Ahsan-ut-Tafaseer - Yunus : 32
فَذٰلِكُمُ اللّٰهُ رَبُّكُمُ الْحَقُّ١ۚ فَمَا ذَا بَعْدَ الْحَقِّ اِلَّا الضَّلٰلُ١ۖۚ فَاَنّٰى تُصْرَفُوْنَ
فَذٰلِكُمُ : پس یہ ہے تمہارا اللّٰهُ : اللہ رَبُّكُمُ : تمہارا رب الْحَقُّ : سچا فَمَاذَا : پھر کیا رہ گیا بَعْدَ الْحَقِّ : سچ کے بعد اِلَّا : سوائے الضَّلٰلُ : گمراہی فَاَنّٰى : پس کدھر تُصْرَفُوْنَ : تم پھرے جاتے ہو
یہی خدا تو تمہارا پروردگار برحق ہے اور حق بات کے ظاہر ہونے کے بعد گمراہی کے سوا ہے ہی کیا ؟ تو تم کہاں پھرے جاتے ہو ؟
32۔ 33۔ جب حضرت ﷺ کو خدا کا یہ حکم ہوا کہ ان مشرکوں سے پوچھنا چاہیے کہ یہ کارخانہ دنیا کا کس نے بنایا کان آنکھ نطفہ اور نطفہ سے آدمی کس نے پیدا کیا جس کے جواب میں مشرکین یہی کہیں گے اللہ نے تو فرمایا اب ان کے جواب کے جواب میں یہ کہنا چاہئے کہ جب تم یہ بات مان چکے کہ سوائے خدا کے اور کسی میں بھی کسی بات کی قدرت نہیں تو پھر کیوں نہیں خدا سے ڈرتے ہو اور خالص اسی کی بندگی کرتے۔ بتوں سے کیوں غرض رکھتے ہو یہ حق کے بعد کیسی گمراہی ہے اپنی زبان سے آپ اقرار کرتے ہو کہ خدا کی ذات ایک ہے اسی میں ہر ایک بات کی قدرت ہے پھر بھی خدا کی طرف رجوع نہیں ہوتے بتوں کو اس کا شریک ٹھہراتے ہو پھر فرمایا کہ خدا کی بات ان فاسقوں پر پوری اتری یہ کبھی ایمان نہیں لائیں گے ان کے دلوں میں تو گمراہی بھری ہوئی ہے۔ صحیح مسلم کے حوالہ سے عبد اللہ بن عمرو بن العاص ؓ کی حدیث ایک جگہ گزر چکی ہے جس میں آنحضرت ﷺ نے فرمایا جو کچھ دنیا میں ہو رہا ہے دنیا کے پیدا ہونے سے پچاس ہزار برس پہلے اپنے علم ازلی کے نتیجہ کے طور پر وہ سب اللہ تعالیٰ نے لوح محفوظ میں لکھ لیا ہے 1 ؎ اس حدیث کو آیت کی تفسیر میں بڑا دخل ہے کیونکہ دنیا کے پیدا ہونے سے پہلے اللہ تعالیٰ نے جن لوگوں کو اپنے علم کے موافق بےحکم لکھا تھا دنیا میں پیدا ہونے کے بعد جب وہ لوگ بےحکم رہے تو اس پر فرمایا کہ ان بےحکم لوگوں کے حق میں اللہ کی لکھی ہوئی بات ٹھیک آئی۔ 1 ؎ صححح مسلم ص 335 ج 2 باب حجاج آدم و موسیٰ ۔
Top