Ahsan-ut-Tafaseer - Ibrahim : 4
وَ مَاۤ اَرْسَلْنَا مِنْ رَّسُوْلٍ اِلَّا بِلِسَانِ قَوْمِهٖ لِیُبَیِّنَ لَهُمْ١ؕ فَیُضِلُّ اللّٰهُ مَنْ یَّشَآءُ وَ یَهْدِیْ مَنْ یَّشَآءُ١ؕ وَ هُوَ الْعَزِیْزُ الْحَكِیْمُ
وَ : اور مَآ اَرْسَلْنَا : ہم نے نہیں بھیجا مِنْ رَّسُوْلٍ : کوئی رسول اِلَّا : مگر بِلِسَانِ : زبان میں قَوْمِهٖ : اس کی قوم کی لِيُبَيِّنَ : تاکہ کھول کر بیان کردے لَهُمْ : ان کے لیے فَيُضِلُّ : پھر گمراہ کرتا ہے اللّٰهُ : اللہ مَنْ يَّشَآءُ : جس کو وہ چاہتا ہے وَيَهْدِيْ : اور ہدایت دیتا ہے مَنْ يَّشَآءُ : جو کو چاہتا ہے وَهُوَ : اور وہ الْعَزِيْزُ : غالب الْحَكِيْمُ : حکمت والا
اور ہم نے کوئی پیغمبر نہیں بھیجا مگر اپنی قوم کی زبان بولتا تھا تاکہ انھیں (احکام خدا) کھول کھول کر بتادے۔ پھر خدا جسے چاہتا ہے گمراہ کرتا ہے اور جسے چاہتا ہے ہدایت دیتا ہے۔ اور وہ غالب اور حکمت والا ہے۔
4۔ مشرکین حضرت ﷺ پر اعتراض جو کرتے تھے کہ یہ قرآن خود ان کا بنایا ہوا ہے خدا کی طرف سے نہیں آیا اگر کسی اور زبان میں ہوتا تو ہم یقین کرتے یہ تو انہیں کی زبان میں ہے خود انہوں نے بنا لیا ہے اسی کے جواب میں یہ آیت اتری کہ یہ بہت بڑا خدا کا احسان ہے کہ جتنی قوم میں رسول اس نے بھیجے سب انہیں میں سے اور جتنی کتابیں اتاریں انہیں کی زبان میں، نہیں تو پھر لوگوں کو جو دقتیں پیش آتیں اس کا کچھ ٹھکانا نہیں۔ اپنی زبان ہونے پر تو یہ کفرو انکار ہے دوسری زبان ہوتی تو یہ عذر ہوتا کہ سمجھنے سے عاجز ہیں۔ اسی واسطے ہمیشہ یہی دستور رکھا گیا ہے کہ ہر پیغمبر کو اس کی قوم کی زبان میں کتاب بھیجی تاکہ آسانی سے وہ خدا کے احکام ان لوگوں تک پہنچا دیں باقی رہا ان کا ایمان لانا اور گمراہ رہنا تو وہ خدا کے ہاتھ میں ہے وہ جس کو چاہتا ہے اپنے علم ازلی کے موافق ان آسمانی احکام کے پابند ہونے کی توفیق دیتا ہے اور جس کا گمراہی کی حالت پر دنیا سے اٹھنا اس کے علم ازلی میں ٹھہر چکا ہے اس کو وہ اس کی حالت پر چھوڑتا ہے { وھو العزیز الحکیم } اس کا مطلب یہ ہے کہ اگرچہ وہ ایسا زبردست اور صاحب قدرت ہے کہ اگر وہ چاہے تو ان منکروں کو مجبور کر کے راہ راست پر لانا اس کی قدرت سے باہر نہیں ہے چناچہ سورت الانعام میں گزر چکا ہے { ولو شاء اللہ ما اشرکوا } [6: 107) جس کا مطلب یہ ہے کہ علم الٰہی میں جن لوگوں کا گمراہی کی حالت میں اٹھ جانا ٹھہر چکا ہے ایسے لوگوں