Al-Qurtubi - Yunus : 32
فَذٰلِكُمُ اللّٰهُ رَبُّكُمُ الْحَقُّ١ۚ فَمَا ذَا بَعْدَ الْحَقِّ اِلَّا الضَّلٰلُ١ۖۚ فَاَنّٰى تُصْرَفُوْنَ
فَذٰلِكُمُ : پس یہ ہے تمہارا اللّٰهُ : اللہ رَبُّكُمُ : تمہارا رب الْحَقُّ : سچا فَمَاذَا : پھر کیا رہ گیا بَعْدَ الْحَقِّ : سچ کے بعد اِلَّا : سوائے الضَّلٰلُ : گمراہی فَاَنّٰى : پس کدھر تُصْرَفُوْنَ : تم پھرے جاتے ہو
یہی خدا تو تمہارا پروردگار برحق ہے اور حق بات کے ظاہر ہونے کے بعد گمراہی کے سوا ہے ہی کیا ؟ تو تم کہاں پھرے جاتے ہو ؟
آیت نمبر : 32۔ قولہ تعالیٰ : (آیت) ” فذلکم اللہ ربکم الحق، فما ذا بعد الحق الا الضلل “۔ اس میں آٹھ مسائل ہیں : مسئلہ نمبر : (1) (آیت) ” فذلکم اللہ ربکم الحق “۔ یعنی وہ جو اس قسم کے کام کرتا ہے وہ تمہارا حقیقی پروردگار ہے، نہ کہ وہ جنہیں تم اس کے ساتھ شریک ٹھہراتے ہو۔ (آیت) ” فما ذا بعد الحق “۔ ذا صلہ ہے ای بابعد عبادۃ الالہ الحق اذاترکت عبادتہ الا الضلال (یعنی الہ حقیقی کی عبادت کے بعد جب تو اس کی عبادت کو چھوڑ دے گمراہی کے سوا کچھ نہیں ہے) اور بعض متقدمین نے کہا ہے : اس آیت کا ظاہر اس پر دلالت کرتا ہے کہ اللہ تعالیٰ کے بعد جو ہے وہ گمراہی ہے، کیونکہ اس کا اول حصہ (آیت) ” فذلکم اللہ ربکم الحق “۔ اور آیت کا آخر (آیت) ” فما ذا بعد الحق الا الضلل “۔ ہے پس یہ ایمان اور کفر کے بارے میں ہے، اعمال کے بارے میں نہیں ہے۔ اور بعض نے کہا ہے : بیشک کفر حق کو ڈھانپ دیتا ہے اور ہر وہ جو حق کے سوا ہے وہ اس کے قائم مقام ہوگا، پس حرام گمراہی ہے اور مباح ہدایت ہے، کیونکہ اللہ تعالیٰ ہی مباح کرنے والا اور حرام کرنے والا ہے صحیح پہلا قول ہے کیونکہ پہلے فرمایا : (آیت) ” قل من یرزقکم من السمآء والارض “۔ پھر فرمایا : (آیت) ” فذلکم اللہ ربکم الحق “۔ یعنی یہ ہے وہ جو تمہیں رزق دیتا ہے اور یہ سب اس کا فعل ہے (آیت) ” ربکم الحق “۔ وہی تمہارا حقیقی پروردگار ہے الوہیت جس کا حق ہے اور اس کی عبادت واجب ہے اور جب صورت حال یہ ہے تو پھر کسی اور کا شریک ٹھہرانا گمراہی اور غیر حق ہے۔ مسئلہ نمبر : (2) ہمارے علماء نے کہا ہے : اس آیت نے یہ فیصلہ دے دیا ہے کہ حق اور باطل کے درمیان کوئی تیسری منزل نہیں یہ اس مسئلہ میں ہے جو اللہ تعالیٰ کی توحید کے بارے ہے اور اس کی نظائر میں بھی حکم اسی طرح ہے اور یہ ان اصولی مسائل میں سے ہے جن میں ایک طرف میں حق ہے، کیونکہ کلام اسی میں ہے بلاشبہ وہ وجود ذات کے بیان میں ہے کہ وہ کیسے ہے اور یہ ان فروعی مسائل کے خلاف ہے جن کے بارے اللہ تعالیٰ نے فرمایا : (آیت) ” لکل جعلنا منکم شرعتہ ومنھاجا (الما 48) (ہر ایک کے لیے بنائی ہے ہم نے تم میں سے ایک شریعت اور عمل کی راہ) اور آپ ﷺ کا ارشاد ہے : ” حلال بین اور واضح ہے اور حرام بھی بین اور واضح ہے اور ان دونوں کے درمیان امور متشابہات ہیں “۔ (1) (صحیح بخاری، کتاب الایمان، جلد 1، صفحہ 13) اور کلام فروع کے بارے ہے اور بلاشبہ یہ ایسے احکام کے بارے ہے جو طاری ہوتے ہیں ایسے پختہ اور مضبوط اصول پر جن میں کوئی اختلاف نہیں کیا جاتا بلکہ ان سے متعلقہ احکام میں اختلاف کیا جاتا ہے۔ مسئلہ نمبر : (3) ام المومنین حضرت عائشہ صدیقہ ؓ کی حدیث سے ثابت ہے کہ حضور نبی مکرم ومعظم ﷺ جب رات کے وسط میں نماز کے لیے قیام فرما ہوتے تو کہتے : ” اے اللہ تیرے لیے ہی حمد ہے “ الحدیث۔ اور اس میں یہ ہے ” تو حق اور انبیاء حق ہیں اور محمد ﷺ حق ہیں “ (1) (صحیح بخاری، کتاب التہجد، جلد 1، صفحہ 151) الحدیث۔ پس آپ ﷺ کا قول : انت الحق اس کا معنی ہے تو واجب الوجود ہے، اور اس کی اصل حق الشیء سے ہے، یعنی جب کوئی شے ثابت اور واجب ہوجائے۔ حقیقی طور پر یہ وصف اللہ تعالیٰ کے لیے ہی ہے کیونکہ اس کو وجود اپنا ذاتی ہے نہ اس سے پہلے عدم تھا اور نہ اسے عدم لاحق ہوگا (یعنی کوئی ایسی ساعت نہیں گزری جس میں اللہ تعالیٰ کی ذات موجود نہ ہو اور کوئی ایسی ساعت نہیں آئے گی جس میں وہ موجود نہ ہوگا وہ ہمیشہ سے ہے ہمیشہ تک رہے گا) اور اس کے سوا جس پر بھی یہ اسم بولا جائے گا اس سے پہلے عدم ہے اور اور اس پر عدم کا لاحق ہونا جائز ہے اور اس کا وجود اپنے موجد کی جانب سے ہے اپنی ذات کی طرف سے نہیں ہے، اور اس معنی کے اعتبار سے صحیح ترین کلام وہی ہے جو شاعر نے کہا ہے لبید کا قول ہے : الا کل شی ما خلا اللہ باطل : خبردار سنو : اللہ تعالیٰ کے سوا ہر شے باطل ہے۔ اور اسی کی طرف اشارہ اللہ تعالیٰ کے اس فرمان میں ہے : (آیت) ” کل شیء ھالک الا وجھہ لہ الحکم والیہ ترجعون “۔ (ہر چیز ہلاک ہونے والی سوائے اس کی ذات کے اسی کی حکمرانی ہے اور اسی کی طرف تمہیں لوٹا یا جائے گا) مسئلہ نمبر : (4) حق کا مقابلہ ضلال کے ساتھ کرنا لغۃ اور شرعا معروف ہے جیسا کہ اس آیت میں ہے اور اسی طرح حق کا مقابلہ باطل کے ساتھ کرنا بھی لغۃ اور شرعا معروف ہے۔ اللہ تعالیٰ نے ارشاد فرمایا : (آیت) ” ذلک بان اللہ ھو الحق وان ما یدعون من دونہ ھو الباطل “۔ (الحج : 62) (نیز اس کی یہ وجہ بھی ہے کہ اللہ تعالیٰ ہی ہے جو خدائے برحق ہے اور جسے وہ پوجتے ہیں اس کے علاوہ وہ سراسر باطل ہے) اور ضلال کا حقیقی معنی حق سے نکلنا ہے، یہ ضلال الطریق سے لیا گیا ہے اور یہ راستے کی سمت سے پھرجانا، ابن عرفہ نے کہا ہے : عربوں کے نزدیک ضلالۃ سے مراد ایسے راستے پر چلنا ہے جو مقصود اور منزل کا نہ ہو۔ کہا جاتا ہے : ضل عن الطریق (وہ راستے سے بھٹک گیا) اور اضل الشی جب وہ کسی شے کو ضائع کر دے۔ اور شرعا یہ اس عبارت کے ساتھ خاص ہے۔ العدول عن السدادفی الاعتقاد دون الاعمال (اعتقاد میں صحیح (سمت) سے پھرجانا نہ کہ اعمال میں) اور اس کے بارے میں غریب قول یہ بھی ہے کہ حق سبحانہ وتعالیٰ کے بارے معرفت نہ ہونے کو ضلال سے تعبیر کیا جاتا ہے جب اس کے مقابلے میں غفلت ہو اور اس کے عدم کے ساتھ جہالت یا شک مقترن نہ ہو، اور اسی پر علماء نے اللہ تعالیٰ کے اس ارشاد کو محمول کیا ہے : (آیت) ” ووجدک ضالا فھدی “۔ (الضحی) ای غافلا یہ اس کی کئی تاویلات میں سے ایک ہے اور اس کی تصدیق اللہ تعالیٰ کا یہ قول کرتا ہے (آیت) ” ماکنت تدری ما الکتب ولا الایمان “۔ (الشوری : 52) (نہ آپ یہ جانتے تھے کہ کتاب کیا ہے اور نہ یہ کہ ایمان کیا ہے ) مسئلہ نمبر : (5) عبداللہ بن عبدالحکم اور اشہب نے امام مالک (رح) سے اس قول باری تعالیٰ : (آیت) ” فما ذا بعد الحق الا الضلل “۔ میں روایت کیا ہے، انہوں نے فرمایا : شطرنج اور چوسر (نرد) کھیلنا گمراہی میں سے ہے، اور یونس نے ابن وہب سے روایت کیا ہے کہ ان سے اس آدمی کے بارے میں پوچھا گیا جو اپنے گھر میں اپنی بیوی کے ساتھ چودہ گوٹیوں کے ساتھ کھیلتا ہے، تو امام مالک (رح) نے فرمایا : میرے لیے یہ کتنی تعجب کی بات ہے، حالانکہ یہ مومنین کی شان نہیں ہے، اللہ تعالیٰ فرماتا ہے : (آیت) ” فما ذا بعد الحق الا الضلل “۔ (پس حق کے بعد گمراہی کے سوا کیا ہے) اور یونس نے اشہب سے روایت کیا ہے انہوں نے بیان کیا : امام مالک (رح) سے شطرنج کھیلنے کے بارے پوچھا گیا، تو انہوں نے فرمایا : اس میں خیر اور بھلائی نہیں ہے اور یہ کوئی شے نہیں ہے اور یہ باطل ہے اور کھیل تمام کے تمام باطل میں سے ہیں، بلاشبہ صاحب عقل کو چاہیے کہ اس کی ریش اور بڑھاپا اسے باطل سے روکے (1) (احکام القرآن لابن العربی، سورة یونس، جلد 3، صفحہ 1052) اور زہری (رح) سے جب شطرنج کے بارے پوچھا گیا، تو انہوں نے کہا : یہ باطل میں سے ہے اور میں اسے پسند نہیں کرتا۔ مسئلہ نمبر : (6) علماء نے شطرنج وغیرہ کھیلنے کے جواز میں اختلاف کیا ہے جب یہ جوئے کی صورت پر نہ ہو، پس شطرنج کے بارے میں امام مالک (رح) اور جمہور فقہاء کے مذہب کا ماحصل یہ ہے کہ جو اس کے ساتھ جوا نہ کھیلے اور اپنی اہلیہ کے ساتھ گھر میں چھپ کر مہینے میں یا سال میں ایک بار کھیلے۔ اس پر نہ کوئی مطلع ہو اور نہ اس کے بارے کسی کو علم ہو تو وہ اس کے لیے معفوعنہ ہے، نہ اس پر حرام ہے اور نہ اس کے لیے مکروہ ہے۔ اور اگر وہ اس میں منہمک ہوگیا اور اس میں مشہور ہوگیا تو اس کی مروت اور عدالت ساقط ہوجائے گی اور اس کی شہادت رد کردی جائے گی، اور رہے امام شافعی (رح) تو ان کے اصحاب کے مذہب میں نرد (چوسر) اور شطرنج کھیلنے والے کی شہادت ساقط نہیں ہوتی، جب کہ وہ اپنے جمیع ساتھیوں میں عادل ہو اور اس کی طرف سے سفاہت، شک اور گناہ کبیرہ ظاہر نہ ہو مگر یہ کہ وہ اس کے ساتھ جوا کھیلنے لگے، پس اگر اس کے ساتھ اس نے جوا کھیلا اور وہ اس کے ساتھ معروف ہوگیا تو اس کی عدالت ساقط ہوجائے گی اور باطل کے ذریعے مال کھانے کی وجہ سے اس نے اپنے آپ کو سفیہ (بےوقوف) بنا دیا ہے۔ اور امام اعظم ابوحنیفہ (رح) نے کہا ہے کہ شطرنج، نرد، اربعہ عشر کھیلنا اور ہر لہو مکروہ ہے۔ اور اگر ان کے ساتھ کھیلنے والے سے گناہ کبیرہ ظاہر نہ ہو اور اس کی خوبیاں اور نیکیاں اس کی برائیوں سے زیادہ ہوں تو ان کے نزدیک اس کی شہادت قبول کی جائے گی۔ علامہ ابن عربی (رح) نے کہا ہے : شافعیہ نے کہا ہے بیشک شطرنج نرد کے مخالف ہے، کیونکہ اس میں فہم کو تیز کرنے اور طبیعت کو عمل کے قابل بنانے کی صلاحیت ہے اور نرد جوا ہے، دھوکا ہے وہ اسے نہیں جانتا جو اس میں اس کے لیے نکلے گا جیسا کہ فال کے تیروں کے ساتھ تقسیم کا مطالبہ کرنا۔ مسئلہ نمبر : (7) ہمارے علماء نے کہا ہے : نرد وہ کٹا ہوا ٹکڑا ہے جو بقس کی لکڑی سے اور ہاتھی کی ہڈی سے بھرا ہوا ہو اور اسی طرح شطرنج بھی ہے، کیونکہ یہ اس کا بھائی ہے اسی کے دودھ سے اسے غذا دی گئی ہے اور نرد وہ ہے جو باطل کے نام سے معروف ہے، اس کی پہچان کعاب کے نام سے بھی ہے اور اسے دور جاہلیت میں ارن کے نام سے پہچانا جاتا تھا اور یہ نرد شیر کے نام سے بھی معروف ہے۔ اور صحیح مسلم میں سلیمان بن بریدہ سے انہوں نے اپنے باپ سے اور انہوں نے حضور نبی مکرم ومعظم ﷺ سے روایت بیان کی ہے کہ آپ ﷺ نے فرمایا : ” جو کوئی نرد شیر کے ساتھ کھیلا تو گویا اس نے اپنا ہاتھ خنزیر کے گوشت اور اس کے خون میں ڈالا “ (1) (صحیح مسلم، کتاب تحریم اللعب، جلد 2، صفحہ 240) ہمارے علماء نے کہا ہے : اس کا معنی یہ ہے کہ وہ اس آدمی کی طرح ہے جس نے اپنا ہاتھ خنزیر کے گوشت میں ڈالا جو اس نے تیار کیا ہوا تھا تاکہ اسے کھائے اور خنزیر میں ایسا کرنا حرام ہے، جائز نہیں ہے، آپ ﷺ کا ارشاد اسے بیان کرتا ہے : ” جو نرد کے ساتھ کھیلا تحقیق اس نے اللہ تعالیٰ اور اس کے رسول ﷺ کی نافرمانی کی “ (2) (سنن ابن ماجہ، کتاب الادب، صفحہ 275، موطا امام مالک، کتاب الجامع، صفحہ 724) اسے امام مالک (رح) وغیرہ نے حضرت ابو موسیٰ اشعری ؓ کی حدیث سے روایت کیا ہے اور یہ حدیث صحیح ہے، اور آپ نرد کے ساتھ کھیلنا کلی طور پر حرام قرار دے رہے ہیں اور اسی طرح شطرنج بھی ہے، آپ نے کسی وقت کی استثنا نہیں کی ہے اور نہ ہی کسی حال کی استثنا کی ہے اور یہ خبر دی ہے کہ ایسا کرنے والا اللہ تعالیٰ اور اس کے رسول کی نافرمانی کرنے والا ہے، مگر اس میں یہ احتمال ہو سکتا ہے کہ نرد جس کے ساتھ کھیلنے سے منع کیا گیا ہے اس سے مراد جوئے کی طرز پر کھیلنا ہو، کیونکہ بغیر جوئے کے شطرنج کھیلنے کی اجازت تابعین سے مروی ہے۔ (لیکن) اسے عموم پر محمول کرنا چاہے اس میں جوا ہو یا نہ ہو زیادہ اولی ہے اور اس میں احتیاط زیادہ ہے انشاء اللہ تعالیٰ ۔ ابو عبداللہ حلیمی نے کتاب ” منہاج الدین “۔ میں کہا ہے : شطرنج کے بارے میں جو حدیث آئی ہے اس میں اسی طرح روایت کیا گیا ہے جیسے نرد کے بارے میں روایت کیا جاتا ہے کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا : ” جو کوئی شطرنج کے ساتھ کھیلا تحقیق اس نے اللہ تعالیٰ اور اس کے رسول کی نافرمانی کی “۔ اور حضرت علی ؓ سے روایت ہے کہ وہ بنی تمیم کی مجالس میں سے ایک مجلس کے پاس سے گزرے اس حال میں کہ وہ شطرنج کھیل رہے تھے تو آپ اس کے پاس ٹھہرگئے اور فرمایا : ” خبردار سنو ! قسم بخدا ! تم اس کے سوا کے لیے پیدا کیے گئے ہو ! خبردار سنو ! قسم بخدا ! اگر یہ سنت نہ ہوتی (1) (المنباج میں یہاں لفظ سبۃ ہے، مترجم) تو میں اسی کے ساتھ تمہارے چہروں پر مارتا “۔ اور آپ ﷺ سے ہی مروی ہے کہ آپ ایک قوم کے پاس سے گزرے وہ شطرنج کھیل رہے تھے تو آپ نے فرمایا : یہ کیسے بت ہیں جن کے ساتھ تم چمٹے پڑے ہو، کیونکہ تم میں سے کسی کا (آگ کا) انگارہ پکڑنا اسے پکڑنے سے بہتر ہیں، یہاں تک کہ وہ اسے بجھا دے، اور حضرت ابن عمر ؓ سے شطرنج کے بارے میں پوچھا گیا تو آپ نے فرمایا : یہ نرد سے زیادہ بری ہے، اور حضرت ابو موسیٰ اشعری ؓ نے فرمایا : شطرنج کے ساتھ نہیں کھیلتا مگر خطا اور گناہ کرنے والا، اور ابو جعفر سے شطرنج کے بارے سوال کیا گیا تو انہوں نے کہا : ہم نے اس مجوسیت کو چھوڑ دیا ہے۔ اور حضور نبی مکرم ومعظم ﷺ سے ایک طویل حدیث میں ہے :” بیشک جو کوئی نرد، شطرنج، جوز (اخروٹ) اور کعاب کے ساتھ کھیلا اللہ تعالیٰ اس سے نفرت رکھتا ہے اور جو کوئی نرد اور شطرنج کھیلنے والوں کے پاس بیٹھا تاکہ ان کی طرف دیکھے تو اس سے اس کی ساری نیکیاں مٹا دی گئیں اور وہ ان میں سے ہوگیا جنہیں اللہ تعالیٰ نے مبغوض بنادیا “۔ یہ تمام آثار اس پر دلالت کرتے ہیں کہ بغیر جوئے کے بھی ان کے ساتھ کھیلنا حرام ہے، واللہ اعلم، اور ہم نے سورة المائدہ میں اس کی تحریم کا بیان ذکر کیا ہے اور یہ کہ یہ تحریم میں خمر (شراب) کی مثل ہے، کیونکہ یہ اسی کے ساتھ مقترن ہے، واللہ اعلم۔ ابن عربی نے قبس میں کہا ہے : امام شافعی (رح) نے اسے جائز قرار دیا ہے اور ان میں سے بعض کی حالت یہاں تک پہنچ گئی ہے کہ وہ کہنے لگے : یہ مندوب (مستحب) ہے یہاں تک کہ انہوں نے اسے مدرسہ میں رکھا دیا اور جب طالب پڑھنے سے تھک جاتے تو وہ اس کے ساتھ مسجد میں کھیلتے، اور انہوں نے صحابہ کرام رضوان اللہ تعالیٰ عنہم اجمعین اور تابعین رحمۃ اللہ علیہم کی ایک جماعت کی طرف اس کی نسبت کی ہے کہ وہ اس کے ساتھ کھیلتے رہے ہیں اور یہ کبھی نہیں ہوا۔ قسم بخدا ! کسی متقی کے ہاتھ نے اسے مس نہیں کیا۔ اور وہ کہتے ہیں : بیشک یہ ذہن کو تیز کرتی ہے اور ظاہر ان کی تکذیب کرتا ہے، کسی ذہین آدمی نے اس میں کبھی تجربہ حاصل نہیں کیا، میں نے امام ابو الفضل عطا مقدسی کو مسجد اقضی میں مناظرہ کے دوران یہ کہتے ہوئے سنا ہے : بیشک یہ (فن) حرب سکھاتی ہے، تو انہیں طرطوشی نے کہا : بلکہ یہ تو جنگ کی تدبیر کو فاسد کرتی ہے، کیونکہ جنگ سے مقصود تو بادشاہی اور اس کی مدہوشی ہوتا ہے، اور شطرنج میں تو کہتا ہے : شاہ تو بچ ! بادشاہ کو میرے راستے سے دور کردے، پس اس نے حاضرین کو ہنسا دیا۔ اور کبھی امام مالک (رح) نے اس بارے میں سختی کی ہے اور اسے حرام قرار دیا ہے اور اس بارے میں کہا ہے : (آیت) ” فما ذا بعد الحق الا الضلل “۔ اور کبھی اس میں تھوڑی سہولت اور آسانی پیدا کی ہے۔ لیکن پہلا قول ہی اصح ہے۔ واللہ اعلم۔ اگر کوئی کہنے والا کہے : حضرت عمر بن خطاب ؓ سے روایت ہے کہ ان سے شطرنج کے بارے میں پوچھا گیا، تو انہوں نے پوچھا : شطرنج کیا ہے ؟ تو آپ کو بتایا گیا : بیشک ایک عورت کا ایک بیٹا تھا اور وہ بادشاہ تھا پس وہ جنگ میں اپنے ساتھیوں کے بغیر مارا گیا، تو اس نے کہا : یہ کیسے ہو سکتا ہے تم مجھے یہ واضح اور ظاہر کرکے دکھاؤ، تو اس کے لیے شطرنج کا عمل کیا گیا، پس جب اس نے اسے دیکھا تو اسے اس سے تسلی ہوگئی اور انہوں نے حضرت عمر ؓ کے لیے شطرنج کا وصف بیان کیا تو آپ نے فرمایا : اس میں کوئی حرج نہیں جو آلہ حرب میں سے ہے۔ تو اسے جوابا یہ کہا جائے گا : اس میں کوئی حجت نہیں ہے، کیونکہ آپ نے شطرنج کے بارے لاباس (کوئی حرج نہیں) کے الفاظ نہیں کہے بلکہ آپ نے کہا : لا باس بما کان من الۃ الحرب (اس میں کوئی حرج نہیں جو آلہ حرب میں سے ہے) بلاشبہ آپ نے یہ کہا : کیونکہ آپ پر یہ مشتبہ ہوگیا کہ شطرنج کے ساتھ کھیلنا ان میں سے ہے جن کے ساتھ اس جنگ کی پہچان میں مدد حاصل کی جاتی ہے، پس جب آپ کو یہ بتایا گیا اور آپ کا علم اسے محیط نہ ہوا تو آپ نے کہا : لاباس بما کان میں آلۃ الحرب اگر اسی طرح ہے جیسے تم کہہ رہے ہو تو پھر اس میں کوئی حرج نہیں اور اس طرح صحابہ کرام رضوان اللہ تعالیٰ عنہم اجمعین میں سے وہ جس نے آپ سے یہ روایت بیان کی ہے کہ آپ نے اس سے منع نہیں کیا، تو بیشک آپ سے اسے اس پر محمول کیا جائے گا کہ آپ کا گمان تھا کہ یہ وہ ہے جس کے ساتھ مشغولیت اور غفلت نہیں ہوتی، بلکہ اس سے جنگ اور اس کے دوران باہم ضرب لگانے کے علم کا سبب بننے کا ارادہ کیا جاتا ہے یا اس بنا پر کہہ دیا کہ خبر مسند ان تک پہنچی ہی نہیں، حلیمی نے کہا ہے : جب خبر صحیح ہے تو پھر اس کے ہوتے ہوئے کسی کے لیے کوئی حجت نہیں، بلاشبہ اس میں تمام کے خلاف حجت ہے۔ مسئلہ نمبر : (8) ابن وہب نے اپنی اسناد کے ساتھ ذکر کیا ہے کہ حضرت عبداللہ بن عمر ؓ بچوں کے پاس سے گزرے وہ کجہ کے ساتھ کھیل رہے تھے اور یہ (چھوٹا سا) گڑھا کھود کر اس میں سنگریزوں کے ساتھ کھیلتے تھے، ابن وہب نے بیان کیا ہے : پس حضرت ابن عمر ؓ نے اسے بند کردیا اور انہیں اس سے منع فرمایا۔ اور ہر وی نے باب (الکاف مع الجیحم) میں حضرت ابن عباس ؓ کی حدیچ میں ذکر کیا ہے : ہر شے میں جوا ہے حتی کہ کجہ کے ساتھ بچوں کے کھیل میں بھی ہے، ابن الاعرابی (رح) نے کہا ہے : وہ یہ ہے کہ ایک بچہ کپڑے کا ٹکڑا لیتا ہے اور اسے گول بنا لیتا ہے گویا کہ وہ گیند ہے، پھر اس کے ساتھ جوا کھیلتے ہیں اور دکج جب کوئی کجہ کے ساتھ کھیلے۔ قولہ تعالیٰ : (آیت) ” فانی تصرفون “۔ یعنی تمہاری عقلوں کو کیسے ان کی عبادت کی طرف پھیرا جارہا ہے جو نہ رزق دے سکتے ہیں نہ زندہ کرسکتے ہیں اور نہ موت دے سکتے ہیں۔
Top