Maarif-ul-Quran - Maryam : 73
وَ اِذَا تُتْلٰى عَلَیْهِمْ اٰیٰتُنَا بَیِّنٰتٍ قَالَ الَّذِیْنَ كَفَرُوْا لِلَّذِیْنَ اٰمَنُوْۤا١ۙ اَیُّ الْفَرِیْقَیْنِ خَیْرٌ مَّقَامًا وَّ اَحْسَنُ نَدِیًّا
وَاِذَا : اور جب تُتْلٰى : پڑھی جاتی ہیں عَلَيْهِمْ : ان پر اٰيٰتُنَا : ہماری آیتیں بَيِّنٰتٍ : واضح قَالَ : کہتے ہیں الَّذِيْنَ : وہ جنہوں نے كَفَرُوْا : کفر کیا لِلَّذِيْنَ : ان سے جو اٰمَنُوْٓا : وہ ایمان لائے اَيُّ : کون سا الْفَرِيْقَيْنِ : دونوں فریق خَيْرٌ مَّقَامًا : بہتر مقام وَّاَحْسَنُ : اور اچھی نَدِيًّا : مجلس
اور جب سنائے ان کو ہماری آیتیں کھلی ہوئی کہتے ہیں جو لوگ کہ منکر ہیں ایمان والوں کو دونوں فرقوں میں کس کا مکان بہتر ہے اور کس کی اچھی لگتی ہے مجلس
خلاصہ تفسیر
اور جب ان منکر لوگوں کے سامنے ہماری (وہ) کھلی کھلی آیتیں پڑھی جاتی ہیں (جن میں مومنین کا حق پر ہونا اور کفار کا باطل پر ہونا مذکور ہوتا ہے) تو یہ کافر لوگ مسلمانوں سے کہتے ہیں کہ (یہ بتلاؤ ہم) دونوں فریقوں میں (یعنی ہم میں اور تم میں دنیا میں) مکان کس کا زیادہ اچھا ہے اور محفل کس کی اچھی ہے (یعنی ظاہر ہے کہ خانگی اور مجلسی ساز و سامان اور اہل و اعوان میں ہم بڑھے ہوئے ہیں۔ یہ مقدمہ تو محسوس ہے اور دوسرا مقدمہ عرفی ہے کہ انعام و احسان اور عطاء نعمت اس شخص کے لئے ہوتا ہے جو دینے والے کے نزدیک محبوب اور پسند ہو، ان دونوں مقدموں سے ثابت ہوا کہ ہم اللہ کے محبوب و مقبول ہیں اور تم مغضوب و مخذول۔ آگے اللہ تعالیٰ ایک جواب الزامی اور ایک تحقیقی دیتے ہیں۔ پہلا جواب تو یہ ہے کہ یہ لوگ ایسی بات کہتے ہیں) اور (یہ نہیں دیکھتے کہ) ہم نے ان سے پہلے بہت سے ایسے ایسے گروہ (ہیبت ناک سزاؤں سے کہ بالیقین عذاب تھے) ہلاک کئے ہیں جو سامان اور نمود میں ان سے بھی (کہیں زیادہ) اچھے تھے (اس سے معلوم ہوا کہ مقدمہ ثانیہ غلط ہے بلکہ کسی حکمت اور مصلحت سے نعمت دنیویہ مبغوض و مردود کو بھی دی جاسکتی ہے، آگے دوسرا جواب ہے کہ اے پیغمبر ﷺ آپ فرما دیجئے کہ جو لوگ گمراہی میں ہیں (یعنی تم) اللہ تعالیٰ ان کو ڈھیل دیتا چلا جا رہا ہے (یعنی اس نعمت دنیوی میں یہ حکمت ہے کہ مہلت دے کر اتمام حجت کر دے جیسا دوسری آیت میں ہے اَوَ لَم نُعَمِّرکُم مَّا یَتَذَکَّرُ فیہِ مَن تَذَ کَّرَ ، الخ اور یہ مہلت چند روزہ ہے) یہاں تک کہ جس چیز کا ان سے وعدہ کیا گیا ہے جب اس کو دیکھ لیں گے خواہ عذاب کو (دنیا میں) خواہ قیامت کو (دوسرے عالم میں) سو (اس وقت) ان کو معلوم ہوجاوے گا کہ برا مکان کس کا ہے اور کمزور مددگار کس کے ہیں (یعنی دنیا میں جو اپنے اہل مجلس کو اپنا مددگار سمجھتے ہیں اور فخر کرتے ہیں وہاں معلوم ہوگا کہ ان میں کتنا زور ہے کیونکہ وہاں تو کسی کا کوئی زور ہوگا ہی نہیں۔ اسی کو اضعف فرمایا تھا اور (مسلمانوں کا یہ حال ہے کہ) اللہ تعالیٰ ہدایت والوں کو (دنیا میں تو) ہدایت بڑھاتا ہے (یعنی اصل سرمایہ یہ ہے کہ اگر اس کے ساتھ مال و دولت نہ ہو مضر نہیں) اور (آخرت میں ظاہر ہوگا کہ) جو نیک کام ہمیشہ باقی رہنے والے ہیں وہ تمہارے رب کے نزدیک ثواب میں بھی بہتر ہے اور انجام میں بھی بہتر ہیں (پس ان کو ثواب میں بڑی بڑی نعمتیں ملیں گی جن میں مکان اور باغات سب کچھ ہوں گے اور انجام ان اعمال کا ابدیت اور دوام ہے ان نعمتوں کا، پس کیفیةً وکمیةً مسلمانوں ہی کی حالت اخیرہ بہتر ہوگی اور اخیر ہی کا اعتبار بھی ہے)۔

معارف و مسائل
خَيْرٌ مَّقَامًا وَّاَحْسَنُ نَدِيًّا، یہاں کفار نے مسلمانوں کو مغالطہ دینے کے لئے دو چیزیں پیش کیں۔ اول دنیا کا مال و دولت اور ساز و سامان دوسرے چشم خدم اور اپنا جتھہ اور جماعت کہ یہ بظاہر کفار کو بہ نسبت مسلمانوں کے زیادہ حاصل تھی اور یہی دو چیزیں ہیں جو انسان کے لئے نشہ کا کام کرتی ہیں اور ان کا فخر و غرور اچھے اچھے عقلمند ذہین لوگوں کو غلط راستوں پر ڈال دیتا ہے اور پچھلے دور کے بڑے بڑے سرمایہ داروں اور حکومت و سلطنت والوں کی عبرت خیز تاریخ سے غافل کر کے اپنے موجودہ حال کو اپنا ذاتی کمال اور دائمی راحت کا ذریعہ باور کرا دیتا ہے۔ بجز ان لوگوں کے جو قرآن کریم کی تعلیم کے مطابق دنیا کے مال و دولت اور عزت و جاہ کسی کو اپنا ذاتی کمال یا دائمی ساتھی نہ سمجھیں اس پر اللہ تعالیٰ کا شکر زبان سے بھی ادا کریں اور اس کی دی ہوئی نعمت کو خرچ کرنے میں بھی اس کے احکام کی پابندی کریں اور اس کے فنا یا کم ہوجانے کے خطرہ سے بھی کسی وقت غافل نہ ہوں تو وہی اس شر سے محفوظ رہتے ہیں۔ جیسے انبیاء (علیہم السلام) میں، حضرت سلیمان اور داؤد (علیہما السلام) اور صحابہ کرام میں بہت سے اغنیاء صحابہ اور اسی طرح امت میں لاکھوں اولیاء، صلحاء جن کو حق تعالیٰ نے دنیا کا مال و دولت بھی خوب عطا فرمایا اور دین کی دولت اور اپنا خوف بھی بےانتہاء۔
کفار کے اس مغالطہ کو قرآن حکیم نے اس طرح دور فرمایا کہ دنیا کی چند روزہ نعمت و دولت نہ اللہ کے نزدیک مقبول ہونے کی علامت ہو سکتی ہے نہ دنیا ہی میں وہ کسی ذاتی کمال کی علامت سمجھی جاتی ہے۔ کیونکہ بہت سے بےعقل جاہلوں کو دنیا میں یہ چیزیں عقلاء اور دانشمندوں سے زیادہ مل جاتی ہیں۔ پچھلی تاریخ اٹھا کر دیکھو تو یہ حقیقت کھل جائے گی کہ ایسی ایسی بلکہ ان سے بھی زیادہ کتنی دولتوں اور شوکتوں کے ڈھیر زمین پر ہوتے دیکھے گئے ہیں۔
رہا حشم و خدم اور دوست و احباب کی کثرت سو اس کی حقیقت بھی اول تو دنیا ہی میں ظاہر ہوجاتی ہے کہ آڑے وقت میں کوئی کام نہیں آتا۔ پھر اگر دنیا میں وہ برابر خدمت کرتے بھی رہے تو وہ کَے دن کی، اس کے بعد محشر کے میدان میں ان کا کوئی ساتھی ہوگا ؟
Top