس کی نسبت کی اور فرمایا کہ یہ وہ رجب ہے جو جمادی الآخر اور شعبان کے درمیان آتا ہے اس سے رمضان کے مہینے کی نفی مراد تھی جسے قبیلہ ربیعہ رجب کا نام دیتے تھے۔ قول باری (ان عدۃ الشھور عند اللہ اثنا عشر شھراً فی کتاب اللہ) کی دوسری توجیہ یہ ہے کہ اللہ تعالیٰ نے زمانے کو بارہ حصوں میں تقسیم کرکے ان کے برجوں میں سے ہر ایک برج میں سورج گا نزول متعین کردیا۔ اس طرح سورج آسمان کو تین سو پینسٹھ دنوں اور ایک چوتھائی دن میں عبور کرتا ہے۔ اس طرح ہر برج کے حصے میں دنوں کے حساب سے تیس دن اور ایک دن کی کوئی کسر آتی ہے۔ اسی طرح اللہ تعالیٰ نے زمانے کو چاند کی گردش کے حساب سے تقسیم کردیا۔ چاند آسمان کو ساڑھے انتیس دن میں قطع کرتا ہے۔ اللہ تعالیٰ نے قمری سال کے تین سوچون ون اور ایک چوتھائی دن بنائے۔ اس طرح سورج کا ایک برج کو قطع کرنا چاند کا پورے آسمان کو قطع کرنے کے تقریباً برابر ہوگیا۔ قول باری (الشمس والقمر بحسبان) سورج اور چاند تک حساب کے پابند ہیں نیز فرمایا (وجعلنا اللیل والنھار آیتین فمعونا ایۃ اللیل وجعلنا ایۃ النھار مبصرۃ لتبتغوا فضلاً من ربکم ولتعلموا عدد السنین والحساب۔ دیکھو ہم نے رات اور دن کو دو نشانیاں بنایا ہے۔ رات کی نشانی کو ہم نے بےنور بنادیا اور دن کی نشانی کو روشن کردیا تاکہ تم اپنے رب کا فضل تلاش کرسکو اور ماہ و سال کا حساب رکھ سکو) سال کو بارہ برجوں میں سورج کے نزول کے حساب سے تقسیم کردیا گیا اور اس طرح سال کے بارہ مہینے بن گئے۔ مہینہ میں دنوں کی تعداد تاہم شمسی اور قمری سالوں میں اس کسر کی بنا پر اختلاف ہوگیا جو ان دونوں کے درمیان آتی تھی۔ یہ کسر تقریباً بارہ دنوں کی تھی۔ قمری مہینے تیس اور انتیس دنوں کے ہوگئے ان ہی دنوں کے ساتھ شرعی احکام کا تعلق ہوتا تھا اس آدھے دن کا کوئی حکم نہیں تھا جو انتیس دنوں سے زائد ہوتا تھا۔ یہ تھی وہ تقسیم جس کی رو سے اللہ تعالیٰ نے اس کائنات کی تخلیق کے دن سے سال کے بارہ حصے بنادیئے تھے۔ پھر اس ترتیب کو ان امتوں نے بدل ڈالا جو اپنے انبیاء کی شریعتوں سے بہت دور جاچکی تھیں۔ رومی جنتری کے بعض مہینے اٹھائیس دنوں کے ہوتے تھے اور بعض ساڑھے اٹھائیس دنوں کے اور بعض اکتیس دنوں کے۔ یہ بات اللہ تعالیٰ کے اس حکم کے خلاف تھی جس کے ذریعے مہینوں کا اعتبار ان احکام کے لحاظ سے کیا جاتا تھا جن کا ان مہینوں کے ساتھ تعلق ہوتا تھا۔ پھر ایرانی تقویم کو لے لیجئے۔ اس کے تمام مہینے تیس دنوں کے ہیں، صرف ایک مہینہ جو باد ماہ کہلاتا ہے پینتیس دنوں کا تھا۔ اس تقویم میں ہر ایک سو بیس برس کے بعد پورا ایک مہینہ بڑھا دیا جاتا تھا اور اس طرح وہ سال تیرہ مہینوں کا ہوتا تھا۔ اللہ تعالیٰ نے اس آیت کے ذریعے یہ بتادیا کہ سال کے مہینوں کی تعداد با رہے نہ اس سے کم نہ اس سے زیادہ۔ یہ قمری مہینے ہیں جن میں مہینہ یا تو انتیس دنوں کا ہوتا ہے یا تیس دنوں کا۔ اسی بنا پر حضور ﷺ نے فرمادیا (الشھر تسع وعشرون والشھر ثلاثون۔ مہینہ انتیس دنوں کا ہوتا ہے اور مہینہ تیس دنوں کا) نیز فرمایا (صوموا الرئویتہ وافطروالزویتہ فان غم علیکم فعدو ثلاثین چاند دیکھ کر روزہ رکھو اور چاند دیکھ کر روزہ ختم کرو اگر کسی وجہ سے تمہیں چاند نظر نہ آئے تو تیس دن گن لو) آپ نے مہینے کے دنوں کے حساب کو رئویت ہلال پر مبنی کردیا۔ اگر بادل یا تاریکی کی بنا پر روئیت ہلال نہ ہوسکے تو پھر میہنہ تیس دنوں کا ہوگا۔ اللہ تعالیٰ نے ہمیں یہ بات اپنے قول (ان عدۃ الشھور عند اللہ اثنا عشر شھراً فی کتاب اللہ یوم خلق السموت والارض) کے ذریعے بتادی یعنی سال کے مہینوں کی تعداد بارہ ہے۔ اس پر کوئی اضافہ نہیں ہوگا۔ اس کے ذریعے کبیسہ یعنی لیپ کے سال کا تصور باطل کردیا جو ایرانی تقویم کا حصہ تھا جس کے مطابق ہر ایک سو بیس سال کے بعد ایک ماہ کا اضافہ کرکے اسے تیرہ ماہ کا سال بنادیتے تھے۔ حضور ﷺ نے یہ فرمادیا کہ مہینوں کا اختتام رئویت ہلال کے ذریعے ہوگا اس لئے کبھی انتیس دنوں پر مہینے کا اختتام ہوجائے گا اور کبیھ تیس دنوں پر۔ اللہ تعالیٰ نے ہمیں زیر بحث آیت کے ذریعے یہ بتادیا کہ ابتدائے آفرینش سے سالوں اور مہینوں کو درج بالا وضع پر رکھا گیا تھا۔ اور حضور ﷺ نے یہ اطلاع دی کہ زمانہ اپنے اصل وضع پر لوٹ آیا ہے اور اس کے ذریعے اس تبدیلی کو باطل قرار دے دیا جو مشرکین نے مہینوں کی ترتیب اور ان کے نظام میں پیدا کردی تھی۔ اسی طرح سالوں اور مہینوں کے اندر پیدا کردہ اضافے کو بھی باطل قرار دیا۔ نیز یہ بتادیا کہ ماہ و سال کی گردش کا معاملہ اب اس وضع پر آکر ٹھہر گیا ہے جو اللہ تعالیٰ نے شروع ہی سے اس کے لئے مقرر کردیا تھا۔ اس لئے کہ اللہ تعالیٰ کے علم میں یہ بات تھی۔ عبادات اور شرائع کے لحاظ سے لوگوں کے مصالح کا تحفظ اسی صورت میں ہوسکتا تھا کہ ماہ و سال کی گردش اپنے اصل ڈگر پر جاری رہے۔ اس طرح روزے کبھی موسم بہار میں آتے، کبھی گرمیوں میں، کبھی خزاں میں اور سردیوں میں یہی صورت حج کی ہوتی۔ اللہ تعالیٰ اس کی مصلحت سے باخبر تھا۔ ایک روایت کے مطابق عیسائیوں کے روزے بھی اسی طرح سال کے مختلف موسموں میں آتے تھے۔ لیکن جب وہ یہ دیکھتے کہ فلاں سال روزے گرمیوں میں آئیں گے تو وہ انہیں موسم بہار کی طرف منتقل کرلینے پر ایکا کرلیتے اور عدد میں اضافہ کردیتے۔ اس طرح قمری مہینوں کے اعتبار کا انہیں جس طرح پابند بنایا گیا تھا اس پابندی کو وہ توڑ دیتے، قمری مہینوں کے لحاظ سے انہیں اس امر کا پابند کیا گیا تھا کہ سال کے جس موسم میں جو مہینے آجائیں وہ ان مہینوں کا اس حیثیت سے اعتبار کرلیں۔ یہ چیز اور اس طرح کے دوسرے امور ایسے تھے جن کی خلاف ورزی پر اللہ تعالیٰ نے ان کی مذمت کی اور یہ بتایا کہ انہوں نے اللہ کو چھوڑ کر اپنے احبار اور رہبان کو اپنا رب بنالیا ہے کہ وہ ان کے اوامر کی پیروی کرتے ہیں اور ان کے وجوب کا اعتقاد رکھتے ہیں اللہ کے اوامر کے وجوب کا اعتقاد نہیں رک تھے، اس طرح خود بھی گمراہ ہوگئے اور دوسروں کو بھی گمراہی میں مبتلا کرگئے۔ قول باری (منھا اربعۃ حرم) سے مراد وہ مہینے ہیں جو حضور ﷺ کے ارشاد کے مطابق یہ ہیں۔ ذیقعدہ، ذی الحجہ ، محرم اور رجب، عرب کے لوگ کہتے تھے۔ ” ثلاثۃ سردو واحد فرد “ (تین مہینے مسلسل ہیں اور ایک تنہا ہے) ۔ حرمت کے مہینوں کی علت اللہ تعالیٰ نے دو وجوہ کی بنا پر انہیں حرام مہینے قرار دیا ہے۔ ایک وجہ تو یہ ہے کہ ان مہینوں میں قتال کی حرمت تھی۔ زمانہ جاہلیت میں مشرکین بھی ان میں قتال کو حرام سمجھتے تھے۔ قول باری ہے (یسئلونک عن الشھرا الحرام قتال فیہ قل قتال فیہ کبیر۔ آپ ﷺ سے ماہ حرام میں قتال کے متعلق پوچھتے ہیں آپ کہہ دیجئے کہ اس میں قتال بہت بڑا گناہ ہے) دوسری وجہ یہ ہے کہ ان مہینوں میں اللہ تعالیٰ کے محارم (ایسی چیزیں جن کی پردہ دری جائز نہ ہو) کی بےحرمتی کا گناہ دوسرے مہینوں کی بہ نسبت بڑھ کر ہے۔ جس طرح ان مہینوں میں طاعات کا ثواب دوسرے مہینوں کے مقابلہ میں زیادہ ہے۔ اللہ تعالیٰ نے ان مہینوں کو یہ مرتبہ اس لئے عطا کیا کہ اس میں بندوں کی بھلائی اور ان کی مصلحت پوشیدہ ہے۔ وہ اس طرح کہ بندے جب ان مہینوں کی اللہ کے ہاں عظمت کے پیش نظر ظلم و ستم اور قتل و قتال سے باز رہیں گے اور اس کی بجائے اللہ کی طاعات یعنی عمرہ و حج، نماز و روزہ وغیرہ کی طرف سبقت کریں گے تو اس کے نتیجے میں انہیں دنیوی اور اخروی دونوں فوائد حاصل ہوں گے جس طرح بعض اوقات کو دوسرے اوقات کے مقابلہ میں فضیلت عطا کی گئی ہے مثلاً جمعہ کی نماز کو ایک خاص دن میں فرض کرکے اس دن کو دوسرے دنوں پر اور رمضان کے روزے ایک خاص مہینے میں فرض کرکے اس مہینے کو سال کے دوسرے مہینوں پر فضیلت عطا کردی گئی۔ اسی طرح بعض مقامات کو دوسرے مقامات کے مقابلہ میں زیادہ بابرکت اور افضل قرار دیا مثلاً بیت اللہ اور مسجد نبوی وغیرہ اور بتادیا گیا ان مقدس مقامات میں طاعت کا ثواب دوسرے اماکن کے مقابلہ میں زیادہ ہے وہاں ان مقامات کی بےحرمتی اور ان میں گناہ کے ارتکاب کا عذاب بھی دوسرے مقامات کے مقابلہ میں بڑھ کر ہے۔ اس طرح ان مہینوں اور ان مقامات میں ظلم و ستم اور گناہ سے اجتناب دوسرے مہینوں اور مقامات میں ان افعال سے اجتناب کا سبب اور داعی بن جائے گا اسی طرح ان مدقس مہینوں اور مقدس مقامات میں اللہ تعالیٰ کی فرمانبرداری بجالانے اور اس کے احکامات کی پابندی کرنے سے طبیعت کو ایسی مشق مہیا ہوجائے گی اور عادت بن جائے گی کہ دوسرے مقامات اور مہینوں میں ان کی پابندی کرنا انتہائی آسان ہوجائے گا نیز بندگی کی پابندی میں اللہ تعالیٰ کی طرف سے توفیق شامل حال ہوجاتی ہے جس طرح نافرمانیوں اور معاصی پر کمربستگی، نیزلگائو اور دل چسپی کی بنا پر بندہ توفیق ایزدی سے محروم ہوجاتا ہے۔ اس طرح بعض مہینوں اور بعض مقامات کو محترم و معظم قرار دینے میں بڑی بڑی مصلحتیں پوشیدہ ہیں۔ ان کے ذریعے بندوں کو نیکیوں کی ترغیب ہوتی ہے اور معاصی سے اجتناب کی دعوت ملتی ہے۔ اس میں ایک نفسیاتی پہلو یہ بھی ہے کہ دیکھا دیکھی اطاعت اور بندگی کا شوق پیدا ہوجاتا ہے اس لئے کہ اشیاء اپنی جیسی اشیاء کی طرف کھنچ جاتی اور اپنی اضداد سے دور ہوجاتی ہیں اس بنا پر نیکی اور طاعت کی کثرت لوگوں کو نیکی کی طرف اور بدی کی کثرت لوگوں کو بدی کی طرف بلانے کا باعث بنتی ہے۔
Top