Tafseer-e-Majidi - An-Nisaa : 99
فَاُولٰٓئِكَ عَسَى اللّٰهُ اَنْ یَّعْفُوَ عَنْهُمْ١ؕ وَ كَانَ اللّٰهُ عَفُوًّا غَفُوْرًا
فَاُولٰٓئِكَ : سو ایسے لوگ ہیں عَسَى : امید ہے اللّٰهُ : اللہ اَنْ يَّعْفُوَ : کہ معاف فرمائے عَنْھُمْ : ان سے (ان کو) وَكَانَ : اور ہے اللّٰهُ : اللہ عَفُوًّا : معاف کرنیوالا غَفُوْرًا : بخشنے والا
تو یہ لوگ ایسے ہیں کہ اللہ انہیں معاف کردے گا اور اللہ تو ہے ہی بڑا معاف کرنے والا، بڑا بخشنے والا،282 ۔
282 ۔ عفو کا تعلق ماضی سے ہے اور غفر کا مستقبل سے یعنی ان کی پچھلی کوتاہیوں کو معاف کردینے والا ہے اور آیندہ ان کے حق میں مغفرت کرنے والا ہے۔ (آیت) ” ان یعفوعنہم “۔ یعنی ان سے یہ فریضہ ہجرت سرے سے ساقط ہی کردیا جائے۔ (آیت) ” عسی اللہ “۔ عسی سے متعلق اوپر ذکر گزر چکا ہے کہ جب اس کے فعل کا تعلق اللہ سے ہوتا ہے تو مراد محض توقع یا امید نہیں رہ جاتی ہے بلکہ تیقن پیدا ہوجاتا ہے۔ وعسی ان کان للاطماع فھو من اللہ واجب (مدارک) مفسر تھانوی (رح) نے فرمایا ہے کہ عدم ہجرت کا گناہ فی الاصل اس قدر سخت ہے کہ ” غفور “ ا لا کر ادھر اشارہ کردیا گیا ہے کہ باوجود عذر موجود ہونے اور اس لئے گناہ نہ ہونے کے مشابہ اس کے ہے کہ گناہ ہوا۔ اگرچہ معاف بھی کردیا گیا۔
Top