کو مجبور کر کے راہ راست پر لانا اللہ کو منظور نہیں ہے کیونکہ اس کے سب کام حکمت کے ہیں انسان کو نیکی بدی کے کرنے کا اختیار دے کر دنیا کے پیدا کرنے میں نیک و بد کے جانچنے کی حکمت جو اس نے رکھی ہے مجبوری کی حالت میں وہ باقی نہیں رہتی حاصل کلام یہ ہے کہ یہ دنیا عالم اسباب ہے جس کا ہر ایک کام کسی نہ کسی سبب پر منحصر ہے لیکن اس اسباب میں تاثیر کا پیدا ہونا یہ اللہ تعالیٰ کے علم ارادہ اور حکم پر موقوف ہے جیسے مثلاً ایک ہی دوا کو دو مریض استعمال کرتے ہیں پھر جس مریض کا اس دوا سے شفا کا پانا اللہ کے علم اور ارادہ میں ٹھہر چکا ہے اس کے حق میں دوا کی تاثیر کا حکم ہوجاتا ہے نہیں تو نہیں اسی طرح رسولوں کا آنا آسمانی کتابوں کا نازل ہونا یہ ہدایت کے اسباب ہیں لیکن ان اسباب میں ہدایت کی تاثیر کا پیدا ہوجانا یہ اللہ تعالیٰ کے علم اور ارادہ ازلی کے موافق اسی کے ہاتھ ہے غرض { فیضل اللہ من یشاء ویھدی من یشآء } کی تفسیر اہل سنت کے مذہب کے موافق یہی ہے جو بیان کی گئی۔ صحیح بخاری و مسلم کے حوالہ سے ابو موسیٰ اشعری ؓ کی حدیث گزر چکی 1 ؎ ہے۔ جس میں آنحضرت ﷺ نے قرآن کی مثال مینہ کے پانی کی اور اچھے برے لوگوں کی مثال اچھی بری زمین کی بیان فرمائی ہے۔ اس حدیث کو آیت کی تفسیر میں بڑا دخل ہے جس کا حاصل وہی ہے جو اوپر بیان کیا گیا ہے کہ جو لوگ علم الٰہی میں نیک ٹھہر چکے ہیں ان کے دل پر قرآن کی نصیحت کا ایسا ہی اثر پڑتا ہے جس طرح اچھی زمین پر مینہ کے پانی کا اثر پڑتا ہے۔ اسی طرح جو لوگ علم الٰہی میں بد قرار پا چکے ہیں ان کے حق میں قرآن کی نصیحت ایسی رائیگاں جس طرح بری زمین میں مینہ کا پانی رائیگاں جاتا ہے۔ آنحضرت ﷺ کی قوم کے لوگ عرب تھے اس واسطے اس آیت کے موافق قرآن شریف عربی زبان میں نازل ہوا لیکن سورت الاعراف کی آیت { قل یا ایھا الناس انی رسول اللہ الیکم جمیعا } [7: 58] سے اور صحیح بخاری و مسلم کی جابر بن عبد اللہ ؓ اور مسلم کی اور ابوہریرہ ؓ کی اس مضمون کی حدیثوں سے جب کہ یہ معلوم ہوگیا کہ آنحضرت ﷺ کی نبوت کل مخلوق کے لئے ہے 2 ؎ تو آیت کا یہ مطلب ہوا کہ اللہ کے رسول ﷺ عرب کے لوگ کو قرآن کا مطلب عربی زبان میں سمجھا دیں اور ہر قوم کے عام لوگ اپنی زبان میں قرآن کا ترجمہ اور قرآن کی تفسیر کر کے باقی کے لوگوں کو سمجھا دیں تاکہ عام نبوت کا اثر سب لوگوں میں پھیل جاوے۔ 1 ؎ جلد ہذا ص 228۔ 2 ؎ تفسیر ابن کثیر ص 522۔ 523 ج 2۔
Top