Maarif-ul-Quran - Yunus : 32
فَذٰلِكُمُ اللّٰهُ رَبُّكُمُ الْحَقُّ١ۚ فَمَا ذَا بَعْدَ الْحَقِّ اِلَّا الضَّلٰلُ١ۖۚ فَاَنّٰى تُصْرَفُوْنَ
فَذٰلِكُمُ : پس یہ ہے تمہارا اللّٰهُ : اللہ رَبُّكُمُ : تمہارا رب الْحَقُّ : سچا فَمَاذَا : پھر کیا رہ گیا بَعْدَ الْحَقِّ : سچ کے بعد اِلَّا : سوائے الضَّلٰلُ : گمراہی فَاَنّٰى : پس کدھر تُصْرَفُوْنَ : تم پھرے جاتے ہو
سو یہ اللہ ہے رب تمہارا سچا پھر کیا رہ گیا سچ کے پیچھے مگر بھٹکنا سو کہاں سے لوٹے جاتے ہیں۔
آخری آیت میں فرمایا (آیت) فَذٰلِكُمُ اللّٰهُ رَبُّكُمُ الْحَقُّ ۚ فَمَاذَا بَعْدَ الْحَقِّ اِلَّا الضَّلٰلُ ، یعنی یہی ہے وہ ذات جس کی صفات کمال کا ذکر ابھی ابھی گزرا ہے پھر حق کے بعد گمراہی کے سوا کیا ہے، یعنی جب اللہ تعالیٰ کا معبود برحق ہونا ثابت ہوگیا تو پھر اس حق کو چھوڑ کر دوسروں کی طرف رخ پھیرنا کس قدر نامعقول بات ہے۔
اس آیت کے مسائل و فوائد میں سے یہ بات یاد رکھنے کی ہے کہ آیت میں (آیت) مَاذَا بَعْدَ الْحَقِّ اِلَّا الضَّلٰلُ سے یہ ثابت ہوتا ہے کہ حق اور ضلال کے درمیان کوئی واسطہ نہیں جو حق نہیں ہوگا وہ ضلال و گمراہی میں داخل ہوگا، ایسا کوئی کام نہیں ہوسکتا جو نہ حق ہو نہ گمراہی اور یہ بھی نہیں ہوسکتا کہ دو متضاد چیزیں حق ہوں، تمام اصول عقائد میں یہ قاعدہ جمہور امت کے نزدیک مسلم ہے، البتہ جزئی مسائل اور جزئیات فقہیہ میں علماء کا اختلاف ہے، بعض حضرات کے نزدیک اجتہادی مسائل میں دونوں جانبوں کو حق کہا جائے گا اور جمہور اس پر متفق ہیں کہ اجہتادی مسائل میں جانب خلاف کو ضلال و گمراہی نہیں کہہ سکتے۔
Top