Tafseer-e-Mazhari - Ibrahim : 4
وَ مَاۤ اَرْسَلْنَا مِنْ رَّسُوْلٍ اِلَّا بِلِسَانِ قَوْمِهٖ لِیُبَیِّنَ لَهُمْ١ؕ فَیُضِلُّ اللّٰهُ مَنْ یَّشَآءُ وَ یَهْدِیْ مَنْ یَّشَآءُ١ؕ وَ هُوَ الْعَزِیْزُ الْحَكِیْمُ
وَ : اور مَآ اَرْسَلْنَا : ہم نے نہیں بھیجا مِنْ رَّسُوْلٍ : کوئی رسول اِلَّا : مگر بِلِسَانِ : زبان میں قَوْمِهٖ : اس کی قوم کی لِيُبَيِّنَ : تاکہ کھول کر بیان کردے لَهُمْ : ان کے لیے فَيُضِلُّ : پھر گمراہ کرتا ہے اللّٰهُ : اللہ مَنْ يَّشَآءُ : جس کو وہ چاہتا ہے وَيَهْدِيْ : اور ہدایت دیتا ہے مَنْ يَّشَآءُ : جو کو چاہتا ہے وَهُوَ : اور وہ الْعَزِيْزُ : غالب الْحَكِيْمُ : حکمت والا
اور ہم نے کوئی پیغمبر نہیں بھیجا مگر اپنی قوم کی زبان بولتا تھا تاکہ انہیں (احکام خدا) کھول کھول کر بتا دے۔ پھر خدا جسے چاہتا ہے گمراہ کرتا ہے اور جسے چاہتا ہے ہدایت دیتا ہے اور وہ غالب (اور) حکمت والا ہے
وما ارسلنا من رسول الا بلسان قومہ اور ہم نے ہر پیغمبر کو اسی کی قوم کی زبان میں پیغمبر بنا کر بھیجا۔ قَوْمِہٖ سے مراد ہے : وہ قوم جس میں پیغمبر پیدا ہوا اور مبعوث ہوا۔ عبد بن حمید ‘ ابن جریر اور ابن المنذر نے حضرت قتادہ کا قول نقل کیا ہے کہ لسان قوم سے مراد ہے : قوم کی بولی۔ اگر قوم عربی ہوئی تو پیغمبر کی زبان بھی عربی ہوئی اور عربی میں ہی اس کو پیام دے کر بھیجا گیا اور اگر قوم کی زبان عجمی ہوئی تو پیغمبر کو بھی عجمی زبان میں پیام دے کر بھیجا گیا۔ اسی طرح سریانی کو سریانی زبان میں (اور ہندی کو ہندی زبان میں۔ مترجم) پیام دیا گیا۔ لیبین لھم تاکہ (پیغمبر کی امت کو جو احکام دئیے گئے تھے) وہ قوم کے سامنے کھول کر بیان کر دے اور قوم والے آسانی کے ساتھ ان کو سمجھ لیں اور پیغمبر کو قوم کے خلاف تبلیغ کی ایک مضبوط دلیل مل جائے۔ رسول اللہ ﷺ سے پہلے ہر پیغمبر کو اس کی قوم کی اصلاح کیلئے (خصوصیت کے ساتھ) بھیجا گیا تھا لیکن رسول اللہ ﷺ کو تمام انسانوں کی ہدایت کیلئے بھیجا گیا مگر اوّل اپنی قوم کو تبلیغ کرنے کیلئے آپ کو مبعوث فرمایا گیا تھا۔ اللہ تعالیٰ نے فرمایا ہے : وَاَنْذِرْ عَشِیْرَتَکَ الْاَقْرَبِْیْنَ ۔ دوسری آیت ہے : لِتُنْذِرَ اُمَّ الْقُرَیٰ وَمَنْ حَوْلَھَا۔ تیسری آیت ہے : لِتُنْذِرَ قَوْمًا مَّآ اُنْذِرَ ٰاٰبآءُ ھُمْ (اوّل آیت میں صرف اقرباء کو تبلیغ کرنے کا حکم ہے ‘ دوسری آیت میں اہل مکہ اور دوسرے آفاقیوں کو اور تیسری آیت میں تمام عرب کو۔ مترجم) اسلئے اہل حجاز کیلئے (اوّل اور بلاواسطہ) اور پھر بالواسطہ تمام انسانوں کیلئے آپ کو پیغمبر بنا کر بھیجا گیا اور واضح عربی زبان میں پیام نازل فرمایا گیا۔ پس اہل حجاز نے اللہ کا کلام اور پیام رسول اللہ ﷺ سے سیکھا ‘ پھر اس کو منتقل کیا اور دوسرے لوگوں نے (اپنی زبانوں میں) اس کے ترجمے کئے۔ اسی لئے رسول اللہ ﷺ نے فرمایا : لوگ خیر و شر میں قریش کے تابع ہیں۔ رواہ احمد و مسلم فی الصحیح عن جابر۔ حدیث کا مطلب یہ ہے کہ کفار قریش چونکہ سب سے پہلے منکر نبوت ہوئے ‘ اس لئے دوسرے کافر نبوت کفار قریش کے تابع ہوئے اور کفار قریش سب کے امام۔ اسی طرح جو قریش ایمان لے آئے ‘ وہ دوسروں سے پہلے ایمان لائے اور دوسرے لوگ ان کے بعد مؤمن ہوئے ‘ اس لئے ایمان لانے والے قریشی امام اور دوسرے مؤمن ان کے تابع ہوئے۔ پس خیر و شر دونوں میں قریش امام اور باقی لوگ ان کے پیرو قرار پائے۔ حضرت جریر کی روایت ہے کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا : جس نے اسلام میں کوئی اچھا طریقہ قائم کیا ‘ اس کو اس طریقے (پر چلنے کا اور قائم کرنے) کا ثواب بھی ملے گا اور اس طریقے پر جتنے لوگ چلیں گے ‘ ان کے ثواب کے برابر بھی اجر ملے گا (بعد کو) اس طریقہ پر عمل کرنے والوں کے ثواب میں کمی نہیں کی جائے گی (ایسا نہ ہوگا کہ ان کا ثواب گھٹا کر طریقۂ حسنہ قائم کرنے والے کا ثواب بڑھا دیا جائے) اور جس نے اسلام میں کوئی طریقہ برا جاری کیا ‘ اس پر اس برے طریقے (کو اختیار کرنے) کا گناہ بھی ہوگا اور (آئندہ) جو لوگ اس طریقے پر عمل کریں گے ‘ ان کا گناہ بھی ہوگا مگر اس سے برے طریقہ پر چلنے والوں کے گناہ (اور سزا) میں کوئی کمی نہیں ہوجائے گی۔ رواہ مسلم۔ ابن عساکر نے ضعیف سند کے ساتھ حضرت ابو سعید کی روایت سے بیان کیا کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا : اے مدینے والو ! لوگ علم میں تمہارے تابع ہیں۔ مدینے والوں سے مراد ہیں : انصار اور مہاجر۔ دوسرے لوگ مہاجرین و انصار کے تابع ہیں مگر انصار ‘ دین (خلافت) میں مہاجرین کے تابع ہیں۔ دونوں حدیثوں میں کوئی تضاد نہیں ہے۔ حضرت ابو رافع کی روایت ہے کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا : اپنے گھر والوں کیلئے شیخ (سب کا بزرگ) ایسا ہے جیسے امت کیلئے پیغمبر۔ رواہ ابن النجار والجلیلی فی مشیختہ۔ حضرت ابن عمر راوی ہیں کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا : اپنے گھر میں شیخ ایسا ہے جیسے اپنی قوم (امت) میں پیغمبر۔ رواہ ابن حبان فی الضعفاء۔ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا : علماء انبیاء کے وارث ہیں۔ رواہ احمد والترمذی وابو داؤد وابن ماجۃ والدارمی عن کثیر بن قیس۔ ترمذی نے راوی کا نام قیس بن کثیر بتایا ہے۔ حضرت ابو سعید خدری راوی ہیں کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا : اور لوگ تمہارے متبع ہیں۔ لوگ تمہارے پاس اطراف ملک سے دین سیکھنے آتے ہیں۔ تم ان سے اچھا سلوک کرو ‘ بھلائی کی ان کو نصیحت کرو۔ رواہ الترمذی۔ بعض علماء نے لکھا ہے کہ حدیث الشیخ فی بیتہ کالنبی فی قومہٖ میں قومہٖ کی ضمیر رسول اللہ ﷺ کی طرف راجع ہے (اور النبی سے مراد رسول اللہ ﷺ ہیں) اس کا مطلب یہ ہوا کہ تمام کتابیں عربی میں اتاری گئی تھیں ‘ پھر حضرت جبرئیل نے ان کا ترجمہ مختلف (انبیاء کی) زبانوں میں کیا۔ ابن مردویہ نے بوساطت کلبی ‘ حضرت ابن عباس کا قول نقل کیا ہے کہ حضرت جبرئیل کو عربی زبان میں وحی کی جاتی تھی ‘ پھر حضرت جبرئیل ہر نبی کے پاس ان کی قوم کی زبان میں وحی لے کر آتے تھے۔ ابن المنذر اور ابن ابی حاتم نے حضرت سفیان ثوری کا قول نقل کیا ہے کہ (پیغمبروں پر) وحی تو صرف عربی میں نازل کی گئی ‘ پھر ہر نبی نے وحی کا ترجمہ اپنی قوم کی زبان میں کردیا۔ سفیان ثوری نے یہ بھی کہا کہ قیامت کے دن سریانی زبان ہوگی اور جنت میں جو لوگ جائیں گے ‘ وہ عربی میں کلام کریں گے۔ (حضرت مفسر نے کہا) میں کہتا ہوں : قَوْمِہٖ کی ضمیر رسول اللہ ﷺ کی طرف راجع کرنا بعید از فہم ہے۔ آیت لِیُبَیِّنَ لَھُمْ بِلِسَانِ قَوْمِہٖ کی صراحت اس کے خلاف ہے۔ فیضل اللہ من یشآء پس اللہ گمراہ کردیتا ہے جس کو چاہتا ہے۔ یعنی ایمان کی توفیق نہیں دیتا۔ ویھدی من یشآء اور جس کو چاہتا ہے ہدایت یاب کرتا ہے۔ یعنی ایمان کی توفیق دے دیتا ہے اور حق کا یقین اس کے دل میں پیدا کردیتا ہے۔ وھو العزیز اور وہی غالب ہے ‘ اس کی مشیّت پر کوئی غالب نہیں۔ جس کو وہ ہدایت کر دے ‘ اس کو کوئی گمراہ کرنے والا نہیں اور جس کو وہ گمراہ کر دے ‘ اس کو کوئی ہدایت یاب نہیں کرسکتا۔ الحکیم وہی حکمت والا ہے۔ اپنی مصلحت کے تحت ہدایت یاب یا گمراہ کرتا ہے۔
Top