Ahsan-ut-Tafaseer - Maryam : 73
وَ اِذَا تُتْلٰى عَلَیْهِمْ اٰیٰتُنَا بَیِّنٰتٍ قَالَ الَّذِیْنَ كَفَرُوْا لِلَّذِیْنَ اٰمَنُوْۤا١ۙ اَیُّ الْفَرِیْقَیْنِ خَیْرٌ مَّقَامًا وَّ اَحْسَنُ نَدِیًّا
وَاِذَا : اور جب تُتْلٰى : پڑھی جاتی ہیں عَلَيْهِمْ : ان پر اٰيٰتُنَا : ہماری آیتیں بَيِّنٰتٍ : واضح قَالَ : کہتے ہیں الَّذِيْنَ : وہ جنہوں نے كَفَرُوْا : کفر کیا لِلَّذِيْنَ : ان سے جو اٰمَنُوْٓا : وہ ایمان لائے اَيُّ : کون سا الْفَرِيْقَيْنِ : دونوں فریق خَيْرٌ مَّقَامًا : بہتر مقام وَّاَحْسَنُ : اور اچھی نَدِيًّا : مجلس
اور جب ان لوگوں کے سامنے ہماری آیتیں پڑھی جاتی ہیں تو جو کافر ہیں وہ مومنوں سے کہتے ہیں کہ دونوں فریق میں سے مکان کس کے اچھے اور مجلسیں کس کی بہتر ہیں ؟
73۔ 74:۔ اوپر منکرین حشر کا ذکر تھا ان آیتوں میں فرمایا کہ یہ لوگ دنیا کا پیدا کیا جانا بلا نتیجہ گنتے ہیں اور اللہ تعالیٰ کے انتظام میں دنیا کے فنا ہونے کے بعد نیک وبد کی جزاو سزا کا فیصلہ جو ضروری ٹھہرا ہے اس کو یہ لوگ جھٹلاتے ہیں اسی واسطے جزا وسزا کی قرآن کی آیتیں جب ان کو سنائی جاتی ہیں تو تنگ دست ایماندار لوگوں سے کہتے ہیں کہ اگر تم حق پر ہوتے اور ہم ناحق پر ہوتے تو تم دنیا میں ایسے تنگدست اور ہم اس طرح کے خوشحال نہ ہوتے کیونکہ دنیا کی خوشحالی اللہ تعالیٰ کی مہربانی کی نشانی ہے اللہ نے اس کا جواب یہ دیا کہ ان سے پہلے بڑے بڑے خوشحال منکر حشر لوگ طرح طرح کے عذابوں سے ہلاک کیے جا چکے ہیں جس سے ہر ایک سمجھ میں یہ بات آسکتی ہے کہ اگر حشر کا انکار قابل سزا جرم نہ ہوتا اور دنیا کی خوشحالی اللہ کی مہربانی کی نشانی ہوتی تو بلا جرم ایسے قابل مہربانی لوگوں کو اللہ تعالیٰ طرح طرح کے عذابوں سے کبھی ہلاک نہ کرتا کس لیے کہ اس طرح کا ہلاک کرنا ظلم میں داخل ہے اور ظلم اللہ تعالیٰ نے اپنی ذات پاک پر حرام ٹھہرا لیا ہے صحیح مسلم کے حوالہ سے ابوذر ؓ کی حدیث قدسی ایک جگہ گزر چکی ہے جس کا حاصل یہ ہے کہ منکر شریعت لوگ عقبیٰ کے اجر کو نہیں مانتے اس لیے لوگوں کی نیکی کے بدلہ میں دنیا کی کچھ خوش حالی دنیا میں ہی ان کو مل جاتی ہے 1 ؎۔ منکر شریعت لوگوں کی دنیا کی خوشحالی کا سبب اس حدیث سے اچھی طرح سمجھ میں آسکتا ہے۔ 1 ؎ صحیح مسلم ص 374 ج 2 باب جزاء المؤمن بحسناتہ فن الدنیا الخ۔
Top