Fi-Zilal-al-Quran - Maryam : 73
وَ اِذَا تُتْلٰى عَلَیْهِمْ اٰیٰتُنَا بَیِّنٰتٍ قَالَ الَّذِیْنَ كَفَرُوْا لِلَّذِیْنَ اٰمَنُوْۤا١ۙ اَیُّ الْفَرِیْقَیْنِ خَیْرٌ مَّقَامًا وَّ اَحْسَنُ نَدِیًّا
وَاِذَا : اور جب تُتْلٰى : پڑھی جاتی ہیں عَلَيْهِمْ : ان پر اٰيٰتُنَا : ہماری آیتیں بَيِّنٰتٍ : واضح قَالَ : کہتے ہیں الَّذِيْنَ : وہ جنہوں نے كَفَرُوْا : کفر کیا لِلَّذِيْنَ : ان سے جو اٰمَنُوْٓا : وہ ایمان لائے اَيُّ : کون سا الْفَرِيْقَيْنِ : دونوں فریق خَيْرٌ مَّقَامًا : بہتر مقام وَّاَحْسَنُ : اور اچھی نَدِيًّا : مجلس
ان لوگوں کو جب ہماری کھلی کھلی آیات سنائی جاتی ہیں تو انکار کرنے والے ایمان لانے والوں سے کہتے ہیں ” بتائو ہم دونوں گروہوں میں سے کون بہتر حالت میں ہے اور کس کی مجلسیں زیادہ شاندار ہیں
بڑی بڑی مجلسیں اور عیش و طرب کی محفلیں اور وہ قدریں جن پر کبراء اور مترفین زمانہ اخلاقی فساد میں عمل پیرا ہوا کرتے ہیں اور ان کے مقابلے میں بظاہر نچلے درجے کی سوسائٹیاں اور غربت و افلاس والوں کی محفلیں جن میں ایمان کے سوا اور کوئی سازو سامان کم ہی ہوتا ہے۔ نیز ان میں زیب وزینت اور شان و شوکت کم ہوتی ہے۔ نہ قیمتی لباس ہوتے ہیں اور نہ قیمتی جائے قیام۔ اس دنیا میں لوگ ان ہی چیزوں میں باہم مقابلہ کرتے ہیں اور ان ہی کی بنیاد پر طبقاتی امتیازات قائم ہوتے ہیں۔ اس مقابلے اور نمایش گاہ میں ‘ پہلے طبقے کے اسٹال پر بڑا بڑا دنیاوی سازو سامان ‘ مال و جمال ‘ قوت اور مرتبہ ‘ بڑے بڑے معاذات ‘ بڑی بڑی آمدنیاں ‘ کھانے پینے کے لذیذ سازو سامان ہوتے ہیں اور دوسرے طبقے کے اسٹال پر فقرو تواضع ہے۔ ایسا سازو سامان جو کبرا کے ہاں قیمتی ہے ‘ ان کی نظروں میں حقیر ہے ‘ جاہ و مرتبہ ان کے ہاں پر کا ہ کے برابر ہے۔ یہ دوسرا اسٹال عیش طرب کے لئے نہیں۔ معاذات کے لئے نہیں ‘ حکام کے ہاں اثر و رسوخ کے لئے نہیں ‘ اقتدار ہر فخر کے لئے نہیں بلکہ محض نظریاتی متاع گراں بہا کی طرف بلاتا ہے ‘ اس اسٹال پر کوئی قیمتی دنیاوی مال و متاع نہیں ہے ‘ کوئی ارائش و زیبائش نہیں ہے لیکن وہاں اللہ کے کلمے کی سر بلندی کا داعی ہے ‘ صرف کلمہ حق کی سر بلندی کی طرف یہ دوسرا فرق بلاتا ‘ نہ صرف یہ کہ یہاں مذکور دنیاوی چیزیں نہیں بلکہ مشقت ‘ جدوجہد اور قربانیاں ہیں۔ ان تمام مشقتوں کا عوض بھی اس دنیا میں نہیں ہے۔ یہاں انہیں صرف اللہ کا قرب حاصل ہوگا ‘ جہاں تک اجر اور جزاء کا تعلق ہے وہ آخرت میں ہے۔ یہ قریش جن کو حضور اکرم ﷺ کے دور میں آیات الہیہ سنائی جارہی تھی ‘ وہ اہل ایمان فقراء کو دیکھ کر یہ کہتے تھے : ای الفریقین خیر مقاما واحسن ندیا (91 : 37) ” بتائو ‘ ہم دونوں گروہوں میں سے کون بہتر حالات میں ہے اور کس کی مجلسیں زیادہ شاندار ہیں “۔ وہ کبرا بہتر ہیں جو محمد ﷺ پر ایمان نہیں لاتے یا وہ فقراء بہتر ہیں جو اس کے ارد گرد جمع ہیں ان میں سے کن کے حالات دنیاوی اعتبار سے بہتر ہیں اور کس کی سوسائٹی شاندار ہے۔ ایک طرف نضیر ابن حارث ‘ عمرو ابن ہشام ‘ ولید بن مغیرہ اور ان کے بھائی اور دوسرے سردار ہیں اور دوسری جانب بلال ‘ عمار ‘ باب اور ان کے دوسرے بھائی ہیں جن کے پاس ایک کوڑی نہیں ہے۔ اگر محمد ﷺ جن باتوں کی طرف بلاتے ہیں وہ اچھی ہوتیں تو ان کے ساتھی یہ لوگ جن کی قریش کی سوسائٹی میں کوئی قدروقیمت نہیں ہے اور نہ ان کا کوئی رعب ہے۔ یہ لوگ سب کے سب ایک مسکین حباب کے گھر جمع ہوتے ہیں جو غریب اور بےروز گا رہے۔ اور محمد ﷺ کے مخالف بڑی بڑی شاندار مجالس میں بیٹھتے ہیں اور سوسائٹی میں ان کا اونچا مرتبہ ہے۔ یہ ہے دنیا پرستوں کی منطق اور ان کی سوچ۔ ہر زمان و مکان میں دنیا پرستوں اور کوتاہ بینوں کی یہی انداز فکر ہوتی ہے۔ اللہ کی حکمت کا تقاضا ہی یہ ہے کہ دعوت اسلامی اور اس کے املیں دنیاوی زیب وزینت سے خاخلی ہوں ‘ زیب وزینت اور مصنوعی رنگ و روغن ان کی اصل حقیقت کو نہ چھپا سکے۔ ان کی کسی چیز میں کوئی کلا کاری نہ ہو۔ اس دعوت کو ان داعوں کی قیادت کو قبول کرنا چاہے وہ خالص اللہ کے لئے قبول کریں ‘ اس دعوت کو قبول کریں۔ اس میں دنیا اور دنیا پرستوں کا کوئی کردار نہ ہو۔ ان میں کوئی نمائش اور طمع کاری نہ ہو تاکہ جو لوگ دنیا کے مفادات چاہتے ہیں ‘ دنیا کا نفع چاہتے ہیں وہ اس طرف نہ آئیں جو دنیا کی زیب وزینت چاہتے ہیں ‘ شان و شوکت چاہتے ہیں اور مال و متاع چاہتے ہیں وہ دورر ہیں۔ ان بر خود غلط گمراہوں اور کافروں کی منطق ‘ شان و سکت اور زیب وزینت کی نمائش کرنے والوں کی اس طرز فکر کو ایک وجدانی چٹکی سے ڈرا تاریخ انسانیت کی طرف موڑ دیا جاتا ہے کہ تاریخ انسانی میں کئی اقوام ‘ اس قسم کا بظاہر شاندار مقام عزت رکھتی تھیں ‘ دنیا کے مال و متاع اور نعمتوں میں مست تھیں لیکن ذرا دیکھو ‘ ان کا کیا انجام ہوا ؟
Top