Kashf-ur-Rahman - Al-Anbiyaa : 258
اَلَّا تَزِرُ وَازِرَةٌ وِّزْرَ اُخْرٰىۙ
اَلَّا : کہ نہیں تَزِرُ وَازِرَةٌ : بوجھ اٹھائے گا کوئی بوجھ اٹھانے والا وِّزْرَ اُخْرٰى : بوجھ کسی دوسرے کا
(کہ) کوئی شخص دوسرے کا بوجھ نہیں اٹھا سکتا
بنیادی تعلیم یہ ہے کہ کوئی شخص کسی دوسرے کا بوجھ نہیں اٹھا سکتا 38 ؎ سیدنا موسیٰ (علیہ السلام) کے صحیفوں کا ذکر کر کے اس بنیادی تعلیم کی وضاحت فرمائی جا رہی ہے جو بنیادی تعلیم سرے انبیاء کرام (علیہ السلام) اور رسل عظام اور خصوصاً سیدنا ابراہیم (علیہ السلام) ‘ موسیٰ (علیہ السلام) اور محمد رسول اللہ ﷺ میں وضاحت کے ساتھ موجود ہے۔ وہ یہ ہے کہ کوئی جان کسی دوسری جان کا بوجھ اٹھانے والی نہیں ہے اور ہر ایک کو اپنا اپنا بوجھ خود اٹھانا ہوگا۔ اس طرح گویا سارے گروہوں کے مشترکہ عقیدہ کی مکمل تردید کردی جو سب کے سب لوگوں میں کسی نہ کسی رنگ میں چلا آ رہا ہے۔ وہ عقیدہ کیا ہے ؟ وہ عقیدہ یہ ہے کہ پہلے و قیامت و یا مت کچھ ہوگی نہیں اور اگر ہوگی بھی تو ہمارا فلاں فلاں اور فلاں سفارشی موجود ہے وہ ہماری سفارش کر کے ہمیں دوزخ کے عذاب سے بچا لے گا۔ اس کی وضاحت ہم پیچھے غزوہ الوثقیٰ ‘ جلد سوم سورة الانعام کی آیت 164 ‘ جلد پنجم سورة بنی اسرائیل کی آیت 15 ‘ جلد ہفتم سورة فاطر کی آیت 18 ‘ سورة الزمر کی آیت 7 میں کرچکے ہیں وہیں سے ملاحظہ کرلیں۔ خیال رہے کہ اس کی وضاحت کرنے کی ضرورت اس لئیہوئی کہ سیدنا ابراہیم (علیہ السلام) کے زمانہ سے قبل یہ قانون رائج تھا کہ اگر کوئی شخص کسی دوسرے شخص کو قتل کرتا تو اس کے عوض میں اس کے خاندان کا کوئی فرد بھی قتل کر دیاجاتا تھا لیکن اس کا مطلب یہ نہ سمجھ لیا جائے کہ سیدنا ابراہیم (علیہ السلام) سے قبل کسی نبی و رسول کی تعلیم میں ایسا کرنا جائز رکھا گیا تھا نہیں اور ہرگز نہیں بلکہ عام لوگوں میں اس سیاہ قانون کی پیروی کی جاتی تھی اور اگر آپ غور کریں گے تو ہمارے ہاں آج تک یہی قانون رائج چلا آتا اپ کو دکھائی دے گا کہ ایک خاندان کے آدمی نے اگر کسی دوسرے خاندان کے آدمی کو قتل کردیا ہو تو وہ خاندان جس کا آدمی قتل ہوا قاتل کے خاندان کے کسی آدمی سے بھی اس کا بدلہ لے سکتا ہے یعنی مقتول کے خاندان کا ہاتھ پڑا تو وہ قاتل کے خاندان کے کسی آدمی کو بھی قتل کر کے اپنے مقتول کا بدلہ لے لیں گے۔ یہی کچھ اس وقت ہو رہا تھا اور قرآن کریم نے اس کی وضاحت کردی ہے کہ یہ ظالمانہ قانون ہے جو کسی حال میں بھی جائز اور درست نیں ہو سکتا۔ لیکن جیسا کہ اوپر ہم نے ذکر کیا ہے کہ اس کو کسی جماعت نے بھی برا نہ کہا بلکہ سارے گروہ خاموشی کے ساتھ خاموش ہی رہے بلکہ ہر گروہ کا یہی دستور رہا جس دستور کا اوپر ذکر کیا گیا۔ لیکن ایسا کرنے والوں نے بھی اس قانون کو جائز اور درست تسلیم نہیں کیا اگرچہ عمل اس کے خلاف ہوتا رہا اور اب بھی ہو رہا ہے۔ زیر نظر آیت کی پوری وضاحت سورة فاطر کی آیت 18 میں کردی گئی ہے لیکن اس کے ساتھ بعض آیات میں یہ بھی آیا ہے کہ ” وہ ضرور اپنے بوجھ بھی اٹھائیں گے اور اپنے بوجھوں کے ساتھ دوسرے بہت سے بوجھ بھی اور قیامت کے روز ان سے ان افترا پردازیوں کی بازپرس ہوگی جو وہ کرتے رہے ہیں۔ “ (العنکبوت : 13) اور اس سے بھی واضح الفاظ میں ارشاد فرمایا گیا کہ ” یہ باتیں وہ اس لئے کر رہے ہیں کہ قیامت کے روز اپنے بوجھ بھی پورے اٹھائیں اور ساتھ ساتھ کچھ ان لوگوں کے بوجھ بھی سمیٹیں جنہیں یہ بربنائے جہالت گمراہ کر رہے ہیں۔ دیکھو یہ کیسی سخت ذمہ داری ہے جو یہ لوگ اپنے ذمہ لے رہے ہیں۔ “ (النحل 16 : 25) بطاہر یہ آیتیں جن کا ترجمہ اوپر ذکر کردیا گیا اور بعض احادیث اس آیت سے متعارض ہوتی ہیں جیسا کہ نبی اعظم و آخر ﷺ کا یہ ارساد کہ : (من سنتہ سیئتہ و زرھا و وزرمن عمل بھا الی یوم القیامۃ ) (آخر جہ احمد و مسلم من حدیث جریر بن عبداللہ) ” جو شخص برا طریقہ رائج کرتا ہے اس پر اس کا بوجھ بھی لادا جائے گا اور قیامت تک جو لوگ اس طریقہ کو اختیار کریں گے ان کا بوجھ بھی اس پر لادا جائے گا “۔ (اس حدیث کو احمد اور مسلم نے جریر بن عبداللہ سے روایت کیا ہے) اور ایک اور حدیث میں ہے کہ : (اذا انزل اللہ بقوم عذابا اصاب ال عذاب من کان فیہ ثم بعثوا علی اعمالھم ) (بخاری و مسلم عن عبداللہ بن عمر ؓ) ” جب کسی قوم پر اللہ تعالیٰ عذاب نازل کرتا ہے تو اس قوم کے تمام افراد نیک و بد اس عذاب میں مبتلا ہوتے ہیں پھر قیامت کے دن وہ اپنے اعمال کے مطابق اٹھائے جائیں گے “ سورة العنکبوت اور سورة النحل کی آیات اور مذکورہ اہادیث اور ان احادیث جیسی دوری احادیث سے یہ معلوم ہوتا ہے کہ عذاب ان لوگوں پر بھی نازل ہوتا ہے جو مجرم نہیں ہوتے گویا بعض کے جرم کا وبال بعض پر پڑتا ہے حالانکہ زیر نظر آیت اور اس جیسی دوسری بہت سی آیات اس کی تردید کرتی ہیں اس لئے اس کی وضاحت سمجھ لیں تاکہ ابہام نہ رہے۔ ان احادیث اور آیات میں تو کسی طرح کا کوئی تضاد نہیں ہے کیونکہ اپنے بوجھوں کے ساتھ دوسرے بوجھوں کو جو ان پر لادا جائے گا تو دراصل وہ بوجھ ان ہی کے ہوں گے کیونکہ انہوں نے ایسے طریقے رائج کئے جن پر دوسروں نے عمل کیا حالانکہ وہ طریقے برے تھے اس طرح گویا انہوں نے ایک برائی کو رواج دے کر جو برا کیا اس برائی کا وبال ان پر پڑنا چاہئے تھا کیونکہ یہ متعدی بیماری ان ہی نے پھیلائی تھی اگر اس طرح کوئی سخص نیکی کو پھیلا دے تو اس کو اپنی نیکی کے ساتھ دوسروں کی نیکی کا اجر بھی ملے گا جنہوں نے کسی نیکی پھیلانے والے کے باعچ یہ نیکیاں کیں اس طرح گویا ابتداً برائی کرنے والے نے اپنے عمل میں ایک راستہ کھولا اور پھر اس راستہ پر چل نکلنے والوں کے ساتھ اس کا عمل بھی شامل ہوگیا جس نے ابتداً یہ راستہ کھولا اور اس طرح ان احادیث نے تو اوپر والی آیات کی مزید وضاحت کردی اور آیات کے درمیان بھی تضاد نہ رہا جب ہم کو معلوم ہوگیا کہ دوسروں کے جو بوجھ ان پر پڑے دراصل وہ بوجھ ان کے اپنے ہی تھے کیونکہ انہوں نے ابتداً ایک برائی کر کے بڑے عمل کی داغ بیل ڈال دی اور اس طرح داغ بیل ڈالنے میں ان اپنے کے عمل ہی کو دخل تھا پھر وہ خود اگرچہ نہ رہے لیکن ان کا یہ برا عمل تو بدستور رہا اور جب عمل بدستور جاری رہا تو ظاہر ہے کہ اس عمل کا نتیجہ بھی اس کے ساتھ لازمی رہنا چاہئے تھا اور ان آیات میں اس بات کا ذکر کیا گیا ہے۔ لاریب اس آیت سے یہ استدلال کیا جاسکتا ہے کہ ” قرآن خوانی کا ثواب مردوں کو پہنچایا جائے تو نہیں پہنچتا اس لئے کہ نہ تو یہ ان کا عمل ہے نہ کسب۔ یہی وجہ ہے کہ رسول اللہ ﷺ نے نہ تو اس کا جواز بیان فرمایا اور نہ ہی اپنی امت کو اس پر رغبت دلائی ‘ نہ انہیں اس پر آمادہ کیا نہ کسی فرمان کے ذریعہ سے ‘ نہ کسی طرح کے اشارہ و استعارہ سے اور نہ ہی کبھی آپ ﷺ نے خود ایسا فعل و عمل کیا اور ٹھیک اسی طرح صحابہ کرام ؓ میں سے بھی کسی ایک سے یہ بات ثابت نہیں کہ انہوں نے قرآن کریم پڑھ کر اس کے ثواب کا ہدیہ کسی میت کے لئے بھیجا ہو۔ “ ابن کثیر) اگر یہ نیک کام ہوتا اور مرنے والوں کے لئے مفید ہوتا تو ہم سے بہت زیادہ نیکیوں میں سبقت کرنے والے صحابہ کرام ؓ تھے اور یہ بات بھی واضح رہے کہ نیکیوں کے کام قران کریم اور احادیث کے صاف فرمان سے ہی ثابت ہوتے ہیں کسی قسم کی رائے ‘ قیاس کا ان میں کوئی دخل نہیں ہے۔ ہاں ! انسان کے مرنے کے بعد معا اس کے اعمال منقطع ہوجاتے ہیں لن کے کچھ اعمال ایسے بھی ہوتے ہیں جو مرنے والے کے مرنے کے ساتھ منقطع نہیں ہوتے اور وہ تین قسم کے ہیں : (1) نیک اولاد جو والدین کے لئے دعا کرے یا جب کہ وہ کوئی نیک عمل کرے۔ (2) صدقہ و خیرات وج مرنے والے نے خود کیا یا اس کی خواہش تھی لیکن وقت نہ ملا یا مال میسر نہ آیا اس طرح جو صدقہ و خیرات اس نے کیا وہ اس کا عمل تھا جو جاری رہا لیکن خود عمل کرنے والا موجود نہ رہا۔ (3) وہ لم جو اس نے کسی کو سکھایا اور محض رضائے الٰہی کے لئے سکھایا۔ علم سکھانے والا نہ رہا لیکن اس کا یہ عمل بدستور جاری رہا ‘ لوگ اس سے نفع اٹھاتے رہے۔ اور اب غور کرو تو یہ تینوں ہی چیزیں ایسی ہیں کہ ان میں خود مرنے والی کی سعی و کوشش شامل ہے اور اس طرح گویا ان اعمال میں وہ باقاعدہ ہصلہ دار ہیں اور اس کی ہصہ کا اجر اس کو ملنا چاہئے۔ اس کی وضاحت ہم پیچھے سورة یٰسین کی آیت 12 میں کرچکے ہیں۔ اور ایک بار پھر اس کا خلاصہ سن لیں اور یاد رکھیں کہ ” انسان کا نامہ اعمال تین قسم خے اندراجات پر مشتمل ہے۔ (1) ایک یہ کہ جو شخص بھی کوئی اچھا یا برا عمل کرتا ہے وہ اللہ تعالیٰ کے ہاں محفوظ ہوتا چلا جا رہا ہے۔ (2) دوسرے اپنے گرد و پیش کی اشیاء اور خود اپنے جسم کے اعضا پر جو نقوش بھی انسان مرتسم کرتا ہے وہ سب کے سب ثبت ہوجاتے ہیں اور یہ سارے نقوش ایک وقت اس طرح ابھر آئیں گے کہ اس کی اپنی آواز سنی جائے گی اور اس کے اپنے خیالات ‘ نیتوں اور ارادوں تک کی پوری داستان اس کے لوح ذہن پر لکھی نظر آئے گی اور اس کے ایک ایک اچھے یا برے فعل و عمل اور اس کی تمام ہر کات و سکنات کی ساری تصویریں سامنے آجائیں گی۔ (3) تیسرے اپنے مرنے کے بعد اپنی آئندہ نسل پر ‘ اپنے معاشرہ پر ‘ اپنے ماحول پر اور اسی طرح پوری انسانیت پر اپنے اچھے اور برے اعمال کے جو اثرات وہ چھوڑ گیا ہے وہ جس وقت تک اور جہاں جہاں تک کار فرما رہیں گے وہ سب اس کے حساب میں لکھے جاتے رہیں گے۔ اپنی اولاد کو جو بھی اچھی یا بری تعلیم اس نے دی ہے اور اپنے معاشرے میں جو بھلائیاں یا برائیاں بھی اس نے پھیلائی ہیں اور انسنایت کے لئے جو پھول یا کانٹے بھی اس نے بوئے ہیں ان سب کا پورا پورا ریکارڈ اس وقت تک تیار کیا جائے گا جب تک اس کی لگائی ہوئی یہ فصل دنیا میں اپنے اچھے یا برے پھل لاتی رہے گی۔ حدیث میں ہے کہ سب سے بہتر کھانا انسان کی اپنی کمائی ہے جو اس نے اپنے ہاتھوں سے کمائی ہو اور انسان کی اولاد بھی اس کی کمائی میں داخل ہے کیونکہ اس کی حاصل کردہ چیز ہے لہٰذا اولاد کے اچھے اعمال کا صلہ والدین کو خود بخود ہی ملتا رہے گا اس کے لئے کسی بھیجنے والے اور اس کی ساتھ دوسرے سارے لوازمات جو ثواب پہنچانے کے ٹھیکیداروں نے لگا لئے ہیں ان کی کوئی ضرورت نہین اور نہ ہی ان ٹھیکیداروں کی ٹھیکہ داری کا کوئی جواز ہے۔
Top